اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَٱضۡرِبۡ لَهُم مَّثَلَ ٱلۡحَیَوٰةِ ٱلدُّنۡیَا كَمَاۤءٍ أَنزَلۡنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ فَٱخۡتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلۡأَرۡضِ فَأَصۡبَحَ هَشِیمࣰا تَذۡرُوهُ ٱلرِّیَـٰحُۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیۡءࣲ مُّقۡتَدِرًا
’’اور انہیں دنیا کی زندگی کی مثال دیجے ، جیسے ہم نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر اس کی وجہ سے گھنے نباتات اُگ پڑے، پھر وہ سوکھ کر چورا چورا ہوگئیں، جنہیں ہوائیں اڑا لے جاتی ہیں۔ اور یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے‘‘
(سورۃ الکہف: 45)
یہاں ایک نہایت عمدہ اور لطیف نکتہ ہے ، جو امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بیان فرمایاہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
1 ﻷنّ الماء ﻻ يستقرّ في موضع،
كذلك الدُّنيا ﻻ تبقى على حالٍ واحدة .
2 وﻷنّ الماء يذهب وﻻ يبقى،
فكذلك الدنيا تفنى ولاتبقى.
3 وﻷنّ الماء ﻻ يَقدر أحدٌ أن يدخلَه وﻻ يبتلّ ، وكذلك الدُّنيا ﻻ يسلم أحدٌ من فتنتها وآفتها .
4 وﻷنّ الماء إذا كان بقدرٍ كان نافعًا مُنبتًا،
وإذا جاوز المقدار كان ضاراًّ مُهلكًا،
وكذلك الدُّنيا الكفافُ منها ينفع، وفضولُها يضرّ“.
(الجامع حكام القرآن للقرطبي ( 289/13)
اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی کو پانی سے اس لیے تشبیہ دی:
1 کیونکہ پانی کسی ایک جگہ ٹھہرتا نہیں، وہ بہتا رہتا ہے۔
اسی طرح دنیا بھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی، اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔
2 کیونکہ پانی آخرکار ختم ہو جاتا ہے اور باقی نہیں رہتا،
اسی طرح دنیا بھی فنا ہو جانے والی ہے، باقی رہنے والی نہیں۔
3 کیونکہ پانی میں داخل ہونے والا کوئی بھی شخص بغیر بھیگے نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح دنیا میں آنے والا کوئی بھی شخص اس کی آزمائشوں اور آفات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
4 کیونکہ پانی اگر ایک خاص مقدار میں ہو تو نفع بخش اور زرخیز ہوتا ہے، لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو نقصان دہ اور تباہ کن بن جاتا ہے۔
اسی طرح دنیا بھی: جتنی بقدرِ ضرورت ہو وہ فائدہ مند ہے، اور اس سے زیادہ ہونا نقصان دہ ہے۔
یہ دنیا عارضی اور فانی ہے۔ دنیاوی زندگی کے مختلف مراحل ہیں۔ ولادت ، بچپن ، تعلیم ، جوانی، روزگار، شادی ، اولاد یا بے اولادی ،ادھیڑپن ، بڑھاپا ، بالاخر موت۔
اللہ تعالیٰ ہی ان تمام مراحل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ اپنی موت اور اپنے انجام پر نظر رکھے۔ دنیا اس کو دھوکا نہ نہ دینے پائے۔
انسان اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔
طاغوت کی پیروی نہ کرے۔
{ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَقࣱّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَا وَلَا یَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلۡغَرُورُ }
(سورۃ فاطر:5)
ساری دنیا کے انسانو !
اللہ کا وعدہ بلاشبہ سچا ہے۔
لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکا نہ دیںنے پائے۔
اور وہ بڑا دھوکے باز ابلیس تمہیں دھوکا دینے نہ پائے۔
دنیا کی حقیقت کیا ہے؟
واضح رہے کہ قرآن کریم اور سنت نبویہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ دنیا کی حقیقت کو بیان کیا گیاہے ،علماء امت نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ،مختصرا چند احادیث نبویہ کامفہوم ذکرکیا جا تا ہے، دنیا کی زندگی ایک کھیل کود سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔
مسند ابی داود الطیالسی میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا :”دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا“
ترمذی میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر کے برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا”
سنن ابن ماجہ میں حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی “تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔
















