ریحان اسکول کورنگی کا مقصد غریب بچوں کو قابل رسائی، معیاری تعلیم فراہم کرکے، انہیں غربت کے چکر کو توڑنے اور ایک روشن مستقبل بنانے کے لیے بااختیار بنا کر پاکستان میں تعلیم میں انقلاب لانا ہے۔ہم نے اس کی کورنگی برانچ کا دورہ کیا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جس کو ہم یہاں اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں ۔
کیا کہیں آپ نے ایسا سکول بھی دیکھا ہے جہاں نہ کتابیں ،نہ کاپیاں، نہ قلم، امتحانوں کا کوئی بوجھ نہیں اور طلبہ پوری دلچسپی، شوق اور توجہ سے اسکول میں علم کے حصول کا جذبہ لیے آ رہے ہوں۔ جی یہ ذکر ہے ریحان اللہ والا کے سکول کا جہاں جدید طریقہ تعلیم کے ذریعے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم ،تحقیق، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی حاصل کر کے نئے جہاں دریافت کیے جا رہی ہوں ۔کورنگی کے علاقے میں دو منزلہ عمارت میں داخل ہوتے ہی اس اسکول نے پہلے قدم پر ہی چونکا دیا ۔ریسپشن پر رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کر کے ہم اسکول کے دفتر میں داخل ہوئے جہاں کی دیواریں اور چھت پر بنی سیاروں اور ستاروں کی تصاویر نئی دنیاؤں کی تسخیر کا عندیہ دے رہی تھیں۔
آفس میں مفتی احسان سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ حیران کن انکشاف کیا کہ وہ یہاں کے آج کے منتظم ہیں ان کے اسکول میں باری باری ہر طالب علم کو عارضی نگراں بنایا جاتا ہے تاکہ ہر طالب علم میں لیڈرشپ کی خوبیاں اور انتظامی امور کو سنبھالنے کے بہترین اوصاف پیدا ہوں ۔اسکول کے دورے کے دوران ہمیں وہاں کی نگراں نے مفید معلومات دیں ۔
یہاں داخلے کا آغاز نو سال کی عمر سے ہوتا ہے تاکہ بچوں کو ابتدائی پڑھنا لکھنا اور بولنا آنا چاہیے، جو عموماً پرائمری کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہو جاتا ہے۔ یہاں روایتی تعلیم کے بجائے سوشل میڈیا کے استعمال ،انگریزی میں مہارت اور کمانے سے متعلق ہی سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے ۔طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ان کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون مہیا بھی کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا چونکہ سماجی رابطے کی دنیا ہے ایک ٹچ اور کلک کے ذریعے آپ دنیا میں کسی بھی شخص سے رابطے میں آ جاتے ہیں اور اس سے ذاتی یا کاروباری روابط قائم کر سکتے ہیں۔ یہ منفرد اسکول نئی نسل کو نئے انداز سے بدلتی دنیا اور اس کے تقاضوں سے ہم اہنگ ہونے کے تمام اہم گر سکھا رہا ہے ۔
پیسے کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارا مذہب بھی کسب حلال پر بے حد زور دیتا ہے آج ہمارے طلبہ روایتی تعلیم حاصل کر کے اور لاکھوں فیس بھر کر بڑی بڑی ڈگریاں لینے کے باوجود بے روزگار پھر رہے ہیں ۔آبادی کے بڑھتے حجم اور روزگار کے گھٹتے مواقعوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں میں ذہنی اور نفسیاتی عوارض کو جنم دیا ۔ماسٹر ڈگری رکھنے والے بھی ٹیکسی چلانے، ٹھیلا لگانے اور معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
محترم ریحان اللہ والا نے معاشرے کے اسی عدم توازن کو دیکھتے ہوئے ایک بہترین قدم اٹھایا اور کورنگی کے اس علاقے میں طلبہ کی مہارتوں کو بدلتی دنیا سے مطابقت دینے کے لیے انہیں ابتدائی عمر سے ہی ٹیکنالوجی سے نہ صرف متعارف کرانے کا ذمہ لیا بلکہ انہیں اس کم عمری میں ہی روپیہ کمانے کے مواقع بھی سکھا رہے ہیں۔ تاکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کا تجربہ بھی بڑھتا رہے اور وہ اپنے خاندان کو بہترین سپورٹ فراہم کر سکیں۔
اسکول کے دورے کے دوران میں ہمیں قدم قدم پر چونکا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایک دیوار پر ہمیں خوبصورت فریم پر شہر کے مختلف مسائل کے حوالے سے موضوعات نظر آئے جن میں غربت، جہالت، بیماری ،مہنگائی اور اسی طرح کے اہم سماجی مسائل لکھے ہوئے تھے۔ طلبہ ان تمام مسائل میں سے جس مسئلے پر کام کرنا چاہیں وہ مسئلہ منتخب کر کے اس پر پوری یکسوئی سے کام شروع کرتے ہیں۔ ان بچوں کو چونکہ ایک برادری کی طرح آپس میں منسلک کر دیا گیا ہے۔ لہذا یہاں کے مسائل بھی وہ ایک برادری کی طرح مل بانٹ کر منتخب کر کے حل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور اس کے لیے اس مسئلے کے ساتھ ان کی “گوت” متعارف ہوتی ہے۔ اب وہ مسئلہ کے عنوان کے ساتھ “والا یا والی” لگاتے ہیں اور دل جمعی سے اس پر کام کرتے ہیں۔
ہمیں یہ دیکھ کر اور مل کر بڑی حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ ان طلبہ کے درمیان ایک درمیانی عمر کی خاتون بھی تھیں ۔جو مفلسی کے خلاف کام کر رہی ہیں اور “پاورٹی والا “کہلا کر اس جہاد میں طلباء کےشانہ بشانہ ہیں ۔ اپنے موضوع کی مناسبت سے مفلسی کا خاتمہ ہی ان کا مقصد ہے۔ چونکہ یہاں جو کچھ سکھایا جا رہا ہے اس میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم ایک انٹرویو لینا اور ایک انٹرویو دینا بھی ان کا ضرور اسائنمنٹ ہے۔ یہ خاتون طالبہ اب تک 123 انٹرویو کر چکی ہیں ۔
ا سکولوں میں جس طرح مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں اسی طرح یہاں بھی کلاس کے چھ ٹاسک ہیں۔ انٹرویو لینا، انٹرویو دینا، ویڈیو بنانا ، پوسٹ بنانا وغیرہ۔ روزانہ کے ٹاسک ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ انٹرویو پہلے آپس کی بنیاد پر طلبا کرتے ہیں ۔پھر بتدریج اس کا لیول بڑھتا ہے ۔جن میں بڑے بڑے یوٹیوبر اور کاروباری افراد بھی شامل ہیں۔ غیر ملکی مؤثر افراد سے بھی انٹرویو کیے جاتے ہیں اور اس طرح تعلقات میں دوستانہ رنگ بھی شامل ہو جاتا ہے اور جب وہ ہمارے ملک آتے ہیں تو ان بچوں سے بھی خاص ملاقات کرتے ہیں اور پھر انہی کے ذریعے سے طلباء کو نئے پروجیکٹ بھی حاصل ہوتے ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
پوڈ کاسٹ کے لیے مختص اسٹوڈیو روم کی خاصیت اس کی چاروں دیواروں کو مختلف بیک گراؤنڈ دینا بھی تھا کہ ہر مرتبہ ایک نیا انداز سامنے آئے۔ پوڈ کاسٹ کروانے بڑی بڑی اہم شخصیات بھی آچکی ہیں جن میں گورنر، نیوی کے افسران، آئی ٹی کے شعبے کی اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔ ایک کلاس میں ویڈیو ایڈیٹنگ بھی سکھائی جاتی ہے۔ طلبہ حصول علم کے ساتھ اپنے خاندان کے کار آمد فرد بھی بن جاتے ہیں۔ یعنی کماؤ پوت اور ڈالرز میں اپنی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔
ہم نے چند بچوں سے بات کی جنہوں نے کورسز مکمل کیے کورس کے درمیان اور بعد میں اب ایک بڑی رقم کما رہے ہیں۔
آٹھ سال کا یہ مکمل کورس ہے ۔جس کے بعد طلبہ معاشرے کا ایک مفید حصہ بن کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں فیس اگرچہ کچھ زیادہ ہے لیکن جو والدین ان اخراجات کو برداشت نہیں کر سکتے ان کے لیے خصوصی رعایت بھی مہیا ہے۔ اس سکول کا بنیادی مقصد کام کرنا، نت نئے ائیڈیاز کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملانا ہے۔
سینکڑوں سکولوں کے درمیان اس انوکھے اور منفرد سکول کا دورہ ایک یادگار رہا۔ بہترین معلومات حاصل ہوئی ایسے سکول جو وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے بنائے گئے اور اس کا نصاب روایتی نصاب سے سراسر مختلف ہے ۔کراچی جیسے شہر میں ایسے درجنوں سکول کی ضرورت ہے۔آزمائشی طور پر ابھی دو کیمپس کراچی میں کورنگی اور شھید ملت روڈ پر اور ایک خانیوال میں ہے۔ ایک اسلام آباد بارہ کوہ میں واقع ہےکورنگی میں واقع اسکول سولرسسٹم کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کر رہا ہے جو بڑا خوش آئند ہے۔