حکومت کے دعووں کے مطابق کراچی میں بہت ترقی ہورہی ہے ہمارے مخالفین اس ترقی سے جلتے ہیں ،کیا واقعی اتنی ترقی ہورہی ہے ، مئیر کراچی اور وزیر بلدیات کبھی اسے بلاول کا وژن کہتے ہین اور کبھی پارٹی کا کارنامہ کہتے ہیں۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ جہاں جاو ترقیاتی کام جاری ہے ، پہلے ایسے کاموں کا بورڈ لگا ہوتا تھا ، لیکن گزشتہ پندرہ سالہ” ترقیاتی” تسلسل کے نتیجے میں اب کہیں بورڈ لگانے کی ضرورت نہیں ہے جہاں کہیں نظر آئے کہ سڑک ٹوٹی ہوئی ہے، راستے بند ہیں ،گٹر بہہ رہے ہیں ، ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے، پائپ پڑے ہوئے ہیں،یا بھاری مشینری کھڑی اور خراب پڑی ہے تو فورا سمجھ میں اجاتا ہے کہ حکومت کوئی ترقیاتی کام کروارہی ہے ، اس میں بھی دو باتیں ہیں یا تو کام بند پڑا ہوتا ہے یا کام کی وجہ سے راستہ بند ہوتا ہے اور کبھی دونوں کسی وجہ کے بغیر بھی بند ہوتے ہیں ، اگر بڑے بڑے منصوبوں کو دیکھا جائے تو ریکارڈ ساز ہیں، جیسے یونیورسٹی روڈ کا ریڈ لائن منصوبہ، اس منصوبے پر کام مسلسل جاری ہی ہے اور کام مکمل نہیں ہورہا ۔دو مرتبہ اس منصوبے پر کام رکا اور کام کی رفتار تو اتنی سست ہے کہ لگتا ہے کام ہو ہی نہیں رہا ہے ،اس سستی کے نتیجے میں منصوبے کی لاگت دو مرتبہ بڑھ چکی ہے،لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ پوری یونیورسٹی روڈ پر صفورا سے جیل چورنگی اور وہاں سے مزار قائد تک نیو ایم اے جناح روڈ پر اس قدر ملبہ ،کچرا مشینری اور جگہ جگہ مزدوروں کے ٹھکانے سامان کے اسٹور اور چوکیدار نظر آئیں گے جیسے بہت کام ہورہا ہے ۔
یہ حال صرف یونیورسٹی روڈ کا نہیں ہے ،کریم اباد انڈر پاس بھی ایک منصوبہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ، اور اب گلستان جوہر میں منور چورنگی انڈر پاس پر کام شروع ہوگیا ہے ، ختم ہونے کا کچھ پتا نہیں ۔ شہر میں جس طرف رخ کرلو ” ترقیاتی ” کام جاری ہے کے آثار ہیں ۔اسی طرح شہر کے جن پارکوں پر حکومت کا کنٹرول ہے وہ بیابان ہوگئے ہیں ،بڑی سڑکوں پر جابجا گڑھے پڑ گئے ہیں ۔اور اسٹریٹ لائٹس کا تو کیا کہنا، یاتو سرے سے ہیں ہی نہیں اور جہاں ہیں وہ جلتی نہیں ،لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ جلتی نہیں، بلکہ جلائی نہیں جاتیں ،خود ہم نے کئی مرتبہ نوٹ کیا ہے کہ جب کسی سرکاری شخصیت یا کسی اعلی افسر کو ترقی دکھانی ہوتی ہے تو سارے شہر کی لائٹس جل اٹھتی ہیں ،یہ جادو نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے لوگوں کو بنیادی سہولتوں کے بغیر زندگی گزارنے کا عادی بنایا جارہا ہے۔
ٹوٹی سڑکیں دن میں پولیس والوں کے لئیے آسان چراگاہ ہوتی ہیں اور رات کو چور ڈاکو کے لئیے گھات کا کام دیتی ہیں ، گڑھوں کی وجہ سے رفتار سست ہوتے پر پولیس والوں کو لوڈنگ گاڑیوں ،رکشوں، اور موٹرسائیکل والوں کو روکنا آسان ہوتا ہے، بھکاری بھی مہنگے داموں ایسے مقامات خریدتے ہیں۔
جن اہم علاقوں اور سڑکوں کی لائٹس بند رہتی ہیں ان میں گلشن اقبال، سوک سینٹر کی اطراف کی سڑکیں، مین یونیورسٹی روڈ، قائدآباد تا گلشن حدید شاہراہ، جناح ایونیو ملیر ہالٹ تا سپر ہائی وے، جہانگیر روڈ، راشد منہاس روڈ، شاہراہ نورجہاں، ایکسپریس وے، کھوکھراپار، شاہ فیصل کالونی ، لانڈھی کورنگی روڈ، ملیر ، فیڈرل بی ایریا، نیو کراچی،کلفٹن للی برج، ٹاور،شاہراہ لیاقت ،شاہراہ فیصل کے بیشتر مقامات ، کارساز روڈ ،سگنل فری کوریڈور 1,2,3، ماڑی پور،شاہراہ پاکستان ،سائٹ ایریا ،بنارس چوک ، منگھوپیر روڈ، جہانگیرآباد،ناظم آباد نمبر2،بورڈ آفس،شاہراہ اورنگی،میٹروول،سائٹ ایریا،شاہراہ مفتی نعیم، شیرشاہ روڈ،گارڈن روڈ،پاک کالونی،ریکسر،پرانا گولیمار،عبداللہ کالج چورنگی ،ناردرن بائی پاس ،سہراب گوٹھ ،ایکسپریس ہائی وے ،جام صادق پل ،جمشید روڈ،اورنگی ٹاون، ملیر ،لائنز ایریا دیگر علاقوں کی اہم شاہراہوں سمیت شہر کی متعدد آبادیوں کی اندرونی سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس شامل ہیں جوگذشتہ کئی ماہ سے خراب ہیں یا قصدا بند رکھی جاتی ہیں۔ کراچی ائرپورٹ جانے والی سڑکیں بھی اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہیں۔ صدر، کینٹ اسٹیشن، جناح اسپتال کے قریبی علاقوں، سی ویو کے علاقوں میں بھی کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کی جانب سے اسٹریٹ لائٹس بند ہونے کا نوٹس نہیں لیا جاتا یہ ہوگیا پورا کراچی ۔اسی طرح سائٹ ایریاکی تمام شاہراہوں پر اسٹریٹ لائٹس کئی ماہ سے بند ہیں جنہیں روشن کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی ہے،کراچی کی کئی شاہراہوں پر صرف ایک لائٹ جل رہی ہوتی ہے تو دوسری خراب ہوتی ہے اور کئی کئی فرلانگ فاصلے تک بعض شاہراہیں مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں،شاہراہوں پر تاریکی کے باعث جہاں حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں وہاں یہ شاہراہیں اسٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کی آماجگاہیں بن گئی ہیں اور شہری روزانہ ان شاہراہوں پر جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لٹتے ہیں اور موبائل فون سمیت قیمتی اشیا سے محروم ہوجاتے ہیں۔،
ابھی کچرے کے ڈھیر اور دیگر تباہ کن چیزوں کی بات نہیں ہوئی ہے۔ابھی تو صرف دو چار ترقیاتی کام زیر بحث آئے ہیں ۔
کے فور کا بھی کچھ پتا نہیں ،شہر کو مسلسل ٹینکر مافیا کے حوالے کیا جارہا ہے، یہ ٹینکرز سڑکوں کی تباہی کا سبب بھی بن رہے ہیں اور حادثات کا بھی۔
ترقی کا ایک شاہکار گلستان جوہر کا جوہر چورنگی ڈبل انڈر پاس ہے، یہاں ٹریفک کا گنجلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے آٹھ ٹریفک ہولیس والے بھی کنٹرول نہیں کرسکتے،جس کا جی چاہے جہاں سے گاڑی دوڑا دے، اس ڈبل انڈر پاس میں دوسرے انڈر پاس کی ضرورت کوئی نہیں سمجھ پارہا صرف ایک ڈیڑھ کلو میٹر پر سڑک ختم ہے، ائیر پورٹ کا مختصر ٹریفک ہے یا پہلوان گوٹھ کا، جس کے لئیے پہلے ہی راستہ جوہر چورنگی سے بھی جارہا ہے،اس ڈبل انڈر پاس کے چوراہے کو باقاعدہ ہوٹل والوں ، پتھارے والوں ، ٹرک اور بس والوں کو پارکنگ کے لئیے ٹھیکے پر دیا گیا ہے چاروں طرف ٹھیلے ہیں بڑے ہوٹل چائے پراٹھے ،اور دیگر کھانے پینے والوں کو میز کرسی تخت بچھانے کی اجازت ہے ، لگتا ہے پورا منصوبہ اسی لئیے بنایا گیا تھا۔ کبھی کبھی تجاوزات کے خلاف نمائشی کارروائی ہوتی ہے، کنٹونمنٹ والے سامان اٹھاکر لے جاتے ہیں ، پھر دودن بعد پیسے لے کر واپس کردیتے ہیں ، یہ ،زبردست کاروبار ہے پیسے لے کر جگہ ہر قبضہ کرایا جاتا ہے ، وہاں نمائشی چھاپا پڑتا ہے پہلے سے اطلاع ہوتی ہے، سب ادھر ادھر ہوجاتے ہیں علاقہ صاف لگتا ہے،پھر بھی دوچار بے خبروں کے ٹھیلے یا سامان اٹھالیتے ہیں پھر ان سے دوبارہ پیسے لے کر سامان دے دیتے ہیں اور یہ کام سال میں ایک درجن مرتبہ ضرور ہوتا ہے، آخر پیٹ تو کنٹونمنٹ افسران،پولیس والوں اور دیگر محکموں کے ملازمین کا بھی ہے ،اسے بھی تو بھرنا ہے ۔ یہاں باقاعدہ کنڈے کے ذریعہ بجلی دی گئی ہے، ایک اسٹریٹ لائٹ سے تار لے کر دکانوں تک پہنچایا گیا ہے ، ظاہر ہے مفت میں تو نہیں ہے،اور کے الیکٹرک کو بھی سب پتا ہے،تو یہ ہے کراچی کی ترقی جس کا جادو گلی گلی میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اسے کہتے ہیں ترقی، لائنوں میں پانی نہیں۔ ٹینکروں سے ملتا ہے، بجلی نہیں۔ گیس نہیں،امن وامان نہیں ،سڑکیں نہیں،اسپتال نہیں ،اگر اسپتال ہیں تو دوائیں نہیں ،اسکول نہیں، اسکول ہیں تو اساتذہ نہیں اور ہیں تو بچے نہیں ، بس پھر کراچی کی ترقی گویا :
ہرچند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے
اُدھڑا ہوا ترقی یافتہ کراچی
