Advertisement

میڈیا وار اور سرکاری ذرائع ابلاغ

پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 6 مئی کورات گئے ہنگامی طور پر بلائی جانے والی پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو بھارت کی جانب سے پاک سرزمین پر حملوں کے بارے میں آگاہ کیا۔اس پریس کانفرنس کو نجی الیکٹرانک چینلزنے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا اور اس کے بعد سامعین و ناظرین کو تازہ ترین صورتحال سے مسلسل آگاہ رکھاجبکہ سرکاری ذرائع ابلاغ بالخصوص ریڈیوپاکستان میں جسے وطن عزیز کی نظریاتی دفاعی لائن کہا جاتا ہے، بھارتی حملوں کے بارے میں مکمل خاموشی چھائی رہی، حتیٰ کہ اس کی ویب سائٹ پر دن چڑھ جانے کے بعد بھی پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بارے میں ایک لفظ تک موجود نہیں تھا۔
ریڈیو پاکستان ایک شاندار ماضی کا حامل نشریاتی ادارہ رہا ہے۔ اکثر کہاجاتا ہے کہ یہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی معرض وجود میں آگیا تھا اور اسی کے مائیک سے اسلامیان برصغیر کیلئے طلوع آزادی کا اعلان ہوا تھا۔اس کے علاوہ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی اس کے کردار کو سراہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امن ہو یا جنگ، سیلاب ہو یا زلزلہ یا دیگر قدرتی آفات، ریڈیوپاکستان نے سامعین کو باخبر رکھنے میں ہمیشہ سبقت حاصل کی ہے اوراپنی خبروں کے معیاراور زبان کی شائستگی کی بدولت اس نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی اپنی ساکھ قائم کی۔ اس کے علاوہ قیام پاکستان کے فوراً بعد مہاجرین کی آبادکاری ، مقامی آباد ی میں مہاجر بھائیوں کیلئے جذبہ ایثار بیدار کرنے نیز مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک لڑی میں پرو کر واحد پاکستانی قوم میں ڈھالنے میں ریڈیوپاکستان نے نمایاں کردار ادا کیا۔
مختلف حکومتوں نے قومی ریڈیو کے کردار اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں اس کے سٹیشنوں کا جال بچھا دیا اور یوں ریڈیوپاکستان نہ صرف ملک میں نشریاتی اداروں کی ماں (mother of broadcasting)کی حیثیت اختیار کرگیا بلکہ ملک میں سب سے بڑا نشریاتی ادارہ بن کر ابھرا۔صوبوں کو ایک دوسرے کے قریب لا کر قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے کیلئے اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، کشمیری، بلتی، شینا اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی خبرنامے متعارف کرائے گئے جبکہ سامعین کو ان کے اپنے علاقے میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے آگاہ رکھنے کیلئے ہر سٹیشن سے ارد و کے علاوہ مقامی زبانوں میں علیحدہ مقامی خبرنامے شروع کیے گئے۔ بین الاقوامی دنیا کو پاکستان میں ہونے والی تعمیر و ترقی اور اہم واقعات سے آگاہ رکھنے کیلئے نہ صرف انگریزی بلکہ عربی، فارسی، دری، فرانسیسی سمیت کئی عالمی زبانوں میں خبرناموں کا اجرا کیا گیا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک قائم پاکستانی سفارتخانوں اورمشنز کو حکومت پاکستان کی پالیسیوں سے آگاہ رکھنے اورمیزبان ملکوں میں ان کی تشہیر کیلئے جنرل اوورسیزسروس (General Overseas Service – GOS) بلیٹن متعارف کرائے گئے۔
ریڈیو پاکستان کا قومی پالیسیوں کی تشکیل اور بیرون ملک ان کی تشہیر میں بھی اہم کردار تھا۔ مثلاً مرحوم صدر جنرل ضیاالحق کے دور کی افغان پالیسی ریڈیوپاکستان سے روزانہ شائع ہونے والی مانیٹرنگ رپورٹس کی بنیاد پر استوار کی گئی تھی۔ان رپورٹس میں مرحوم صدر کی دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ روزانہ صبح چار بجے مانیٹرنگ رپورٹ موصول ہوتے ہی اس کا مطالعہ کرتے تھے اوراہم نکات پر اپنے سبز قلم سے نشان لگاتے جاتے تھے۔ ضروری کاروائی کے بعد یہ رپورٹس ان کے ریمارکس کے ساتھ ریڈیوپاکستان کے شعبہ مانیٹرنگ میں واپس آجاتی تھیں۔یہ ان کی ذاتی دلچسپی تھی کہ 1948ء کے بعد سے مسلسل نظرانداز شعبہ مانیٹرنگ میں دسمبر1986ء میں وسعت لائی گئی اور ٹائپ رائٹر پر تیار کی جانے والی رپورٹس کی الیکٹرانک پرنٹنگ کا آغاز ہوا۔ان رپورٹس کے علاوہ شعبہ مانیٹرنگ سے اہم خبروں پر مشتمل Significant News Items Report (SNIR) روزانہ کی بنیاد پراور اہم واقعات کے تجزیوں پر مبنیNews Analysis Reportہفتہ وار بنیادوں پر شائع کی جاتی تھیں۔ڈیلی مانیٹرنگ رپورٹس کے ریگولر سبسکرائبرز میں قومی اخبارات کے علاوہ، تحقیقی ادارے (research institutions) اور غیر ملکی سفارتخانے اور مشن وغیرہ شامل تھے اور ان رپورٹس کو میڈیا چیفس کی ہر میٹنگ میں سراہا جاتا تھا۔
ریڈیوپاکستان کے خبرناموں اور مانیٹرنگ رپورٹس میں زبان کی صحت کا خاص خیال رکھاجاتا تھا اور ہر لفظ ناپ تول کر استعمال کیا جاتا تھا جس کیلئے خصوصی مہارت درکار ہوتی تھی۔ یہ احساس ذمہ داری تھا کہ اہم واقعات ہوں یا صدر وزیراعظم کا خطاب، ڈائریکٹرآف نیوز اور ڈیوٹی پر موجود کنٹرولر فوراً دفتر پہنچ کرمتعلقہ خبروں کی نگرانی کیا کرتے تھے اور اگر ضروری سمجھتے توان کی ڈرافٹنگ بھی خود ہی کردیتے تھے تاکہ متن میں کوئی ابہام نہ رہے اور الفاظ کے غلط استعمال سے مفہوم میں فرق نہ آنے پائے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر نیوز خواجہ غلام مرتضیٰ(جو بعد میں ڈائریکٹر جنرل بنے) اور کنٹرولر نیوز سلطان احمد کا خاص طور پر نام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹر نیوز، کنٹرولر نیوز اور مختلف ریڈیوسٹیشنوں پر تعینات نیوز بیورو چیفس کو سرکاری طور پر ریڈیوسیٹ فراہم کیے جاتے تھے تاکہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، ریڈیو خبرنامے براہ راست سن کر ملک میں رونما ہونے والے تازہ ترین واقعات سے آگاہ رہیں۔ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ اگر بیرون شہر سفر کے دوران کوئی اہم واقعہ یا حادثہ ان کے علم میں آجاتا تو مرکزی شعبہ خبر میں اس کی اطلاع دے کر کسی رپورٹر کو بھجوانے کی استدعا کرنے کی بجائے خود تفصیلات جمع کرکے ایک جامع خبر جنرل نیوز روم میں لکھوا دیتے۔
یہاں ڈپٹی کنٹرولر نیوز وحید ملک کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ وہ 25اپریل 1993ء کو ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور 23نومبر 2017ء کو وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ملک صاحب سے، میری آخری ملاقات 8 نومبر 2017ء کو ہوئی،وہ شدید علیل تھے اور بیڈ کے ہو کر رہ چکے تھے نیز ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی لیکن وہ اپنے سرہانے رکھے ٹرانزسٹر سے خبریں سن رہے تھے۔ خبریں ختم ہونے کے بعد انہوں نے باقاعدہ ان کے معیار اور الفاظ کے چناؤ پر اپنی رائے دی۔تاہم اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
2019ء میں اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری جنہیں اپنے ماتحت ادارے ریڈیوپاکستان کا کسٹوڈین ہونا چاہیے تھا، ادارے اور اس کے سٹاف کے درپے ہوگئے اور شاہراہ دستور پر واقع ریڈیوپاکستان ہیڈکوارٹرز کی پرشکوہ عمارت جس میں مرکزی شعبہ خبر، شعبہ مانیٹرنگ، رپورٹنگ سیکشن، لینگویج یونٹس، ریڈیوپاکستان کا اسلام آباد سٹیشن، ایف ایم 93، ایف ایم 94، ایف ایم 101، صوت القرآن چینل، ورلڈ سروس، ایکسٹرنل سروس، سنٹرل پروڈکشن یونٹ،سنٹرل سیلز آفس، سنٹرل ایکوپمنٹ یونٹ نیز ریڈیوپاکستان انتظامیہ و مالیات کے مرکزی دفاتر واقع تھے اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے مختلف فلورز پر کوریڈورز کو ہارڈ بورڈ کے ذریعے تقسم کرکے دفاتر بنائے گئے تھے،کو فروخت کرنے پر تل گئے۔جب بھارت ہماری سرحدوں کے ساتھ ریڈیوسٹیشنوں کا جال بچھا رہا تھا، ریڈیو پاکستان کے بہت سے سٹیشن ختم کردئیے گئے یا پھر ضم کردئیے گئے۔انہی میں ایک ایسا اسٹیشن بھی تھا جس کا ٹارگٹ ایریا مقبوضہ جموں و کشمیر تھا۔ اس کے علاوہ ریڈیوپاکستان کے سالانہ بجٹ میں اچھی خاصی کمی کردی گئی اور رائٹ سائزنگ کے نام پر ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا۔ وہ ریڈیو کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن دینے کے خلاف تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا تھا کہ وہ دفتر آتے ہوئے ریڈیوپاکستان کے باہر بیماریوں کے شکار پنشنرز کو ادھر ادھر گرے پڑے دیکھتے تھے۔
افسوس!یہ سلسلہ اگلی حکومتوں میں بھی جاری رہا۔ نجی چینلز اندرون و بیرون ملک اپنے نمائندوں کے نیٹ ورک کو وسعت دے رہے تھے لیکن سرکاری ا قومی نشریاتی ادارے کا یہ عالم ہے کہ اس کے کسی بھی شعبہ کاکوئی ریگولر ڈائریکٹرنہیں۔اردو سمیت شعبہ خبر کے کسی بھی لینگویج یونٹ کے سٹاف میں بھی ریگولر سپروائزر اور مترجم نہیں۔ سٹاف کی کمی کا یہ عالم ہے کہ ٹارگٹ ایریا(target area) کا تصور ہی ناپید ہوچکا ہے اور ایک ہی ایڈیٹر قومی، بین الاقوامی اور مختلف علاقائی خبرنامے تیار کر رہا ہوتا ہے جو بہرحال انسانی استطاعت سے باہر ہے اوراس میں غلطی کا بہت زیادہ احتمال ہوتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ سٹاف کیلئے طبی سہولتیں عملاً ختم کر دی گئی ہیں اور میڈیکل بلز کی ادائیگی برسوں سے زیر التوا ہے جبکہ ریڈیو پاکستان کے پینل پر موجود ڈاکٹرزاپنی ماہانہ فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ادارے کے ملازمین کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔ حکومت کی طرف سے تنخواہوں اور پنشن میں وقتاً فوقتاً کیا جانے والا اضافہ دو سال سے زیر التوا ہے جبکہ کمیوٹیشن و ریٹائرمنٹ پر ملنے والے دیگر واجبات کیلئے پنشنرز در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ دوسری طرف رائٹ سائزنگ کے نام پر بہت سے عہدے ختم ہونے سے ترقی کے منتظر ملازمین اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں جبکہ کسی ایسے عہدے جن کا کوئی جواز نہیں موجود ہیں اور ان پر ترقیاں بھی ہو رہی ہیں۔
پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی ہنگامی پریس کانفرنس میں قومی نشریاتی ادارے کے رپورٹر کی موجودگی اور اس کی قومی نشریاتی رابطے پر تشہیر لازمی تھی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نجی چینل تو دن رات چوبیس گھنٹے خبرنامے نشر کررہے ہوتے ہیں لیکن ریڈیوپاکستان سے رات گیارہ بجے سے لے کر صبح چھ بجے تک خبروں کو مکمل بلیک آؤٹ ہوتا ہے۔پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ ریڈیوپاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا حصہ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کے ادارے نے ہنگامی پریس کانفرنس کے بارے میں ریڈیوپاکستان میں بھی دعوت نامہ بھجوایا تھا؟

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: