مکہ مکرمہ، وہ مقام جہاں ہر مسلمان کا دل کھنچتا چلا جاتا ہے۔ پہلی نظر جو حرم کے میناروں پر پڑتی ہے، وہی لمحہ زندگی کا سب سے قیمتی احساس بن جاتا ہے۔ جدہ سے آتے ہوئے جب کعبہ کا پہلا نظارہ ہوتا، تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ جیسے جیسے مکہ قریب آتا، روح میں ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ پہلی بار جب حرم کے دروازے پر قدم رکھا، تو وہ نورانی ماحول، وہ پاکیزگی، وہ برکت، سب کچھ دل میں اتر گیا۔
کئی سالوں تک مکہ میں ہر جمعرات کو جانے کی روایت رہی۔ بچے بھی اسی حرم کے صحن میں کھیل کر بڑے ہوئے۔ نوید اور اس کے بھائی چھوٹے چھوٹے قدموں سے صفا و مروہ کے درمیان دوڑتے، حطیم کے اندر کھیلتے، اور زمزم کے پانی سے ہاتھ منہ دھوتے۔ وہ لمحات آج بھی ذہن میں تازہ ہیں، جب یہ معصوم چہرے خانہ کعبہ کے سائے میں پروان چڑھ رہے تھے۔ ان کی ہنسی، ان کی معصوم باتیں، اور ان کے چھوٹے چھوٹے قدم، سب کچھ مکہ کی مقدس فضاؤں میں گونجتا محسوس ہوتا ہے۔
حرم کے صحن میں بیٹھ کر کعبہ کو دیکھنا، وہ منظر جو کبھی دل سے نہیں مٹتا۔ طواف کرنے والے، دعا میں مشغول لوگ، ہر کوئی کسی نہ کسی کیفیت میں ڈوبا ہوا۔ وہ راتیں جب تہجد کے وقت حرم میں داخل ہوتے اور دیکھتے کہ ہزاروں لوگ اللہ کے حضور سجدے میں جھکے ہوئے ہیں، وہ احساس آج بھی دل میں موجود ہے۔
کبھی کبھی حرم کی حدود میں چلتے ہوئے سوچتا کہ یہ وہی زمین ہے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم رکھا، وہی جگہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا، وہی مقام جہاں سے پوری دنیا کو ہدایت ملی۔ یہ سوچتے ہی دل خشیتِ الٰہی سے بھر جاتا، آنکھیں نم ہو جاتیں، اور زبان پر صرف دعا ہی رہ جاتی۔
آج جب مکہ کے اندر کلاک ٹاور کھڑا ہے اور ہر طرف جدید عمارتیں نظر آتی ہیں، تو وہ پرانے دن یاد آتے ہیں جب یہ سب نہ تھا، بس کعبہ، اس کے مینار اور اردگرد کی سادگی تھی۔ وہی سادگی جس میں روحانیت اپنی بلندی پر محسوس ہوتی تھی۔ طواف کرتے ہوئے جب حاجی دعاؤں میں مشغول ہوتے، تو ایک عجب منظر ہوتا۔ ہر قوم، ہر زبان، ہر رنگ و نسل کے لوگ ایک ساتھ ایک ہی مقصد کے تحت اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہوتے۔
مدینہ منورہ کی بات آئے تو دل ایک عجیب کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ اگر مکہ میں اللہ کی عظمت کا احساس غالب آتا ہے، تو مدینہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر چھا جاتی ہے۔ مدینے میں داخل ہوتے ہی وہ نرم ہوائیں، وہ پرسکون فضا، وہ محبت بھرا ماحول، سب کچھ دل کو چھو لیتا ہے۔
مدینے کی گلیوں میں جو وقت گزارا، وہ آج بھی سب سے حسین یادوں میں شامل ہے۔ میں اور نعیم ان گلیوں میں نعرے لگاتے ہوئے گھومتے تھے، اور ہر راستہ ہمیں مسجد نبوی کی طرف لے جاتا تھا۔ وہ لمحات جب مسجد کے صحن میں بیٹھ کر اذان کی آواز سنتے، جب ریاض الجنہ میں جگہ ملنے پر دل خوشی سے جھوم اٹھتا، اور جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سلام پیش کرتے، وہ سب زندگی کے سب سے قیمتی لمحات تھے۔
وہاں دسترخوان لگتے، مہمان آتے، اور اللہ کے بندوں کی خدمت کرنے کا موقع ملتا۔ ہمارے سفرا پر بڑے بڑے لوگ آتے، احمد فراز، عطا اللہ قاسمی، سید صلاح الدین، عبدالحمید ڈار، جاوید میانداد، غلام فرید صابری، اور بے شمار مجاہدین اور علماء ہمارے مہمان بنتے۔ ہم ضد کرکے لوگوں کو اپنے دسترخوان پر لاتے، کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ مہمان نوازی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور مدینے میں اس سنت پر عمل کرنے کا موقع ملنا کسی خوش نصیبی سے کم نہیں تھا۔
مدینہ کی وہ راتیں جب تھکن کے باوجود ہم مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاتے، جب مہمانوں کو اپنے بستر دے کر خود فرش پر لیٹ جاتے، وہ سب یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ استانہ جہانگیریہ، جہاں چوہدری اختر علی وریو، اور کئی دیگر مہمان نوازی میں مصروف رہتے، وہ جگہ آج بھی دل میں بسی ہوئی ہے۔ وہیں پر میاں طفیل، دلیل حمدی صاحب، اور ڈاکٹر غلام مرتضی شہید آ کر ٹھہرتے، اور ہمیں ان کی خدمت کا شرف حاصل ہوتا۔
مدینے سے واپس آنا ہمیشہ مشکل لگتا۔ مدینہ وہ جگہ ہے جہاں دل کو حقیقی سکون ملتا ہے، جہاں ہر گلی میں رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، اور جہاں کی خاک بھی انسان کو عزیز لگتی ہے۔ جدہ واپسی پر جب مدینے کی روشنی پیچھے رہ جاتی، تو دل اداس ہو جاتا۔ لگتا تھا کہ ایک ایسی دنیا پیچھے چھوڑ آئے ہیں، جہاں محبت، برکت، اور سکون تھا، اور اب ایک عام دنیا میں واپس جا رہے ہیں جہاں صرف مصروفیات اور پریشانیاں ہیں۔
مکہ اور مدینہ کی یادیں صرف یادیں نہیں، بلکہ زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ لمحے جو حرم کے صحن میں گزارے، وہ سجدے جو مسجد نبوی میں کیے، وہ آنسو جو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہے، سب کچھ آج بھی دل میں تازہ ہے۔ دن وہی خوبصورت ہوتے ہیں جو سرکار کی نگری میں گزارے جائیں، باقی دنیا کی رونقیں کچھ دیر کی خوشی ضرور دیتی ہیں، مگر اصل سکون تو وہی ہے جو مکہ اور مدینہ کی فضاؤں میں محسوس ہوتا ہے۔
ارض حرمین میں گزارے دو عشرے
