Advertisement

اسلامی بینکاری کے نام پر غیر اسلامی کاروبار

اسلام میں سود ہر شکل میں ممنوع ہے اور یہ امتناع انتہائی سخت ہے۔ قرآن پاک میں اس کے لئے لفظ ربا استعمال کیا گیا ہے۔ ربا کے ضمن میں ارشادات ربانی بالترتیب سورۂ روم کی آیت 39،سورۂ نساء کی آیت 161 ،سورۂ آل عمران کی آیت 130اور سورۂ البقرہ کی آیت 275 تا 281میں موجود ہیں۔
سود کی سماجی و معاشی تباہ کاریوں اور سود کی حرمت پر جو شدید ترین وعید قرآن اور سنت میں آئی ہیں وہ کسی دوسرے گناہ پر یقیناً نہیں آئیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آنے والے برسوں میں ایک بڑی غلطی بہرحال ہوئی اور وہ یہ تھی کہ سود سے اجتناب کو کافی سمجھ لیا گیا ۔اس کے تباہ کن اثرات بہرحال 2002ء سے زیادہ واضح طور پر نظر آنا شروع ہوئے جب پاکستان میں سودی بینکوں اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کو متوازی طور پر کام کرنے کا غیر اسلامی فیصلہ کیا گیا۔ ہم بہرحال 2002سے پہلے سے کہتے رہے تھے کہ صرف سودسے بچنا کافی نہیں۔
1 اگر کوئی بینک صرف سود سے اجتناب کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بلاسودی بینک کہہ سکتا ہے لیکن یہ بینک اپنے آپ کو اسلامی بینک قطعی نہیں کہہ سکتا۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی جید عالم دین یا قابل احترام مفتی اس موقف سے اختلاف نہیں کرے گا۔
2 اسلام میں سود کو حرام قرردیاگیا ہے۔ پاکستان میں 2002 سے سودی بینک اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک متوازی طور پر یعنی ساتھ ساتھ کام کررہے ہیں اور مسلمانوں کو اختیار دیاگیا ہے کہ وہ چاہیں تو سودی بینکوں کے ساتھ کام کریں یا ”اسلامی بینکوں“ کے ساتھ۔ یہ یقیناً غیر اسلامی ہے، اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کوئی جید عالم یا قابل احترام مفتی اس موقف سے اختلاف نہیں کرے گا۔
3 اگر کوئی بینک اپنے آپ کو غیر سودی بینک کہتا ہے لیکن اس کی پراڈکٹس میں سود کی آمیزش ہوتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بلاسودی بینک نہیں کہہ سکتا۔
پاکستان میں کام کرنے والے ایک بینک کی شریعہ سپر وائزری کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے اب سے 18برس قبل6؍ دسمبر 2006کو ہم نے بینک کی اس کمیٹی کو اپنے نوٹ میں کہا تھا۔
1 اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت ملک میں سودی بینک اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک متوازی طور پر کام کر رہے جو کہ بہر حال غیر اسلامی ہے۔
2 اس غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری شروع کرنے کا فیصلہ فوجی حکمران پرویز مشرف کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جو ستمبر2001 میں اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ، وزارت قانون اور اسلامی نظریاتی کونسل کےکچھ ممبران بھی شامل تھے۔
3 اس متوازی نظام بینکاری کی موجودگی میں اسلامی بینک اگر کبھی چاہیں بھی تو وہ سودی بینکوں کی جانب سے اپنے کھاتے داروں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی خود بھی ختم نہیں کر سکتے۔
4 پاکستان میں کام کرنے والے اسلامی بینک بھی سودی بینکوں کی طرح اپنے کھاتے داروں کے ساتھ وہی ناانصافی کر رہے ہیں حالانکہ اسلام میں سود کو حرام قرار دیا گیاہے کیونکہ اس سے ناانصافی ہوتی ہے۔
ہم نے اپنے6؍ دسمبر 2006 کے نوٹ میں بینک کی شریعہ سپروائزری کمیٹی کو تجویز پیش کی تھی کہ مندرجہ بالا گزارشات کو اسٹیٹ بینک کو بھیج دیا جائے تاکہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کی آراء حاصل کر کے اس اہم معاملہ پر فیصلہ کیا جاسکے۔ بینک کی جس کمیٹی کو ہم نے ممبر کی حیثیت سے یہ گزارشات پیش کی تھیں اس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفسیر خورشید احمد بحیثیت چیئرمین اور ممبران میں ڈاکٹر محموداحمد غازی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر محمود احمدغازی اس وقت اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین بھی تھے۔ اس سے قبل ستمبر 2001میں ڈاکٹر محمود غازی اس اجلاس میں بھی شریک تھے جس میں ملک میں متوازی نظام بینکاری شروع کرنے کا غیر اسلامی اور غیر آئینی فیصلہ کیا گیا تھا ۔
بینک کی شریعہ سپروائزری کمیٹی نے طویل غور و غوض کے بعد ہماری گزارشات کو منظور کر لیا ۔ یہی نہیں،اس فیصلے کی توثیق بینک کی شریعہ سپر وائزری کمیٹی نے اپنے اگلےاجلاس میں بھی کر دی۔
بینک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد بحرحال آج بھی ہمارے تحفظات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائےخیر دے۔ اس شریعہ کمیٹی کے ایک اور ممبر ڈاکٹر محمود احمد غازی(مرحوم) نے ہمارے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ حکومت اسلامی بینکاری کے ضمن میں نیم دلانہ اور دباؤ کے تحت فیصلے کررہی ہے۔ انہوں نے مزید لکھاتھا کہ میں (ڈاکٹر غازی)اس نظام کے اندر رہ کر اصلاح کی کوششیں کررہا ہوں اس لیے میں یہ سوچ کر کانپ جاتا ہوں کہ اگر مروجہ اسلامی نظام بینکاری آگے چل کر گرا تو ذمہ دار میں بھی ہونگا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اگرچہ بینک کی شریعہ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے ہماری تجاویزکی منظوری دینے میں شریک تھے مگر وہ 2006کے بعد بھی غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری کی پشت پنا ہی کرتے رہے۔ تمام اسلامی بینک کھاتے داروں کےساتھ نا انصافی بھی کرتے رہے اور اپنےکھاتے داروں کا استحصال بھی کرتے رہے ۔ 2014میں مولانا مفتی تقی عثمانی اسٹیٹ بینک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین مقرر ہوئے مگرانہوں نے اس معاملہ پر خاموشی اختیار کیے رکھی اوراب وہی اس متوازی غیر اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر سب سے اہم شخصیت ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور ان کےرفقاء کو توفیق دی تھی کہ انھوں نے 28؍ اگست 2008کو یہ متفقہ فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری قطعی غیرشرعی اور غیر اسلامی ہے ۔ 2009میں غیر سودی بینکاری کے نام سے جامعتہ الرشید نے ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کی تیاری میں مفتی تقی عثمانی کی بھر پور ر مشاورت شامل تھی۔ اس کتاب میں مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پناہی کی گئی اور اسلامی بینکوں کےکھاتے داروں کو بینکوں کے منافع میں تقسیم کرنے کے فارمولے اورطریقہ کار کا دفاع کیا گیا مگر حیران کن طور پر متوازی نظام بینکاری کے غیراسلامی ہونے کی ہماری بات کے ضمن میں خاموشی رہی حالا نکہ اس سے دو برس قبل وہ اس نظام کو غیر اسلامی تسلیم کر نے کے ساتھ یہ بھی مان چکے تھے کہ اسلامی بینک کھاتے داروں کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔ مثلاً دسمبر 2023 میں سودی بینکوں کی جانب سے بچت کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع 20.50 فیصد تھی جبکہ دسمبر 2023میں سب سے بڑے اور منافع بخش بینک میزان اسلامک بینک کی جانب سےکھاتے داروں کو دی جا نےوالی شرح منافع 11.01 فیصد تھی۔
اگر وہ جید علما جو6 دسمبر 2006کی ہماری تحریری گزارشات کی منظوری دینے اور مروجہ متوازی نظام بینکاری کو غیر اسلامی تسلیم کرنے کےفیصلے میں شریک تھے بعد میں اعلانیہ اس غیر اسلامی متوازی نظامِ بینکاری کی حمایت واپس لے لیتے اور ملک کی معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے حکومت ، اسٹیٹ بینک اور بینکوں کی جانب سے سنجیدہ اور پرخلوص اقدامات اٹھائے جاتےتو پاکستان میں بینکاری کے نظام سے سود کا خاتمہ اب سے بہت پہلے ہوچکا ہوتا اور داخلی معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں حوصلہ افزاء پیش رفت ہوچکی ہوتی ۔
مندرجہ بالا نوٹ ہم نے 18برس قبل بینک کی شریعہ سپروائزری کمیٹی کے سامنے پیش کیاتھا جو منظور کرلیاگیا تھا۔ ان 18برسوں میں ہم نے درجنوں بار ان امور کی طرف مفتیانِ کرام اور علماء حضرات کی توجہ دلائی لیکن یہ غیر اسلامی اور سود پر مبنی نظام بدستور فروغ پاتارہا ہے۔ اب ہم یہ امانت عوام ، ماہرین اوران علماء و مفتیان کے سپرد کررہے ہیں جو مروجہ اسلامی بینکاری کو درست نہیں سمجھتے تاکہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرکے اپنے دینی فریضہ سے عہدہ برآء ہوسکیں۔
