صدیوں پرانی بات ہے، ایک تھی سلطنت وہ نازک۔۔۔ بہت ہی نازک موڑ سے گزرنے لگی۔
بادشاہ نے درباریوں، وزیروں، سیانوں سب کو بلاکر ہوچھا سلطنت کیسے بچائی جائے؟
کوئی حل نہ دے پایا۔
اخر سوچ سوچ کر نڈھال یوجانے والے مشاورتی اجلاس میں شریک ایک وزیر کھڑا ہوا اور بولا:
“بادشاہ سلامت! شہر سے دور، گھنے جنگل سے آگے، دریا سے پرے، پہاڑ کی کھو میں ایک درویش رہتا ہے، عالم فاضل، بڑا دانا بینا ہے، مستقبل میں جھانک لیتا ہے، کیوں ںہ اسے بلاکر مشورہ لیا جائے؟”
بادشاہ نے کہا سپاہی لے جائو اور اٹھا لائو۔
اگلا دن چڑھتے ہی درویش دربار میں حاضر تھا۔
بادشاہ نے کہا،”اے درویش! بتایا جائے کہ سلطنت کو کیسے بچایا جائے”
درویش نے آنکھیں بند کیں اور صدیوں پار کے زمانے میں جھانکنے لگا پھر خود کلامی کے انداز میں “ہونہہ، اس طرح، اچھا” کہا اور کھنکھار کر بولا:
“اے بادشاہ! ایک طریقہ ہے جس سے سلطنت بچ جائیگی”
“کیا” بادشاہ نے بے تابی سے پوچھا،
“پہلے سلطنت میں صحافی اور سوشل میڈیا تخلیق کیجیے، پھر قوانین بناکر ان کے بولنے پر پابندیاں لگائیے، خلاف ورزی پر دونوں کو بند کیجیے، سلطنت بچ جائے گی”
کہانی ختم۔ پھر کیا ہوا پتا نہیں۔
ایک کہانی صرف نابالغوں کے لیے
