ماریہ کاری (ڈاکٹر عافیہ کی امریکی وکیل کی خصوصی تحریر )
کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، مجھے صاف نظر ارہا ہے کہ میری موکل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی کو دفن کرنے کی کوششیں جان بوجھ کر کی جا رہی ہیں۔ لیکن میرے ساتھی وکیل، کلائیو اور میں نے ہمیشہ کہا ہے: ہم عافیہ کے ساتھ پاکستانیوں اور امریکیوں کے کیے گئے سلوک پر دوبارہ بحث کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ ہم سچ جانتے ہیں، اور وہ لوگ بھی جانتے ہیں جن کا ہاتھ انہیں عمر بھر کے لیے قید کرنے میں تھا (پہلے افغانستان میں بگرام میں اور پھر ایف ایم سی کارسویل کے ہاؤس آف ہاررز میں)۔ لیکن، دو دہائیوں بعد جو بات اہم ہے وہ سادہ ہے: عافیہ اپنی باقی زندگی اپنے دو زندہ بچ جانے والے بچوں اور اپنی بہن، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ گزارنے کی مستحق ہیں، جنہوں نے اپنی بہن کی آزادی کے لیے بیس دردناک سال جدوجہد کرتے ہوئے گزارے۔
ہم انہیں قوم کی بیٹی کہتے ہیں، لیکن آج ہم انہیں انتہائی شرمناک صورتحال میں دھکیل رہے ہیں۔دہائیوں سے، عافیہ صدیقی ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک داغ بنی ہوئی ہیں ایک پاکستانی شہری جسے اغوا کیا گیا، غائب کیا گیا، اور ایک جعلی مقدمے میں امریکا کی جیل میں 86 سال کی سزا سنائی گئی، جہاں انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ذلیل کیا گیا، اور بھلا دیا گیا۔پاکستانی حکومت نے طویل عرصہ عافیہ کی رہائی کے مقصد کی حمایت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اب ان کے اصل رنگ ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں، وزارت خارجہ نے ایک حیران کن اعلان کیا کہ انہوں نے عافیہ کے لیے کافی کچھ کرلیا ہے، اور اب ان کی آزادی کے لیے قانونی جنگ ختم ہونی چاہیے۔
یہ کافی کچھ کیا ہے ؟
کافی کچھ، یہاں تک کہ ان کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی؟یہ صرف ناانصافی نہیں ،یہ دستبرداری ہے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ عافیہ کو ان کے قید کرنے والوں نے نہیں، بلکہ اس قوم نے چھوڑ دیا ہے، جسے ان کے لیے لڑنا چاہیے۔کم از کم اسکا حق تو ادا نہیں کیا۔ناکامیوں کا سلسلہ یہیں نہیں رکتا۔ ہیوسٹن میں قونصل خانے نے عافیہ کے خلاف جنسی زیادتی کی رپورٹس پر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام نے ان کی تکالیف کی تفصیلات بتانے والی طبی رپورٹس کو نظر انداز کر دیا۔ یہاں تک کہ بائیڈن کی سفارتی بے اعتنائی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے خط کا جواب دینے سے ان کے انکار۔کو بھی بزدلانہ طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اور اب وزارت خارجہ عافیہ سے مکمل طور پر جان چھڑانا چاہتی ہے۔
حکومت کے پاس کارروائی کرنے کے کافی مواقع تھے، پھر بھی وہ اصرار کرتی ہے کہ وہ بے بس ہے۔ ایک واضح مثال ان کا یہ دعویٰ کہ عافیہ اور شکیل آفریدی کا تبادلہ، امریکہ اور پاکستان کے درمیان رسمی قانونی فریم ورک (قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ) کی عدم موجودگی کی وجہ سے ناممکن ہے۔ یا تو موفا یعنی وزارت خارجہ جان بوجھ کر عدالت کو گمراہ کر رہی ہے یا اس کی معلومات انتہائی قلیل ہیں۔
قیدیوں کے تبادلے عام طور پر سیاسی ہوتے ہیں۔ امریکہ نے روس اور ایران جنہیں وہ دشمن سمجھتا ہے ، جیسے ممالک کے ساتھ رسمی معاہدے نا ہونے کے باوجود اعلیٰ سطحی تبادلے پر بات چیت کی ہے،اور سفارت کاری پر انحصار کیا۔ جبکہ پاکستان، امریکا کا ایک اہم اتحادی ہے دونوں میں گہرا سلامتی اور انٹیلی جنس تعاون ہے، اس کے پاس کہیں زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ سچ یہ نہیں ہے کہ تبادلہ ناممکن ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ وزارت خارجہ کوشش کرنے سے بھی انکار کرتی ہے۔
عافیہ کے ساتھ اب بھی غداری جاری ہےاور زیادہ گہری ہے
پچھلے سال، ہماری قانونی ٹیم نے ایک مقدمہ دائر کیا جس میں عافیہ کو دہائیوں سے ہونے والی آئینی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا گیا۔ پاکستانی حکومت نے حمایت میں ایک بھی دستاویز دائر نہیں کی۔ وہ بیورو آف پرزنز (بی او پی) پر اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں بری طرح ناکام ہے۔ یہاں تک کہ عافیہ کے قیدی اکاؤنٹ کو حاصل کرنے جیسی سادہ چیز بھی حاصل نہ کرسکے ۔جو عافیہ کی حالت زار ظاہر کرنے اور قانونی اخراجات کو کم کرنے کے لیے اہم ہے، یہ نااہلی اب ایک ایسی قانونی جنگ میں بدل گئی ہے، جس میں پاکستان کہیں نظر نہیں آتا۔
چونکہ بی او پی بیورو آف پرزنز ہمارے مقدمے کو خارج کرنے پر زور دے رہا ہے،اس لئیےاب فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ پھر بھی، متعدد درخواستوں کے باوجود، پاکستان نے جنسی زیادتی ، طبی غفلت، اور مذہبی جبر کے خلاف ان کی جدوجہد کی حمایت میں عدالت سے تعاون کرتے ہوئے ایمیکس بریف داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان اپنے شہریوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کا ویانا کنونشنز اور سفارتی اور قونصلر ایکٹ 1972 کے تحت پابند ہے، پھر بھی یہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس سارے عمل میں منافقت واضح ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کہ عافیہ کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے امام تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے؟ یہ کیسے خاموش رہ سکتا ہے جب وہ تنہائی میں ایک اور رمضان گزار چکی ہیںاور اپنے مذہب پر مکمل طور پر عمل کرنے سے قاصر ہیں؟پاکستان بجا طور پر کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرتا ہے، تو یہ اپنی شہری کو امریکی جیل میں مذہبی آزادیوں سے محروم رکھے جانے پر خاموش کیوں رہتاہے ؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عافیہ کی بے گناہی کے ثبوت مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ پھر بھی، انہوں نے ان جرائم کی پاداش میں 8000 سے زیادہ دن جیل میں گزارے ہیں جو انہوں نے نہیں کیے۔
میرے خیال میں پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اپنی بیٹی کے لیے لڑے یا وہ اسے خاموشی سے مرنے کے لیے چھوڑ دے؟ پاکستانی حکومت کےجواب کو تاریخ میں بھلایا نہیں جاسکے گا۔