پاکستان میں 1980کی دہائی میں بلاسود بینکاری کا نفاذ کیا گیا تھا لیکن 22برس بعد اس نظام کو غیر اسلامی اور سودی نظام قراردے دیاگیا۔ 2002میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری نافذ کیاگیا لیکن ان اسلامی بینکوں کو اسلامی بینک قطعی نہیں کہا جاسکتا اور اس نظام کے تحت سودی نظام بدستور فروغ پارہا ہے جبکہ اسلام کی روح کے مطابق اسلامی بینکاری کا نظام مزید معاندانہ ہوگیا ہے۔ یہی نہیں، ”اسلامی بینکوں“ کی کچھ پراڈکٹس میں سود کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔
اکتوبر2024ء میں 26 ویں آئینی ترمیم میں ایک اہم تبدیلی آئین کی شق38(ایف)کے بارے میں ہے۔ اس ترمیم کے بعد حکومت ِپاکستان نے حالیہ دنوں میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ یکم جنوری 2028سے پہلے (معیشت سے) ربا کا خاتمہ کردیا جائے گا جس کا امکان ہمیں بہرحال نظر نہیں آتا۔ البتہ اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکاری کی طرزپر شریعت سےمتصادم یا مطابقت نہ رکھنے والے طریقے اپنا کر کچھ کامیابیوں کے دعوے کیے جاسکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ تباہی کا نسخہ ہوگااور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
گزشتہ تقریباً33برسوں سے شرعی عدالتیں جہاں عالم دین بھی موجود ہوتے ہیں یہ حتمی فیصلہ نہیں دے سکیں کہ اسلام میں سود حرام ہےیا نہیں۔ اب سے تین برس قبل اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ایک ٹی وی پروگرام میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ ہم نے مروجہ اسلامی بینکاری کے ضمن میں اپنے سنگین تحفظات کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس کے جواب میں ہماری آراء کو قیمتی قرار دیتے ہوئےانہوں نے تسلیم کیا کہ ان تحفظات کو دور کرنا بہت ضروری ہے لیکن بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس ضمن میں خاموشی اختیار کرلی۔
اسلامی نظریاتی کونسل مروجہ غیراسلامی نظامِ بینکاری کی گزشتہ 23 برسوں سےحمایت کرتی رہی ہے۔ کونسل نے کچھ عرصہ قبل ہمارے خط کے جواب میں یہ کہا کہ اس نے اسلامی بینکاری کے ضمن میں کوئی حتمی رائے قائم ہی نہیں کی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں تمام بینکوں (سودی بینک اور اسلامی بینک) نے جون 2024 میں اپنی ایکویٹی پر ٹیکس سے قبل 42.6 فی صد منافع کمایا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی بینکوں نے جون 2024 میں اپنی ایکویٹی کے مقابلے میں منافع کی شرح 70.6 فی صد حاصل کی۔ یعنی تمام بینکوں کا ٹیکس سے قبل منافع 42.6 فیصد تھا، جبکہ اسلامی بینکوں کا 70.6 فیصد، تاہم اسلامی بینکوں نے سودی بینکوں کے مقابلے میں اپنے کھاتے داروں کو مجموعی طور پر بہت کم شرح سے منافع دیا۔ یہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔
کیا اب بھی ان بینکوں کو اسلامی بینک کہنے کی کیا کوئی گنجائش موجود ہے ؟
ہم نے پہلے بھی یہ عرض کیا ہےکہ شرعی عدالتیں لمبی مدت سے ربا کی جامع تعریف نہیں کر پائیں اور نہ ہی حتمی طور پر یہ فیصلہ دے پائی ہیں کہ سود بھی رہا کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
1 طاقتور اشرافیہ نہیں چاہتی کہ پاکستان کی معیشت سے سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی نظام معیشت نافذ ہو چنانچہ وہ متعدد حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کئی اہم شخصیات اور ایک بڑے بینک نے عدالت عظمی میں یہ موقف اختیار کئے رکھا کہ سود اسلام میں حرام نہیں ہے۔
2 عالم اسلام کی ایک ممتاز یو نیورسٹی جامعہ الازہر نے ایک فتوی جاری کیاتھا جس کو عام الفاظ میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ منافع یا شرح منافع پر ملنے والی سود کی رقم یا منافع جائز ہے۔ اس فتوے کی پاکستان سمیت دنیا بھر کے اہم ممالک میں بہت تشہیر ہوئی مگر ہمارے جید علماء و مفتیان کرام نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ لیکن ہم اس فتوے سے متفق نہیں ہیں یہ منافع در اصل سود ہی ہے یعنی حرام ہے۔ ہم نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کے علمائے کرام سے درخواست ہے کہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں جامعہ الازہر کے فتوی پر قوم کی رہنمائی فرمائیں (جنگ 14 مئی 2003)۔
3 ہم نے حضرت مفتی شفیع ؒ،مولانا سیدمودودی ؒ اور ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی تصانیف اور تقاریر سے بہت استفادہ کیاہے۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔
4 متعدد ماہرین اور عالمی شہرت کے حامل کم از کم تین پاکستانی قانون دان اپنے اس مؤقف پر مصر رہے کہ موجودہ زمانے کا سود دراصل اسلام میں حرام نہیں ہے۔
5 پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا، وہ اپنے کھاتے داروں کا استحصال بھی کر رہے ہیں اور ان کی کچھ پراڈکٹس میں سود کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔چنانچہ عوام کی بڑی اکثریت سود کے ضمن میں تذبذب کا شکار ہوگئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک شرعی اصولوں کے مطابق کاروبار کرتے تو اسلامی نظام کی برکتیں نظر آتیں اور عام آدمی سود کے اسلام میں حرام نہ ہونے کے تمام دلائل پہلے ہی مستر د کرچکاہوتا ۔
’’پاکستان کی معیشت اشرافیہ کی معیشت ہے، چنانچہ متعدد اہم ترین معاشی و مالیاتی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے دباؤ پر یا اُن کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے خواہ آئین و قانون کو توڑنا پڑے یا نئی قانون سازی کرنا پڑے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بااثر، مال دار اور فیصلہ ساز طبقے نہیں چاہتے کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ معیشت اور بینکاری شریعت کی روح کے مطابق نافذ ہو اور معیشت سے سود کا خاتمہ ہوکیونکہ اس سے ان کے ناجائز مفادات پر کاری ضرب پڑے گی مگر ملک کے کروڑوں افراد کی قسمت بہرحال بدل جائے گی اور پاکستان ایک طاقتور اسلامی فلاحی مملکت کی حیثیت سے عالمی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔
ملکی اشرافیہ میں پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، سیاست دان، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ایف بی آر، ایس ای سی پی وغیرہ، سول و ملٹری بیوروکریسی، تاجر، صنعت کار، برآمد کنندگان، وڈیرے، پراپرٹی اور اس سے متعلقہ کاروبار کرنے والے، بڑے اسٹاک بروکرز، بینک (بشمول اسلامی بینک)، ٹیکس چوری کرنے والے، کالا دھن کمانے والے، کرپشن کرنے والے، قرضہ معاف کرانے والے، غیر شفاف نجکاری کے ذریعے قومی اثاثے ہڑپ کرنے والے، اسمگلرز، ذخیرہ اندوز، ناجائز منافع خور، اور ناجائز دولت قانونی و غیر قانونی طریقوں سے اکٹھی کرنے والے شامل ہیں۔ اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ ملک سے باہر منتقل کرنے والے، دینی، مذہبی و سیاسی جماعتیں، اسلامی نظریاتی کونسل، متعدد علماء و مفتیان، اعلیٰ عدلیہ، متعدد شعبوں کے ماہرین، دانشور اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا وغیرہ بھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ ان سب طبقوں میں ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے، جبکہ ملکی اشرافیہ کا بیرونی اشرافیہ سے بھی عملاً گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔ بیرونی اشرافیہ میں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور وہ استعماری طاقتیں شامل ہیں جو ان اداروں کے اکثریتی حصص کی مالک ہیں اور ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
پاکستان کے عوام کی بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ ملک میں اسلامی نظامِ معیشت اور بینکاری شریعت کی روح کے مطابق نافذ ہو اور معیشت سے سود کا خاتمہ ہو، تاکہ اسلامی نظام کی برکتیں حاصل ہوں۔ آئین بھی یہی کہتا ہے کہ معیشت سے سود کا خاتمہ کیا جائےمگر ایک حکمتِ عملی کے تحت کچھ علماء اور مفتیان کرام کے عملی تعاون سے ایک ایسا نظام گزشتہ23برسوں سے نفاذکیا گیا ہے جو اسلامی نظام بینکاری کے نام پر سودی نظام کے نقشِ پاپر ہےیا اس میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
اسلامی بینکاری کے نفاذکے لیے کچھ انقلابی نوعیت کے اقدامات اٹھانا لازمی ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کی طرف توجہ کی ہی نہیں جارہی۔ پاکستان میں کالے دھن کا حجم کا تخمینہ 70000 ؍ارب روپے سے زائد ہے،معیشت دستاویزی نہیں ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی مجموعی وصولی ٹیکسوں کی استعداد سےتقریباً 21000؍ارب روپے سالانہ کم ہے ۔ پاکستان میں100 ملین روپے کی جائیداد فروخت کرتے وقت اس کی رجسٹریشن ایف بی آر کے احکامات کے تحت صرف تقریباً 30 ملین روپے میں ہوتی ہے اس طرح 100ملین کی خریداری کرنے والے شخص کا 70 ملین روپے کا کالا دھن سفید ہوجاتا ہے ۔ملکی بچتیں اور ملکی سرمایہ کاری کی شرحیں بہت کم ہیں ۔بینکاری کا نظام استحصالی ہے ۔ کرپشن اور بدعنوانی عروج پر ہے جبکہ احتساب کا مؤثر نظام عملاً موجود ہی نہیں ہے۔
حکومتیں، پارلیمنٹ ، صوبائی اسمبلیاں اور اسٹیٹ بینک وغیرہ اس ضمن میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان اصلاحات سے اشرافیہ کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ مروجہ اسلامی بینکوں کی انتظامیہ اور مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پر جو حضرات ہیں عموماً وہ ان امور کے ضمن میں بات بھی نہیں کرتے ۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ان بنیادی اصلاحات اور معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کیے بغیر پاکستان میں شریعت کی روح کے مطابق اسلامی بینکاری نفاذ کرنے کی باتیں کرنا بھی قطعی غیر حقیقت پسندانہ اور خودفریبی کے مترادف ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے12؍ دسمبر 2024کو یہ ناقابل فہم دعویٰ کیا کہ 30؍ جون 2024کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے حصص کی مجموعی مالیت کا 56فیصد شریعہ کمپلائنٹ (شریعہ کے مطابق) سیکوریٹیز پر مشتمل ہے اور یہ کہ میوچل فنڈز کے زیر انتظام اثاثوں کا 48فیصد پہلے ہی شریعہ کمپلائنٹ ہیں ۔ یہ بیان خطرہ کی گھنٹی ہے اور اس حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے جو حکومت 2027 تک معاشی و مالیاتی نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کے ضمن میں اپنا سکتی ہے۔ یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں بڑے پیمانے پر ایسی کمپنیز شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف سودی بینکوں سے قرضے لیے ہوئے ہیں بلکہ حکومت کی سودی اسکیم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی ہوئی ہے۔ اسی طرح میوچل فنڈز نے بہت بڑے پیمانے پر ان پراڈکٹس میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو کہ شرعی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سابق نائب صدر ڈاکٹر طاہر منصوری نے بھی دسمبر 2024میں کراچی میں منعقد ایک سیمینار میں اس امر پر بھی خصوصی طور پر اظہار تشویش کیا ہے کہ پاکستان میں میوچل فنڈز نے بھی بڑے پیمانے پر ان پراڈکٹس میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو شریعہ کمپلائنٹ نہیں ہیں۔ مولانا مفتی سلیم اللہ خان اور ان کے رفقاء نے 28؍اگست 2008کو یہ متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ اسلام کی طرف منسوب مروجہ بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ اس فتوے کے دستخط کنندگان کو بھی اس پریشان کن پیش رفت کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ خدشہ یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے نفاذ اور معیشت سے سود کے خاتمے کے نام پر 2027تک سود سے مماثلت رکھنے والے طریقے بڑے پیمانے پر اپنائے جاسکتے ہیں۔ اس ممکنہ پالیسی پر عمل درآمد کو ہر حالت میں روکنا ہوگا۔
ہم میں سے ہر شخص کو سورہ البقرہ کی آیات 275 سے 279 اور سورہ المائدہ کی آیات نمبر 44 اور 45 پر انتہائی دردمندی سے غور کرنا ہوگا اور اس کے مطابق اپنی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ ورنہ نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: