Advertisement

دریائے سندھ کے لیے مزاحمت

کائنات کی تاریخ میں ظلم اور ناانصافیوں کیخلاف ہمیشہ مزاحمت ہوئی ہے۔اور مزاحمت میں خون بہتا ہے، جانیں قربان کرنی پڑتی ہیں اور مالی نقصان ہوتا ہے۔ مزاحمت ہی سے ریاستیں بنی ہیں اور عدل و انصاف اور حقوق ملے ہیں۔ آج دریائے سندھ پر کینالز کیخلاف ہر شعبے کا فرد مزاحمت کررہا ہے اور یہ مزاحمت لازم بھی ہے۔ دریائے سندھ صرف ایک دریا نہیں ہے بلکہ ہزاروں سالوں پر محیط ایک تہذیب ہے۔ جو ہمالیہ سے کراچی تک 3 ہزار 180 کلو میٹر کے فاصلے پر کروڑوں لوگوں کو زندگی اور روزگار مہیا کرتا ہے۔ دریائے سندھ پر ہمیشہ حملے ہوئے لیکن اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا 78 سالہ پاکستانی تاریخ میں ہوا ہے۔ برطانوی راج میں دریائے سندھ پر بیراجز بناکر دریا کا گَلا گھونٹ دیا گیا۔ 1947 میں پاکستان کے بننے کے بعد پانی کے مسئلے نے ایسا جنم لیا جو آج بھی برقرار ہے۔ 1960 میں ورلڈ بینک، کچھ جنرلز اور پنجاب نے مل کر سندھ طاس معاہدہ کروایا جو دریائے سندھ پر ایسا خطرناک حملہ ثابت ہوا جس سے آج تک سندھ کا کسان، عام عوام اور ہزاروں سالوں پر محیط ایک تہذیب متاثر ہے۔
پاکستان کے چار صوبوں میں سے پنجاب صوبہ بڑے ہونے کے ناتے ہمیشہ چھوٹے صوبوں پر حاوی رہا ہے۔ پانی کی تقسیم پر پنجاب کے سیاستدان، ملٹری اور بیوروکریسی نے وہ فیصلے کیئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پنجاب سرسبز باقی سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان بنجر ہوتے گئے۔ سندھ میں دریاؤں کے تحفظ کا مسئلہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ دریائے سندھ کی لہروں کو ڈیمز، بیراجز اور کینالز کے ذریعے محدود کردیا گیا ہے۔ اِس وقت دریائے سندھ پر 80 ڈیمز، 50 کینالز اور 19 بیراجز ہیں۔ انٹرنیشنل ریورز قوانین کے مطابق Upper Riparian کبھی بھی Lower Riparian پر حاوی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی Lower Riparian کیخلاف کوئی ایسا اقدام نہیں لیا جاسکتا جس سے وہ متاثر ہو۔ لیکن پنجاب ہمیشہ چھوٹے صوبوں پر حاوی ہوتے ہوئے ڈیمز، بیراجز اور کینالز بنائے اور ابھی چولستان کینال تعمیر کیا جارہا ہے جو دریائے سندھ اور سندھ کو مکمل بنجر بنانے کی ایک سازش ہے۔
سندھ سپت اور سندھ کے لوگوں کی جانب مسلسل ان تمام تکراری کینالز کے خلاف مزاحمت کی جارہی ہے۔ عام عوام، سیاسی و سماجی تنظمیں، وکلا، صحافی، طلباء یونینز کی جانب سے مسلسل دھرنے اور احتجاج کیئے جارہے ہیں۔ یہ مزاحمت، دھرنے اور احتجاج ان تکراری کینالز کے خاتمے تک جاری رہیں گے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: