Advertisement

معاشرے کو ایجوکیٹ کرنا اور اصل علم لوگوں تک پہنچاناسب سے بڑی ضرورت ہے: نگار سجاد ظہیر سے گفتگو

انٹرویو : مظفر اعجاز / راشدہ انجم
ممتاز ماہر تعلیم، مصنفہ، شاعرہ محترمہ نگار سجاد ظہیر دو درجن سے زیادہ کتب کی مصنفہ ہیں ۔ان میں تاریخ، تنقید، افسانہ نگاری، شاعری سب ہی شامل ہیں۔وہ بہت ہی زیادہ متحرک شخصیت ہیں اور طویل عرصہ جامعہ کراچی سے وابستہ رہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ انہوں نے قیمتی وقت دیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے :
راشدہ انجم : سب سے پہلے تو آپ اپنے متعلق بتائیے؟
نگار سجاد ظہیر :اپنے بارے میں بس کیا بتاؤں پیدایش میری الہ آباد کی ہے اور 1962 میں ہم لوگ پاکستان آ گئے تھے ساری تعلیم میری کراچی میں ہوئی کراچی یونیورسٹی سے میں نے ایم اے کیا پی ایچ ڈی کیا اور یہیں میری شادی ہوئی ہے اور بچے بھی میرے کراچی میں ہی اباد ہیں ایک بیٹی اسلام اباد میں ہے، لکھنے پڑھنے کا شروع سے بہت شوق تھا لوگ کہتے ہیں مجھے یہ شوق بچپن سے تھا۔
جس وقت مجھے پڑھنا لکھنا نہیں اتا تھا امی بتاتی ہیں کہ بستر پہ لیٹ کر اور کوئی بھی کتاب اٹھا کر اور بس اور جو لفظ پڑھنا اتا تھا اس کو زور سے بول دیتی تھی، میری امی اورابو بہت پڑھتے تھے گھر میں مطالعہ ہر شخص کرتا تھا ظاہر ہے وہ ٹی وی کا بھی زمانہ نہیں تھا ، اسمارٹ فون وغیرہ کچھ بھی نہیں تو بس سارا زور ہمارا پڑھائی میں ہی تھا اور یہاں آکر تو مجھے بہت اچھا ماحول ملا یونیورسٹی کے زمانے میں تو میں نے اتنی کتابیں پڑھیں کہ میرا خیال ہے اس کے بعد نہ پڑھ سکی ۔
نور نامی ایک رسالہ نکلتا تھا اس میں میری پہلی کہانی چھپی تھی پھول کی فریاد، اس کا بڑا مذاق اڑایا تھا میرے بھائیوں نے ، کہ یہ پھول بھی کوئی فریاد کرتا ہے پھول، تمہارا پھول کیا بولتا ہے اور حالانکہ میں نے وہ لکھی تھی کہ بھئی کسی نے توڑ دیا اس پھول کو لیکن امی اور ابو نے بڑی حوصلہ افزائی کی پھر میں نے لکھنا شروع کر دیا اور پھر تو بس اللہ دے اور بندہ لے۔
راشدہ انجم: آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اب تک۔
نگار سجاد ظہیر : آجکل میں 25ویں کتاب لکھ رہی ہوں مڈل ایسٹ کے حوالے سے بس اب تو ریٹائرمنٹ کے بعد تو سمجھیے کہ میرا کام ہی اب یہ رہ گیا ہے۔
راشدہ انجم : اپ نے پہلے ان تمام مقامات کا دورہ کیا وہاں گئی ہوں گی اور پوری طرح دیکھا ہوگا
نگار سجاد ظہیر :اصل بات یہ ہے کہ جس وقت میں کراچی یونیورسٹی میں تھی تو شعبہ تاریخ اسلام میں ایڈمیشن لیا ، بائیو کیمسٹری میں بھی میرا ایڈمیشن ہو گیا تھا، مجھے اسلامک ہسٹری سے دلچسپی بہت تھی تو میں نےاسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کیا، اس وقت ہم ایک کورس پڑھا کرتے تھے مڈل ایسٹ کا اور اس میں جو اہم ممالک ہیں سعودی عرب ،ایران اور ترکیہ ہے اور مصر بھی ہے یہ ممالک ہم بڑی تفصیل سے پڑھا کرتے تھے جب میں نے پڑھانا شروع کیا اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ میں تو اپنی دلچسپی کی وجہ سے میں نے یہی کورس لیا اور ایم اے فائنل کے اسٹوڈنٹس کو میں یہ کورس پڑھاتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سوچا کہ دنیا دیکھی جائے میں نے پہلا جو سفر کیا تھا وہ ایران کا تھا اس کے بعد میں ترکیہ گئی 20 دن وہاں پہ ہم نے لگائے ۔ مصر کے بھی ہم نے پانچ شہر دیکھے اس کے بعد کووڈ اگیا اور کووڈ کے بعد ابھی نکلنا نہیں ہوا لیکن اپ ہر علاقے کی گلیاں محلے شہر ہر چیز گھر بیٹھے گوگل کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں ۔
راشدہ انجم: آپ کی کتابیں کتنی ہیں کیا موضوعات ہیں ۔
نگار سجادظہیر :میری 24 کتابیں ہیں ان کو تین کیٹگریز میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک تو سفرنامے ہیں دوسرا ،افسانے اور شاعری ہے اور تیسرا ہے وہ کتابیں ہیں جو خالصتا تاریخ کے حوالے سے ہیں ۔سفرنامے چار ہیں چار چوتھا ترکی کا چھپ رہا ہے لیک مصر کا ایران کا اور سعودی عرب کا یہ تین سفر نامے آ چکے ہیں اور افسانوں کے میرے تین مجموعے آچکے ہیں اور شاعری پر ایک مجموعہ ہے لیکن جب سے میں نے اپنے توجہ تحقیق کی طرف کی ہے اس کے بعد میرا کوئی زیادہ رجحان شاعری اور افسانہ نگاری کی طرف نہیں رہا تو ابھی البتہ میری کتاب نقوش یاد رفتگان جو چھپی ہے، اس میں تذکرہ ہے ان لوگوں کا جن کا انتقال ہو گیا جس سے میرا کسی نہ کسی حد تک تعلق تھا اس کو آپ ادبی کتابوں میں شامل کر سکتے ہیں۔
راشدہ انجم: بس ایک ہلکا پھلکا سا سوال ہے اپ تھکی تو نہیں، اتنا کام کرکے؟
نگار سجاد ظہیر ؛ نہیں بالکل بھی نہیں تھکی، میری ریٹائرمنٹ کو 10 سال ہو گئے ہیں میری عمر اس وقت 70 سال تو ہوگی لیکن مجھے میرے اندر وہی توانائی ہے جو میں 35، 40 سال کی عمر میں اپنے اندر محسوس کرتی تھی اور اس وقت میں یہ محسوس کرتی تھی میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور جو میں چاہوں میں وہ کر سکتی ہوں میرا اب بھی یہی حال ہے اور میں نے اب یہ ہے کہ ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ 10 بجے رات سے لے کے دو بجے رات تک کا یہ ٹائم ایسا ہے جو تقریبا 40 سال سے میں نے سیٹ کیا ہوا ہے بس اس میں میرا لکھنا پڑھنا ہوتا ہے باقی گھرداری ہے رشتہ داریاں نبھانی ہیں شاپنگ کرنی ہے شادی بیاہ وغیرہ ، اس کے لیے سارا دن ہے ہمارے پاس ۔
مظفر اعجاز : ٹیلی ویزن اہم میڈیا ہے اور بہت پاور فل ہے وہ تو ذہن سازی کرتا ہے ،پھر کتاب کہاں ؟اس کامقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟
نگار سجاد ظہیر: یہ بات اگر اپ 25 سال پہلے مجھ سے کہتے ہیں میں اپ کی بات مان لیتی لیکن اب تو ٹیلی ویژن کو کوئی نہیں پوچھتا اپ یقین جانیں ٹیلی ویژن لوگوں کے گھر میں رکھے ہوئے ہیں، بند پڑے ہیں اب سارا زور سوشل میڈیا پر ہے نہ لوگ خبریں دیکھتے ہیں نہ اخبار پڑھ رہے ہیں، انہوں نے اپنے چینل سیٹ کیے ہوئے ہیں۔اب سارا سارا دن لوگ سوشل میڈیا پر ہیں وہاں پہ غلط سلط جو کچھ بھی آرہا ہے، دیکھ رہے ہیں اب یہ زمانہ ہے سوشل میڈیا کا لہذا اگر اپ ٹیلی ویژن کے ذریعہ کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اپ کو ناکامی ہوگی جو کرناہے وہ سوشل میڈیا پہ کرنا پڑے گا۔
مظفر اعجاز:ٹیلی ویژن پر جو ڈرامے اور جو گلیمر دکھاتے ہیں وہ گلیمر دکھا کے جو نسلوں پر اثر ڈال رہے ہیں، وہ تو پاور فل ہے،اس کا توڑ کیسے کریں ۔
نگار سجاد ظہیر یہ جو ڈرامے وغیرہ ہیں انکے بارے میں بات اپ کی بالکل درست ہے کہ ڈراموں نے بہت زیادہ رول ادا کیا اور اب بھی کر رہے ہیں ،چونکہ یہ ڈرامے بھی اب سوشل میڈیا پر ہیں آپ اسکرول کریں تو آپ کو ہر ڈرامے کا چھوٹا چھوٹا انٹرو یا یہ سب کچھ نظر ا جاتا ہے اس سے ایک دو باتیں پتا چلتی ہیں کہ ٹیلی ویژن ڈیفیٹ ہو گیا ہے لہذا ٹیلی ویژن کو بھی سوشل میڈیا پر آنا پڑا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ مضبوط میڈیم سوشل میڈیا ہی ہے انہیں بھی اسی ذریعے انا پڑا ہے لیکن ہاں ان کے ڈرامے ، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ گھروں کو توڑنے میں جو کردار ہمارے ڈراموں نے ادا کیا ہے بلکہ بہت ہی زیادہ افسوسناک ہے لیکن یہ جو گھروں کو توڑنے والے ڈرامے ہیں ایسے ڈرامے تو بہت اگے ہیں جو گھروں کو توڑ رہے ہیں اور یہ ایک بہت خوفناک صورتحال ہے ایک وکیل صاحب سے میری بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین چار سال کے اندر کوویڈ کے یعنی 20 کے بعد ہمارے پاس جو کیسز ا رہے ہیں وہ سب خلع کے اور طلاق کے ہیں اور گھر جو ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوٹ رہے ہیں۔ اس کی بہت بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا پہ جاتی ہے ٹیلی ویژن کے جو ڈرامے ہیں ،وہ تو ہمارا خاندانی نظام تباہ کر رہے ہیں ۔ اس کا حل جو ہوگا کہ اسی کے مقابلے میں ایک پاور فل چینل لے کر آیا جائے اس کو تو پیش کیا جائے اس کا ایک واحد حل ہے۔ اس میں پھر ایک بات یہ بھی سامنے آئے گی کہ لوگوں کو اس میں کتنی دلچسپی ہوگی جب وہ باحجاب لڑکیوں کو اسکرین پر دیکھیں گے تو کیا مزہ ائے گا انہیں کیا مزہ ائے گا کہ اگر کوئی بیٹھ کر نصیحتیں کر رہا ہے تو لیکن میں اپ کو بتاؤں بھائی یہ تو ایک مائنڈ سیٹ کی بات ہے ۔یہ بھی دیکھیے ایران میں اس طرح کا میڈیا چل رہا ہے اور اس لیے چل رہا ہے کہ انہوں نے ائرن کرٹن ڈال دئے ہیں ان کے پاس یوٹیوب نہیں ہے ایسی چیزیں انہوں نے اپنے لوگوں کو نہیں دی ہیں ۔اور پاکستان میں کھلی سوسائٹی ہے یہاں یوٹیوب سمیت ہر چیز ہے ہیومن رائٹ کے نام پر سب کچھ ہے۔ لہذا اپ جب بند نہیں باندھ سکتے تو پھر مشکل تو ہوگی ۔
مظفر اعجاز : فی الحال تو ایک سوال یہ ہے کہ لوگوں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا سوال یہ ہے کہ لوگوں نے اچھا لکھنا چھوڑ دیا ہے یا بڑھنے والوں کی عادتیں اتنی خراب ہو گئی ہیں کہ وہ پڑھتے ہی نہیں؟
نگار سجاد ظہیر : دیکھنا یہ ہے کہ خرابی کہاں ہے، خرابی دونوں جگہ تھوڑی تھوڑی ہے یعنی اسمارٹ فون انے کے بعد اور سوشل میڈیا کے بعد لوگوں کا پڑھائی کا رجحان تھوڑا کم ہوا ہے یہ تو ماننے والی بات ہے لیکن ختم نہیں ہوا ہے اب اس رجحان کو ہمارے لکھنے والوں کو چاہیے تھا کہ اس خلا کو پر کریں اور وہ چیزیں زیادہ اسان عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچائیں جس کی ڈیمانڈ ہے ۔میرا اپنا پبلشنگ ادارہ بھی ہے قرطاس کے نام سے اب تک ہم تقریبا 190 کتابیں چھاپ چکے ہیں آپ یقین جانیں ہمیں یہ شکایت نہیں ہے کہ کتاب نہیں بکتی ابھی میری جو کتاب ائی ہے بظاہر بات یحیی سنوار کے ناول کی ہے ناول تو میں نہیں سمجھتی اس کا میں نے اردو ترجمہ شائع کیا یہ پریس سے باہر ائی اور ایکسپو میں پانچ دن میں اس کے 400 نسخے بک گئے، تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ لوگ پڑھنا نہیں چاہتے لوگ پڑھ نہیں رہے ہیں یا اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ لوگ چاہتے ہیں نا وہ چیز انہیں مل نہیں رہی ہے اور جب وہ چیز اپ پیش کر دیتے ہیں تو پھر ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے۔
راشدہ انجم: ایک سوال جو ذہن میں ارہا ہے کہ آج کا ہاٹ ایشو بھی ہے ،خواتین کے حوالے سے بات کی جائے تو خواتین کی آزادی خواتین کے حقوق مساوات مرد و زن ، یہ کہاں لے جارہا ہے ؟
نگار سجاد ظہیر:اس طرح کی ساری چیزیں ہیں، لیکن اگر اس معاشرے میں ویمن امپاورمنٹ جس کو ہم کہہ سکتے ہیں تو اج کے حالات میں پاکستان کے معاشرے میں اور ہماری جو ثقافتی اقدار ہیں، ان کو دیکھیے، اسلام نے جو ہمیں حقوق دیے ہیں لیکن پاکستان کی حد تک مسئلہ یہ ہے کہ ان حقوق کو پورا نہیں کیا جا رہا ہے مثال کے طور پر اسلام نے عورتوں کو وراثت کا حق دیا ہے اپ پوری پاکستانی سوسائٹی میں دیکھ لیں کتنے فیصد لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حقوق نہیں، حقوق تو ہیں حقوق دیئیےنہیں جا رہے ہیں پاکستانی سوسائٹی کا یہ مسئلہ ہے۔ ایک سروے تھا میں ابھی چند دن پہلے دیکھ رہی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا کہ کتنے پرسنٹ لوگ ہیں جو اس چیز پر یقین کرتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو وراثت کا حق دیا ہے تو اس میں 70 سے 80 فیصد لوگوں نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے خواتین کو حقوق دیے ہیں، پھر ان سے اگلا سوال جو پوچھا گیا کہ کیا اپ اپنی خواتین کو یہ حقوق دیں گے تو اب ان کے 80 فیصدنے یہ کہا کہ ہم نہیں دیں گے ۔
ہم اور آپ تو کراچی میں رہتے ہیں، کراچی ایک بالکل دوسری چیز ہے دوسری جگہ ہے اپ اندرون سندھ جا کر دیکھیں جو کراچی سے بہت بڑا ہے اور کے پی کے میں جا کے دیکھیں اپ بلوچستان میں اور اندرون پنجاب جا کر دیکھیں تو یہ جو بڑے شہر ہیں یہاں پر تو اپ کو مل جائے گا وراثت کا نظام کسی نہ کسی حد تک باقی کہیں نہیں ملے گا ۔
راشدہ انجم : اس کا سبب کیا ہے؟
نگار سجاد ظہیر : دیکھیں نا یہ کتنی بڑی بات ہے کہ سروے کے سوال میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے عورتوں کو وراثت کا حق دیا ہے اور پھر نیچے جب سوال پوچھا جا رہا ہے اپ دیں گے، تو کہتے ہیں کہ نہیں دیں گے ،اس کا سبب یہ ہے کہ اس طرح کی تعلیم کسی نہ کسی طریقے سے بڑے پیمانے پر ان تک پہنچائی جائے ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، ہم نے انہیں ایجوکیٹ ہی نہیں کیا ہم نے صرف شہروں تک تعلیم پہنچا دی اور ہم سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا شہروں میں تو کافی حد تک ٹھیک ہے لیکن اپ کی 80 فیصد ابادی تو ان علاقوں میں رہتی ہے تو 80 فیصد ابادی کے پاس تو اپ نے جانا چھوڑ دیا، کہنے کو یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں لٹریسی ریٹ 54 فیصد ہے کوئی 50 بتا دیتا ہے لیکن اس لٹریسی ریٹ کی ڈیفینیشن ہےکہ اپ اپنا نام لکھ سکتے ہیں اور اپ دستخط کر سکتے ہیں، تو یہ ہمیں نہیں چاہیے، ہمیں اصل علم لوگوں تک پہنچانا ہے اس کے لیے تو کوئی بھی کام نہیں ہورہا اور کیوں نہیں ہو رہا اس کی بھی وجہ میں اپ کو بتا دوں کہ اپ اگر اپنے ٹیم لے کر کے جانا چاہیں اگر اپ کسی گاؤں میں بلوچستان کے یا انٹیریئر پنجاب وہاں اپ کا سابقہ وڈیرے سے پڑے گا یا وہاں کے گاؤں کے جو بھی زمیندار اور اس قسم کے لوگوں سے پڑے گا اپ کو مار کے وہاں سے نکال دیں گے، لاش ملے نا ملے، اللہ نہ کرے اگر انہیں پتا چل گیا کہ اپ ان کے لوگوں کے ذہن بدلنے کے لیے ائے ہیں تو ایسا ہی کریں گے کیونکہ انہیں جہالت سوٹ کرتی ہے لہذا وہ اپنے لوگوں کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں پھر اب یہ ایک بہت بڑا مافیا ہے جو ہمارا وڈیرہ شاہی ہے۔ اگر ہم فوکس کریں نئی نسل کو تو بہتری ہوسکتی ہے۔
مظفر اعجاز: اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کارٹون اغوا کر کے لے گئے ہیں یا اسکول کا اتنا بھاری بستہ نظام تعلیم کا ایسا ہے کہ وہ اسکول جاتا ہے واپس اتا ہے ٹیوشن جاتا ہے ہوم ورک کرتا ہے اور رات ہو جاتی ہے سو جاتا ہے یا کارٹون دیکھتا ہے تو اس کے پاس کوئی ٹائم ہی نہیں بچتا یا گھر والوں کے پاس بھی ٹائم نہیں بچتا تو اس کو کوئی ایسی تعلیم دے سکیں جس کے دماغ میں اس کے ذہن میں کوئی اچھی چیزیں بالکل راسخ ہو جائیں اس مسئلے کا کیا حل ہوگا؟
نگار سجاد ظہیر : میں سمجھتی ہوں کہ اپ نے پھر اس وقت جو بات کی ہے یہ صرف 20 پرسنٹ بچوں کی بات کی ہے 80 فیصد بچے ہمارے اب بھی اسکول سے دور ہیں ۔ اپ کا بچہ تو اسکول جا رہا ہے، ٹی وی دیکھ رہا ہے کارٹون دیکھ رہا ہے پھر وہ اے ائی پہ لگ گیا پھر وہ سوشل میڈیا پہ لگ گیا پھر رات ہو گئی اور وہ سو گیا لیکن وہ جو 80 فیصد بچے ہیں نہ وہ کارٹون دیکھ رہے ہیں نہ وہ اسکول جا رہے ہیں نہ وہ واپس جا رہے ہیں یعنی اصل جو ہمارا خوفناک خلا ہے ،وہ ان 80 فیصد بچوں کے اوپر ہے باقی جو 20 فیصد بچوں کی بات اپ کر رہے ہیں یہ بہت زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے اپ اگر خود ایک مثال کے طور پہ گھر میں موجود ہیں تو میں نہیں سمجھتی کہ ناممکن ہے کہ بچے اس کا اثر نہ لیں اگر والدین کو وہ پڑھتا ہوا دیکھیں گے تو وہ بھی پڑھیں گے ۔ دیکھیے اج کل کتنا کہا جاتا ہے نا کہ بچے میں پڑھنے کی عادت نہیں ہے، میرے دونوں پوتوں کو اپ دیکھیں یہ دیوانوں کی طرح پڑھتے ہیں بلکہ مجھے ڈانٹنا پڑتا ہے کہ اب کتاب بند کرو، چاہے دو تین بج جائیں اور وہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ٹی وی سامنے ہے موبائل برابر میں رکھا ہوا ہے لیکن وہ کتاب پڑھ رہا ہے کیوں؟ کیونکہ انہوں نے اپنی دادی نانی کو اور اپنے امی ابو کو سب کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تو اثر ہوتا ہے ماں باپ اور گھر کے جو دیگر بڑے ہیں ان کا۔ اگر وہ ایک مثال بن جائیں تو نا ممکن ہے کہ بچے کے 24 گھنٹے مصروف ہونے کے باوجود یہ شخصیات ان پر اثر نہ ڈالیں، یہی واحد راستہ ہے۔
راشدہ انجم : آپ پر پی ایچ ڈی بھی کی گئی اور یقینا اچھے مقالے بھی لکھے گئے ہوں گے ایک تو اس کے بارے میں بتائیے دوسرے اپنی کتابوں کے بارے میں بھی ۔
نگار سجاد ظہیر: بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں پی ایچ ڈیز جو ہو رہی ہیں نا وہ بہت ہی بس!!! اب میں کیا بتاؤں وہ بس کوئی معیار نہیں ہوتا،
اصل میں جو لوگ موضوع کا انتخاب کرتے ہیں ،نگران ہوتے ہیں وہ جو کہتے ہیں بھئی فلاں شخصیت پر کر لو یا فلاں پر کر لوتو ان کے اساتذہ نے کہہ دیا ہوگا کہ بھئی نگار سجاد کی شاعری پر کر لو کسی نے ان سے کہہ دیا ایک نے میری سیرت نگاری پر کیا ہے ، جبکہ میری سیرت پر کوئی کتاب نہیں ،میں نے سیرت نگاران مصطفی پہ تو دو کتابیں لکھی ہیں لیکن سیرت پر کچھ نہیں لکھا، جہاں تک کتب کا تعلق ہے میری 12 کتابیں ایک تو ترکی پر میری کتاب تھی وہ ایک ہزار کی تعداد میں چھپی تھی لیکن کافی وقت ہوا وہ ختم ہو گئی تاریخ شام میں نے لکھی تھی وہ ختم ہو گئی میرے سارے افسانوں کے مجموعے تینوں وہ ختم ہو گئے میرے چار سفر نامےان میں سے تین سفر نامے ختم ہو گئے۔
ایک میں نے کتاب لکھی تھی علامہ اقبال اور مسلم اسپین وہ ختم ہو گئی علامہ اقبال اور افغانستان وہ ختم ہو گئی،ہمارے جو قارئین ہیں وہ اب ہمیں اور ہم انہیں سمجھ گئے ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ قرطاس سے ہمیں کیسی کتابیں ملیں گی لہذا ہمارا ایک اچھا کمیونٹی سسٹم بن گیا ہے اس میں زیادہ تر نوجوان ہیں اور وہ لوگ ہیں جو مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں جنہیں اسلامک ہسٹری سے دلچسپی ہے یونیورسٹی کے وہ اسٹوڈنٹس اور اساتذہ ہیں جن کا تعلق اسلامک ہسٹری سے ہے تو جب وہ اسلامک ہسٹری کی کتابیں خریدتے ہیں تو وہ میری دوسری کتابیں بھی خرید لیتے ہیں ،اس طرح سے میری دوسری کتابیں بھی فروخت ہوجاتی ہیں۔ مجھے کسی کا سیکنڈ اور کسی کا تھرڈ ایڈیشن لانا ہے تو الحمدللہ ہمیں ایک حلقہ بہت اچھا مل گیا ہے ۔
( نوٹ) محترمہ نگار سجاد ظہیر سے جتنی گفتگو ہوئی ہے اس میں ہم نے ان چیلنجز کا بھی ذکر کیا جو معاشرے کو درپیش ہیں اور انہوں نے ان کا حل بھی بتایا کہ معاشرے کو درپیش ان چیلنجز کا کیا حل ہے۔ لیکن ہم سب کے لئیے سوال یا سوچنے کی بات ہے کہ والدین کیا کریں طلبہ کیا کریں صحافی کیا کریں دانشور کیا کریں، سب کے لیے اس میں رہنمائی ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: