تحریر: خیرالنساء بلوچ
آج کل ماسی بھاگی بہت خوش رہنے لگی تھی اور خوش کیوں نہ ہوتی کہ ان کے اکلوتے بیٹے سانول کے ہاں ننھا مہمان آنے والا تھا۔ اس کے استقبال کے لیے ماسی بھاگی نئے اور پرانے کپڑوں کی کترنوں سے چھوٹی بڑی رِلیاں بنا رہی تھی۔
ان رِلیوں میں بہت سے خواب اور خواہشیں تھی وہ جو سانول کے لیے کرنا چاہتی تھی نہ کر سکی اب وہ سانول کے بچے کے لیے سوچ رہی تھی۔ وہ لوریاں گنگناتی اور ان لوریوں میں دعائیں مانگتی کہ آنے والے بچے کی زندگی میں خوشحالی اور سکون ہو اور کوئی دکھ اسکے قریب بھی نہ آئے۔ سانول جب تین سال کا ہوا تو اس کا باپ رحیم داد سانپ کے کاٹنے سے مر گیا ۔ماسی بھاگی کو آج بھی وہ رات سکون سے سونے نہیں دیتی تھی ۔جب رحیم داد زمیندار کے کھیتوں میں اپنی باری کا پانی لگانے گیا تھا۔ اور کجھ دیر بعد ہی وہ واپس آکر اپنے باپ اور بیوی کو جگانے لگا کے اسے لونڈی( سانپ )نے کاٹا ہےاب اس کا سر بھاری ہو رہا ہے۔
بھاگی نے لالٹین کی لو تیز کی تو اسےرحیم داد کے ہونٹ نیلے پڑتےمحسوس ہوئے اس نے اپنے سسر سے کہا چاچا آپ فوراً جا کر زمیندار کو کہیں کہ وہ رحیم داد کو شہر کے ہسپتال لے جائے۔ کیونکہ ان کے گاؤں کے ڈسپنسری میں نہ تو دوائیاں تھی نہ ڈاکٹر ۔پچھلی الیکشنوں میں جب زمیندار صاحب کے چچا زاد بھائی اسمبلی کے ایم پی اے بنے تو انہوں نے یہ ڈسپنسری بنوائی مگر آج تک نہ اسے ڈاکٹر نصیب ہوا اور نہ دوائیاں ڈاکٹر اور دوائیاں شاید اب اگلے الیکشن میں ہی آئیں گی ۔فلحال تو ڈسپنسری کی عمارت زمیندار کے بیٹوں اور اس کے دوستوں کا اوطاق تھا۔ جہاں دن رات ان کی کچہری چلتی تھی ۔خمیسو دوڑتا ہوا حویلی پہنچا اور دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتا رہا تب کہیں جا کر ملازم نے دروازہ کھولا تو اس نے اسے رحیم داد کے بارے میں بتایا اور اسے کہا کہ وہ زمیندار سے کہے کہ رحیم داد کو اسپتال لے جا ئے۔
ملازم نے خمیسو کو جھڑکتے ہوئے کہا تم پاگل ہو کیا جو آدھی رات کو زمیندار صاحب کی نیند خراب کرنے آئے ہو خمیسو گڑگڑانے لگا اور کہنے لگا ادا تم زمیندار کو بھلے نہ جگاؤ مگر اس کی گاڑی اور ڈرائیور دو تو میں اپنے بیٹے کو ہسپتال لے جاؤں۔ ملازم مولا بخش کہنے لگا کہ دیکھو میں تمہاری مشکل سمجھ سکتا ہوں مگر مجھے مجبور نہ کرو کیونکہ رئیس کی اجازت کے بغیر میں کچھ نہیں کر سکتا تمہیں تو یاد ہوگا کہ جب ماما گلو کی بہو کو بچہ ہونے والا تھا اور دائی نے کہا کہ اسے شہر کے اسپتال لے جاؤ تو ڈرائیور نے ترس کھا کر اسے اسپتال پہنچایا اور واپسی میں رئیس نے اسے کتنا مارا تھا ۔
اس کی تنخواہ اور اناج دونوں روکے تھے اور کہا کہ آئندہ اس کی گاڑی کمی کمینوں کے لیے بھول کر بھی استعمال نہ کرنا تم جا کر رحیم داد کو کسی پاڑھوں (سانپ کے کاٹنے کا دم کرنے والا)کو دکھاؤ ۔گاؤں میں رئیس کے علاوہ کسی کے پاس گاڑی نہ تھی ۔خمیسو مایوس آنسو بہاتا گھر آیا تو اس کی زندگی کی کمائی لٹ چکی تھی۔ سانپ کے زہر نے اس کا اکلوتا بیٹا نہیں مارا تھا بلکہ خمیسو کا پورا گھر ایک سانس لیتی موت کے منہ میں آگیا تھا ۔جوان بہو معصوم پوتا ذمہ داریوں کے کئی ناگ اس کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔بھاگی تو جیسے نیم پاگل ہو گئی تھی۔
رحیم داد کے جانے کے بعد اسے اپنے زندہ ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب ننھے سانول نے اس کا پلو پکڑ کر کھانا مانگا یہ وقت تھا جب بھاگی کو احساس ہوا کہ اب اس کی زندگی اپنی نہیں بلکہ سانول کی ہے ۔رحیم داد سے شادی کے بعد وہ بہت کم کھیتوں میں جاتی تھی کیونکہ رحیم داد کی غیرت کو گوارا نہیں تھا کہ اسے کوئی دیکھے بلا شبہ بھاگی اپنے ہم جولیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی سانول کی پیدائش کے بعد تو اس میں اور نکھار آگیا تھا۔ مگر اب وہ وقت گزر گیا تھا اب بھاگی کو سانول کے لیے نکلنا تھا کیونکہ اس کا سسر بوڑھا اور بیمار تھا۔
عدت کے دن جیسے تیسے گزر گئے تو اس کے بوڑھے سسر نے اسے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے میکے چلی جائے کیونکہ اس کے بھائیوں نے دبے لفظوں میں کہا تھا کہ وہ بھاگی کا دوسرا نکاح کریں گے۔ مگر بھاگی نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسے تو قبول کیا جائے گا مگر سانول کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور سانول کے بغیر زندگی کا تصور بھاگی کے لیے موت کے برابر تھا ۔بھاگی کو مجبوراً اپنے بوڑھے سسر کے ساتھ رئیس کے کھیتوں پر جانا پڑا۔
کھیتوں پر کام کرتے آتے جاتے رئیس کی نظریں بھاگی کو دہلا دیتی چادر کی بکل میں بھی وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ۔گھر جاتی تو گھر کی ہر دیوار پر رئیس کی آنکھیں نظر آتی ۔وہ ڈر کا شکار تھی گرمی اور حبس کے دنوں میں بھی وہ اپنی کوٹھڑی میں سونے لگی ۔انہی حبس زدہ دنوں میں ایک دن رئیس نے اس کے سسر کو بلایا اور بھاگی کا ہاتھ مانگا۔ خمیسو نے لرزتےہوئے آواز کے ساتھ کہا کہ سائیں میری بہو شادی نہیں کرنا چاہتی وہ اپنا بچہ پالنا چاہتی ہے اس نے اپنے بھائیوں کو بھی انکار کر دیا ہے کہ وہ نکاح نہیں کرے گی۔
رئیس نے طنزیہ ہنکارہ بھر کر خمیسو کو دیکھا اور کہا خمیسںو سوچ کر بولا کرو تم جانتے ہو کہ تم کس کو انکار کر رہے ہو شاہنواز شاہ کو انکار سننے کی عادت نہیں ہے سمجھے اب تم جاؤ میں کل نکاح خواہ کو لے کر آؤں گا اور ہاں بھاگی کو بھی سمجھا دینا کہ اسے ہر حال میں حویلی آنا ہے اچھا ہے کہ نکاح کر کے آئے نہیں تو آگے تم سمجھتے ہو ۔خمیسو گھر آیا تو دیکھا کہ سانول اپنے مٹی کے گھوڑے سے کھیل رہا تھا اور بھاگی رات کے کھانے کے لیے آگ جلانے کے لیے گوبر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈال رہی تھی اسے دیکھا تو پانی لے کر آئی اور پوچھنے لگی چاچا رئیس نے اپ کو کیوں بلایا تھا ۔
اس نے بہو کو بیٹھنے کا کہا اور ساری بات بتا دی اور اس سے کہا کہ بھاگی بیٹی اچھا ہوگا کہ تم رئیس کی بات مانو وہ بہت طاقتور ہے وہ ہمیں گاؤں میں رہنے نہیں دے گا سانول کو میں سنبھال لوں گا ۔بھاگی دکھ اور حیرت سے اپنے سسر کو دیکھنے لگی اور کہنے لگی کہ چاچا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہو آپ جانتے ہو کہ میں سانول کے بغیر نہیں رہ سکتی پھر بھی آپ ایسے کہہ رہے ہو ۔تو بیٹی تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں میں بوڑھا بیمار تمہاری حفاظت نہیں کر سکتا خمیسو نے ہارکر کہا تو ٹھیک ہے چاچا ہم رات ہی کو گاؤں چھوڑ دیں گے الّلہ کی زمین وسیع ہے ہم کہیں بھی چلے جائیں گے مگر میں رئیس سے شادی نہیں کروں گی ۔
کھانے کے بعد بھاگی نے کچھ ضروری سامان گٹھڑی میں باندھا اور سانول کو اٹھایا اور اپنے سسر کو لے کر گھر سے نکل گئی یہ دو کمروں کا کچا مکان جہاں وہ دلہن بن کر آئی تھی ۔جس میں اس کا سانول پیدا ہوا تھا اس کے لیے کسی محل سے کم نہ تھا۔ مگر اس کی غربت اور کمزور حیثیت نے اسے آج دربدر کر دیا اسے یاد آرہا تھا ۔جب رئیس کی بہن کا شوہر کار ایکسیڈنٹ میں مرا تھا تو اس نے بھی دوسری شادی سے انکار کیا تھا اور اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنی الگ حویلی میں جا کر رہنے لگی اس پر کسی نے زبردستی کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ ایک امیر خاندان کی لڑکی تھی اور بھاگی ایک غریب ہاری کے گھر کی عزت تھی جو آج دربدر تھی اپنا گاؤں چھوڑ کر وہ اپنے میکے کے گاؤں آئی۔
کچھ بھی تھا یہاں اس کے بھائی تھے جو کچھ نہ کچھ تو اس کا سہارا بنتے ۔وقت ایک نا محسوس دوا ہے جو انسانی دکھوں اور تکلیفوں پر مرہم رکھتا ہے۔ بھاگی کے ساتھ بھی یہی ہوا بھاگی دن کو کھیتوں میں کام کرتی اور رات کو گھر میں چارپائیوں کے لیے بان بنتی اس کی زندگی کا محور اب سانول تھا وہ سانول کو پڑھانا چاہتی تھی۔ مگر گاؤں کا اسکول گاؤں کے رئیس کے بھینسوں کا باڑا بن چکا تھا۔
سرکاری استاد ہر مہینے گھر بیٹھے تنخواہ لیتا اور رات کو رئیس کے او طاق میں رئیس اور اس کے مہمانوں کو قصے سناتا جن کے نام پر وہ حکومت سے تنخواہ لے رہا تھا۔ وہ بچے سارا دن گاؤں کی گلیوں میں آوارہ کتوں کے ساتھ کھیلتے یا پھر ٹیوب ویل میں جا کے ٹھنڈے پانی میں غوطے لگاتے تھوڑے بڑے ہو جاتے تو رئیس کے ہاری بن جاتے یا اس کے گھوڑوں اور ولایتی کتوں کو نہلانے کے کام میں لگا دیے جاتے ۔
گاؤں کا اکلوتا ہوٹل ہر وقت ان نوجوانوں سے بھرا رہتا جن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا وہ تیز آواز میں جلال کے گانے سنتے آتے جاتے لوگوں پر فقرے کستے ۔ایسے ماحول میں مائی بھاگی نے سانول کو بہت سنبھال کر رکھا وہ پڑھ تو نہ سکا مگر اخلاق مروت اور محبت سے بھرپورنوجوان بن کے ابھرا ۔
سانول نے بچپن ہی سے محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اس کا ایک ہی خواب تھا اپنی ماں کو خوش دیکھنا جس کے لیے وہ دن رات ایک کر کے محنت کرتا یہ اس کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ آج اس کی ایک بھینس دس بھینسوں میں بدل گئی۔ جن کا دودھ وہ قصبے کی دکانوں میں جا کر بیچتا تھا۔
اس نے اپنا مکان بھی پکا کروایا تو بھاگی کو اس کی شادی کی فکر ہوئی اس نے اپنے بھائی سے اپنی بھتیجی مومل کا ہاتھ مانگا جو اس کے بھائی نے خوشی خوشی دےدیا۔کیوں نہ دیتا کہ سانول جیسا محنتی اور با اخلاق لڑکا پورے گاؤں میں نہیں تھا اور مومل بھی اپنے نام ہی کی طرح اخلاق اور محبت کا پیکر تھی ۔
کچھ مہینوں کے بعد بھاگی کو دادی بننے کی خوشخبری ملی تو اسے لگا کہ زندگی میں کبھی کوئی دکھ دیکھا ہی نہیں ۔بھاگی ہر وقت اللہ سائیں سے باتیں کرتی اور کہتی بے شک مٹھڑے اللہ سائیں آپ ہی درد مندوں کے درد دور کرنے والے ہیں۔ ماسی بھاگی کو امید تھی کہ اس کا پوتا ایک نئی روشنی میں آنکھ کھولے گا ۔
















