Advertisement

بجٹ: اُمیدیں ، سوالات اور حقیقت

تحریر: محمد عامر رفیع (جنرل سیکرٹری : پاکستان بزنس فورم، کراچی)

جون کا مہینہ پاکستان میں صرف گرمی نہیں، بلکہ مالی تنگی اور بجٹ کی گونج بھی لے کر آتا ہے۔ بجٹ 2025- 26 بھی آ گیا، اعداد و شمار بھی سامنے آ گئے، لیکن سوال یہ ہے:
یہ بجٹ عوام کے لیے؟ تاجر کے لیے؟ ملازمت پیشہ کے لیے؟ یا صرف قرض خواہوں کے اطمینان کے لیے ہے؟
پاکستانی شہری اور بزنس فورم کراچی کی حیثیت سے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بجٹ کو زمینی حقیقت کی عینک سے دیکھیں، اور اس کے مثبت و منفی پہلوؤں کو دیانتداری سے عوام تک پہنچائیں۔
عوامی طبقہ: وعدے بہت، ریلیف کم
بجٹ تقریر میں احساس پروگرام، سبسڈی، اور ٹارگٹڈ ریلیف کا ذکر تو ضرور ہے، مگر عوام کی ریلیف فیلڈ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ آٹا، چینی، سبزیاں، گیس، بجلی ، ہر چیز آج بھی ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔
پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو صرف گاڑیاں نہیں، زندگی کی ہر ضرورت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بجٹ سازوں کو بارہا یاد دلانا پڑتی ہے۔
ملازمت پیشہ افراد:
سفید پوش، سیاہ حالات
نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہیں نہ مہنگائی کے مطابق بڑھتی ہیں، نہ ان کو کوئی ٹیکس ریلیف دیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے لیے معمولی تنخواہ اضافہ ہو بھی جائے، تو نجی اداروں کے ملازمین صرف دعائیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
ہماری تجویز ہے کہ کم از کم ٹیکس فری انکم کی حد 15 لاکھ سالانہ تک کی جائے تاکہ مہنگائی کی مار تھوڑی نرم پڑے۔
کاروباری طبقہ: ملک کا پہیہ
لیکن زنجیروں میں جکڑا ہوا
بجٹ میں کاروبار سے جُڑی پالیسیوں کی غیر یقینی کیفیت بدستور جاری ہے۔ کبھی نیا ٹیکس، کبھی ریفنڈ میں تاخیر، کبھی گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ یہ سب اقدامات کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ہیں، نہ کہ ترقی کا زینہ۔
چھوٹے تاجروں کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام کو سہل اور شفاف بنایا جائے، اور SME سیکٹر کو کم شرح پر قرضے فراہم کیے جائیں، تاکہ چھوٹا کاروبار سانس لے سکے۔
برآمدات، سرمایہ کاری
اور اصلاحات کہاں ہیں؟
یہ بجٹ برآمدات بڑھانے کے کسی جامع پلان سے خالی ہے۔ جب تک ایکسپورٹرز کو خام مال، توانائی، اور ریفنڈ کی فوری سہولت نہ دی جائے، تب تک ہم صرف دعاؤں پر ہی کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سنوارنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول کا کوئی واضح خاکہ بجٹ میں نظر نہیں آتا۔ اعتماد، پالیسی کا تسلسل اور ریگولیٹری سادگی ہی سرمایہ کاری کھینچ سکتی ہے، نہ کہ خالی نعرے۔
پاکستان بزنس فورم کی تجاویز:
ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
1 تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ کم کیا جائے۔
2 چھوٹے کاروبار کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام سہل بنایا جائے۔
3 برآمدی شعبے کو فوری ریلیف دیا جائے۔
4 یوٹیلیٹی بلز میں غریب طبقے کے لیے حقیقی سبسڈی دی جائے۔
5 بیروزگاری کم کرنے کیلئے SME سیکٹر کو فروغ دیا جائے۔
6 بجٹ اعداد. و شمار کے جادو کے بجائے عام آدمی کی زندگی مین بہتری جائے۔
یہ بجٹ ایک موقع تھا کہ حکومت عوام کا اعتماد بحال کرے۔ لیکن اعتماد صرف وعدوں سے نہیں، عملی اقدامات سے ملتا ہے۔
پاکستان بزنس فورم کراچی، تاجر، ملازم، اور عام شہری کے ساتھ کھڑا ہے، اور ہم ہر سطح پر اصلاحات، انصاف اور آسانی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: