سات آٹھ عشروں کی تاریخ یہی ہے کہ بھارت کا ہندو ازم پہلے گریبان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور پھر جب جوتوں کی برسات ہوتی ہے تو پائوں چھوتا ہے اور معافی مانگتا ہے۔ 1948 سے شروع ہوجاتے ہیں۔ بھارت نے پہلے کہا کہ کشمیر اٹوٹ انگ ہے۔ پھر جب اس کی کمر پر تازیانے برسائے گئے تو سیدھا اقوام متحدہ پہنچا۔ سلامتی کونسل میں وعدہ کیا کہ کشمیری عوام حق رائے شماری تسلیم کرتا ہوں، پائوں چھو کر اس وقت اس نے اپنی جان چھڑائی تھی‘ اس کی یہ عادت آج تک زگ زیگ راستے پر چل رہی ہے۔ کبھی گریبان پکڑتا ہے اور پھر پائوں چھوتا ہے‘ ابھی کیا ہوا؟ اس نے شور اٹھایا ہوا تھا کہ پہل گام کے واقعہ میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ ثبوت کیوں نہیں تھے، دنیا ثبوت مانگ رہی تھی اور مودی بھڑکیں مار رہے تھے۔ دو ہفتے کی مسلسل سفارتی کوششوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسی روز اس نے کشمیر میں مظفر آباد، پنجاب میں گوجرانولہ اور احمد پور شرقیہ میں مساجد پر حملہ کیا اور مودی نے اپنے ملک میں واہ واہ کرائی۔ پاکستان خاموش رہا تحمل کا مظاہرہ کیا۔ صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتا رہا اور اقوام عالم میں اپنی بات منوانے میں کامیاب رہا کہ مودی ثبوت دے تو بات بنے گی۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے بھی پاکستان کے موقف کی تائید کی لیکن مودی اپنا اور اپنے ملک کا منہ کالا کرنے پر تلا ہوا تھا اور اس نے کسی کی بھی ایک نہ سکی اور حد یہ کردی کہ براہومس میزائل پاکستان پر فائر کردیے‘ اس سے پہلے وہ اپنا رافیل ہمارے جیٹ کے ہاتھوں موت کی وادی میں پہنچا چکا تھا۔
فضائی چھڑپ کے واقعہ کے بعد تو عسکری اور سیاسی لیڈر شپ سوئی نہیں‘ مسلسل جاگتی رہی اور ہماری عسکری اور سیاسی قیادت مسلسل باہمی رابطے میں تھی اور سفارتی محاذ پر بھی غیر معمولی طور پر متحرک تھی‘ ہم دنیا کو بتا رہے تھے کہ پہل نہیں کریں گے مگر جواب ٹھوک کر اور کڑاکے دار دیا جائے گا۔ مودی نے اسے مذاق سمجھا لیکن جب کوئی خود ہی اپنا منہ کالا کرنے پر تلا ہوا ہو تو کوئی اسے کس حد تک بچا سکتا ہے۔ بس پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچا پوری قیادت ہفتہ کی صبح فجر سے پہلے وار روم میں تھی چوکنا اور چوکس۔ گنیں، توپیں اور جہاز، بحری شپ، غرض ہر شے تیار تھی۔ ورا روم میں اچانک پردہ اسکرین پر ایک میزائل نمودار ہوا، دیکھا تو پتا چلا براہموس میزائل بھارت نے فائر کردیا ہے اور ہمارے ائربیسز اس کا ہدف تھے، بس یہ براہموس بھارت کی موت کا پروانہ ثابت ہوئے۔ براہومس آئے تو فیصلہ ہوگیا کہ بس بہت ہوگیا۔ اب بھارت میں ہمت ہے تو مقابلے میں آئے۔ ہمارے شاہین اُڑے اور انہوں نے بھارت کے ائر بیسز، بجلی گھر، مواصلاتی نظام، سب کچھ اُڑا کر رکھ دیا اقوام عالم نے ہمارے شاہینوں کو فضائوں کا بادشاہ قرار دے دیا۔ اب کیا ہے؟ بھارت نے پائوں پکڑے، منت سماجت کی، معافی تلافی کے لیے رویا گڑگڑایا۔ امریکا تک پہنچا اور کہا کہ ایک بار پاکستان سے معافی لے دو، امریکا جس نے کہا کہ ہمارا کوئی لینا دینا نہیں‘ وہ اپنے نائب صدر کے سسرال کو بچانے کود پڑا۔ یوں جنگ بندی تک بات پہنچی اور اب جنوبی ایشیا جنگ کے بادلوں سے تو آزاد ہوا مگر بھارت کے گلے میں ذلت کا طوق ڈال گیا۔
بھارت اور اس کے ہم نوا یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان یہ تو ترنوالہ ہے۔ جب مقابلہ ہوا تو پاکستان نے تاریخ رقم کردی، امریکا بھی پریشان، فرانس بھی اپنے گوڈوں میں منہ دے کر رورہا ہے اور مودی کو کوس رہا ہے، بھارتی قیادت پہل گام کے ڈرامے پر پاکستان کو دباؤ میں لا کر عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتی تھی اب خود مودی اپنے گھر میں اجنبی بن گئے ہیں۔ پاکستان نے صبر، نظم، اور حکمت ِ عملی کا مظاہرہ کرکے کاری وار کیا ہے عالمی برادری کو یہ باور کروایا کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا فیصلہ اب پاکستان کرے گا بھارت قابلِ تسخیر ہے یہ اور اس کے جہاز، اس کے ہوا باز سب روئی کے گالے ہیں۔ بھارت کے رافیل طیارے، INS وکرانت، اور دیگر ہتھیار اس کی صلاحیت پاکستان کے ہوا بازوں کے پائوں کے نیچے مسلی جاچکی ہے … چلیے یہاں تک ہوگیاجو ہونا تھا! اب آگے کیا ہونے جارہا ہے؟ اصل سوال تو یہ ہے کہ اب کشمیر پر بات چیت ہوگی، رائے شماری کی بات ہوگی، کشمیریوں کے مستقبل کی بات ہوگی… اب میدان میز پر سجے گا، اب عقل اور دانش کا امتحان ہے۔ مودی نے کہا ہے کہ جنگ ختم نہیں ہوئی بلکہ موخر ہوئی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بھارت حقیقت کا سامنا کرے۔ پاکستان کو اب نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ جنوبی ایشیا کے امن، ترقی، اور استحکام کے لیے ایک متوازن، باوقار، اور باہمی احترام پر مبنی رویہ ہی واحد راستہ ہے۔ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ حکمت، برداشت، اور تزویراتی ہم آہنگی ہی اصل طاقت ہے اور اگر بھارت باز نہ آیا تو پھر پاکستان ایک بار پھر تیار ہے۔ اب ہمارے پاس جہازوں کی اگلی جدید نسل کے طیارے ہوں گے جے 35 ففتھ جنریشن۔ چین ہمیں یہ طیارے فراہم کرنے جارہا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان جے 35 ففتھ جنریشن طیاروں کے حوالے سے معاہدے کو حتمی شکل دیے جانے کی مصدقہ اطلاع ہے۔
پہل گام سے آپریشن بُنیان مرصوص تک
