Advertisement

بھارتی آبی جارحیت اور پاکستان میں غیر سنجیدگی

رپورٹ: سعد حسن مرزا
بزمِ مکالمہ پاکستان کی تینتیسویں نشست کا انعقاد ایک نہایت سنجیدہ اور اہم موضوع ’’بھارت کی آبی جارحیت، مسئلہ کشمیر کے تناظر میں‘‘پر ہوا۔ یہ نشست موجودہ حالات میں پانی، سیاست اور مسئلہ کشمیر کی باہمی گتھیوں کو سمجھنے کی ایک سنجیدہ علمی کاوش تھی۔یہ نشست پاکستان کے موجودہ آبی بحران، بھارت کی جانب سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ، اور اس کے کشمیر پر اثرات جیسے نازک پہلوؤں پر ایک بصیرت افروز مکالمے کی صورت میں سامنے آئی۔
نشست کا آغاز بانی و منتظمِ مسؤل جناب شیخ طارق جمیل صاحب کی ابتدائی گفتگو سے ہوا۔ انہوں نے موضوع کی نزاکت، اہمیت اور قومی تناظر میں اس کی حساسیت کو اجاگر کرتے ہوئے تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا۔نہوں نے بزمِ مکالمہ کی روایت پر روشنی ڈالی کہ کس طرح مختلف علمی و قومی مسائل پر کھلے دل سے مکالمہ کرنے کی روایت قائم کی گئی ہے۔
نشست کی نظامت کے فرائض جناب شفیق اللہ اسماعیل نے نہایت خوش ا انجام دیے۔ تلاوتِ قرآنِ مجید کی سعادت جناب ضیاء الرحمٰن صاحب نے حاصل کی،
بزمِ مکالمہ پاکستان کے مستقل رکن اور سرپرست جناب اقبال راجہ صاحب (مرحوم) اور بزمِ مکالمہ کی مستقل رکن اور نفیس خاتون محترمہ مس زرین گھانی والا (مرحومہ) کے لیے دُعائے مغفرت کی گئی۔
معزز مہمان مقرر جناب ڈاکٹر بشیر لاکھانی کا جامع اور ادبی انداز میں تعارف معروف دانشور افتخار احمد ملتانی نے پیش کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ایک معروف ماہر توانائی ہیں جنہوں نے پاکستان میں متعدد پن بجلی منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کیا، تاہم ان کی شناخت صرف ایک ’’خشک انجینئر‘‘تک محدود نہیں، بلکہ وہ شعر و ادب کے دلداہ، سیاسی تجزیہ نگار، اور ادبی تنظیموں کے سرپرست بھی ہیں۔
جناب ڈاکٹر بشیر لاکھانی صاحب نے اپنے مدلل خطاب میں بھارت کی آبی جارحیت کو ایک طویل المدتی اور منظم حکمتِ عملی کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور نئے ڈیموں کی تعمیر کا براہِ راست تعلق نہ صرف پاکستان کی زرعی معیشت سے ہے بلکہ مسئلہ کشمیر کے اساسی پہلو سے بھی جڑا ہوا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر پاکستان نے سفارتی، قانونی اور تکنیکی محاذ پر مؤثر اور مربوط حکمت عملی نہ اپنائی تو یہ آبی جارحیت آئندہ نسلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ان کا خطاب فکر انگیز بھی تھا اور اعداد و شمار پر مبنی حقائق سے بھرپور بھی۔ جنہوں نے بھارت کی آبی جارحیت کو محض تکنیکی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک مکمل سیاسی، اسٹریٹیجک اور انسانی مسئلہ قرار دیا۔انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر، پانی روکنے کے منصوبے اور انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزیاں، صرف پاکستان کے پانی کے حقوق پر حملہ نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر کو کمزور کرنے کی ایک چال ہے۔
انہوں نے تاریخی تناظر میں 1960 کی سندھ طاس معاہدے سے بات کا آغاز کیا اور پھر 2016 سے لے کر 2024 تک بھارت کی بدلتی ہوئی پالیسیوں، زبانی بیانات سے لے کر تحریری انکار اور ڈیموں کی تیز رفتار تعمیر تک کے مراحل کا تجزیہ کیا۔
جناب بشیر لاکھانی نے بتایا کہ بھارت نے اطلاعات کی فراہمی روک دی ہے، انڈس واٹر کمیشن کے اجلاسوں میں سنجیدگی کم ہوتی جا رہی ہے، اور تکنیکی تعاون کا دروازہ بند کیا جا چکا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی آبی پالیسی، کمزور تیاری، اور بڑے آبی منصوبوں پر سست روی پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں صرف تربیلا اور منگلا جیسے منصوبے بنائے گئے، جبکہ بعد ازاں کوئی بڑا اسٹرکچر نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے آبی وسائل کے شعبے میں بیوروکریٹک رویے، فنڈنگ کے مسائل، اور سیاسی عدم استحکام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

  1. پاکستان کو فوری طور پر آبی پالیسی کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتے ہوئے ترجیح دینی چاہیے۔
  2. نئے ڈیمز، پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے، اور عالمی فورمز پر مؤثر سفارتی حکمت عملی اپنائی جائے۔
  3. انڈس واٹر ٹریٹی کی روح کے مطابق بھارت کی خلاف ورزیوں کا قانونی اور بین الاقوامی سطح پر مؤثر جواب دیا جائے۔
  4. داخلی سطح پر عوام میں آبی شعور پیدا کیا جائے اور ادارہ جاتی اصلاحات کی جائیں۔
    یہ نشست فکری لحاظ سے نہایت جامع، باخبر اور بصیرت افروز رہی۔ مقرر کی علمی گرفت اور بصیرت نے شرکاء کو نہ صرف معلومات دی بلکہ سنجیدہ سوالات بھی پیدا کیے۔ بزمِ مکالمہ پاکستان کی یہ کوشش قابلِ تحسین ہے کہ وہ ایسے اہم قومی موضوعات پر مکالمے کا اہتمام کر رہی ہے۔
    کلیدی نکات:
  5. انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزیاں:
    بشیر لاکھانی نے بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا، خاص طور پر 2016 میں دیے گئے زبانی بیانات اور 2023 میں باضابطہ طور پر بائی لیٹرل موڈیفکیشن کی درخواست کا ذکر کیا۔ پاکستان کی جانب سے اس درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد، بھارت نے انڈس واٹر کمیشن کی میٹنگز میں شرکت بند کر دی اور معلومات کا تبادلہ روک دیا۔
  6. پاکستان کی آبی پالیسیوں کی کمزوریاں:
    انہوں نے پاکستان کی آبی پالیسیوں کی کمزوریوں پر روشنی ڈالی، خاص طور پر 1975 کے بعد سے کوئی بڑا ڈیم نہ بنائے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے بھاشا ڈیم اور اکوڑی ڈیم جیسے منصوبوں کا ذکر کیا جو سیاسی بیانات اور افتتاحی تقریبات تک محدود رہے، لیکن عملی طور پر مکمل نہ ہو سکے۔
  7. بھارت کی ہائیڈرو پاور منصوبے:
    بشیر لاکھانی نے بھارت کی جانب سے دریاؤں پر متعدد ہائیڈرو پاور منصوبے بنانے پر تشویش کا اظہار کیا، جو انڈس واٹر ٹریٹی کی روح کے منافی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مغربی دریاوں پر تھوک کے بھاؤ ڈیمز اور ہائیڈرو پاور منصوبے بنائے ہیں، جبکہ پاکستان صرف سیاسی بیانات اور منصوبوں کے اعلانات تک محدود رہا۔
    تقریب میں حسب روایت کثیر تعداد میں معززین شہر نے شرکت کی۔
    پروگرام کے اختتام پر بزمِ مکالمہ پاکستان کی جانب سے روزنامہ جسارت کے سابق مدیر جناب مظفر اعجاز، جناب نعیم قریشی،جناب شیخ طارق جمیل، جناب افتخار ملتانی اور جناب شفیق اللہ اسماعیل نے معزز مہمان جناب ڈاکٹر بشیر لاکھانی کو اعزازی شیلڈ پیش کی۔ مہمانوں کی تواضع کے نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: