Advertisement

جب خون سے لکھی گئی جمہوریت کی فتح ہوئی

15 جولائی 2016 کی رات ترکیہ کی تاریخ میں ایک سیاہ لیکن تابناک باب کے طور پر درج ہے۔ یہ وہ رات تھی جب ترک عوام نے اپنی جمہوریت کو بندوقوں کے سائے سے بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ چاندنی رات میں ایمان کا اجالا پھیلا، جب انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر عوام نے بغاوت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
بغاوت کا آغاز
رات کے وقت، جب مساجد سے عشا کی اذان گونج رہی تھی، فوجی وردیوں میں ملبوس کچھ باغی عناصر نے بغاوت شروع کر دی۔
باسفورس پل پر ٹینکوں نے قبضہ کر لیا۔
انقرہ میں پارلیمنٹ پر F-16 طیاروں سے بمباری کی گئی۔
سرکاری ٹی وی (TRT) پر قبضہ کر کے مارشل لا کا اعلان کیا گیا۔
عوام کو گھروں میں رہنے اور سڑکوں پر نہ نکلنے کا حکم دیا گیا۔
صدر رجب طیب ایردوان کو قتل یا اغوا کرنے کی سازش رچی گئی۔
یہ ایک منظم کوشش تھی کہ ترکیہ کی جمہوریت کو ختم کیا جائے، جو عوام کے ووٹ سے مضبوط ہوئی تھی۔
ایردوان کی تاریخی اپیل
مارمارس میں موجود صدر ایردوان نے موبائل فون کے ذریعے ویڈیو کال پر عوام سے کہا:
گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر نکلیں۔ یہ ملک، یہ قوم، یہ جمہوریت ہم سب کی ہے۔ ہم اسے بچائیں گے۔
یہ الفاظ ترکیہ کے لیے بیداری کی اذان بن گئے۔ مساجد سے تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں، اور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔
خواتین بچوں سمیت گھروں سے نکلیں۔
جوان ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔
بزرگ قرآن ہاتھوں میں لے کر احتجاج میں شریک ہوئے۔
عوام کی بہادری
عبدالحمید (استنبول سے) نے بتایا کہ ایک نوجوان نے ٹینکوں کے قافلے کو روکنے کے لیے خود کو ان کے نیچے لٹا دیا اور کہا: “تم مجھ سے گزر جاؤ، مگر میری قوم سے نہیں۔”
فاطمہ شکر، جو 8 ماہ کی حاملہ تھیں، پارلیمنٹ کے باہر کھڑی ہوئیں اور کہا: “اگر میرے بچے کو آزاد ترکیہ میں جنم لینا ہے، تو مجھے ڈٹنا ہوگا۔”
پارلیمنٹ پر حملے کے دوران اراکین نے زیرزمین شیلٹر میں اجلاس جاری رکھا، قرآن اور آئین کو سینے سے لگائے رکھا۔
اس رات کو ہونے والے نقصانات
251 شہادتیں
2,194 زخمی
117 میڈیا اہلکار گرفتار
131 میڈیا ادارے بند
ہزاروں FETÖ سے منسلک افراد گرفتار یا برطرف
FETÖ کیا ہے؟
فتح اللہ گولن، جو خود کو مذہبی رہنما کہتے ہیں، نے FETÖ (فتح اللہ دہشت گرد تنظیم) کے ذریعے ترکیہ کے اداروں (فوج، عدلیہ، پولیس، تعلیم، میڈیا) میں اپنا نیٹ ورک بنایا۔ اس کا مقصد جمہوریت کو کمزور کرنا تھا۔
گولن کے حامیوں نے ریاستی اداروں میں چھپ کر نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کی۔
15 جولائی کی بغاوت اس نیٹ ورک کی سب سے بڑی سازش تھی، جو ناکام ہوئی۔
شہداء کی کہانیاں
یعقوب اولو: باسفورس پل پر ٹینک کے سامنے کھڑے ہو کر شہید ہوئے۔
فاطمہ ایلمس: تین بچوں کی ماں، جو اپنی فیملی کے تحفظ کے لیے سڑک پر نکلیں۔
کمال توران: پارلیمنٹ کے باہر گولیوں کا نشانہ بنے۔
بغاوت کے بعد
صدر ایردوان نے FETÖ کے خلاف سخت کارروائی کی۔
ہزاروں فوجی، ججز، اور اساتذہ برطرف یا گرفتار۔
تعلیمی اداروں سے باغی عناصر نکالے گئے۔
ترکیہ نے جمہوریت کی حفاظت کو یقینی بنایا۔
پارلیمنٹ کی مرمت کی گئی اور شہداء کی یادگاریں بنائی گئیں۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان نے ترکیہ کی حمایت میں یکجہتی دکھائی:
اسلام آباد اور لاہور میں جلوس نکالے گئے۔
پاکستانی میڈیا نے شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
سوشل میڈیا پر #StandWithErdogan اور #TurkeyPakistanBrotherhood مقبول ہوئے۔
FETÖ کے اسکولز پر کارروائی کی گئی، کئی بند یا حکومتی کنٹرول میں لیے گئے۔
عالمی ردعمل
امریکہ اور یورپی یونین نے بغاوت کی مذمت کی، لیکن ان کے بیانات متضاد رہے۔
نیٹو نے مذمت کی مگر ترکیہ کی فوجی ساخت پر سوالات اٹھائے۔
روس اور مشرقی ممالک نے ترکیہ کی جمہوریت کی حمایت کی۔
نوجوان نسل کی بیداری
15 جولائی نے ترکیہ کی نوجوان نسل میں جمہوریت اور وطن کی محبت کو بیدار کیا۔
بہت سے نوجوانوں نے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور ملک کی خدمت کو ترجیح دی۔
ترکیہ کی موجودہ حالت (2025)
ترکیہ آج بھی سیاسی استحکام، معاشی ترقی، اور خطے میں امن کے لیے کوشاں ہے۔
صدر ایردوان کا پیغام ہے کہ ’’ہم جھک سکتے ہیں، مگر کبھی نہیں ٹوٹیں گے۔‘‘
15 جولائی 2016 کی رات ترکیہ کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ یہ صرف ترک عوام کی بہادری کی داستان نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے اتحاد اور قربانی کا پیغام ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کی دوستی اس واقعے سے مزید مضبوط ہوئی۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب عوام متحد ہوں، کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: