وہ لوٹ آئے گا تو
کرلیں گے سب شکوے شکایت
سنائیں گے اسے اس کے ستم کی ہر حکایت
یہ کہہ دیں گے، سُنو! تم سے بہت ناراض ہیں ہم
ہمارے دل بہت شاکی، ہماری آنکھ برہم
مگر اس وقت تو
سرحد پہ دشمن آرہا ہے
ہماری عزت وتوقیر کو پیروں میں لانے
ہمارے شہر اور دیہات ویرانہ بنانے
لیے سینوں میں کینہ ہم کو دنیا سے مٹانے
ہماری آبرو کو خاک کردینے، اُڑانے
جلانے بستیاں نفرت کے شعلے لارہا ہے
ابھی ٹھہرو
کہ وہ وردی پہن کر
عدو کی کالی نیت کو ہرانے جارہا ہے
ہمارا دیس دشمن سے بچانے جارہا ہے
ہتھیلی پر سجائے جان اپنی
وہ فرض اپنا نبھانے جارہا ہے
گِلے چھوڑو
دعائیں ساتھ کردو
کہا کس نے شکایت بھول جاؤ
مگر کچھ دن وفائیں ساتھ کردو