پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں ہمارا پرانا تجزیہ ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو عوام کے مسائل حل کرنے کے لئیے حکومت سے مطالبات کرتے رہتے ہیں، لیکن جوں ہی حکومت میں آتے ہیں ان کو یاتو مسائل نظر ہی نہیں آتے یا یہ دعوی کرنے لگتے ہیں کہ سارے مسائل حل کردئیے ہیں، اور ملک ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑ رہا ہے۔
اگرچہ یہ رویہ تو سارے ہی حکمرانوں کا ہے لیکن آجکل اتفاق سے وزیر اعظم بھی میاں شہباز شریف ہیں اور صدر بھی وہی ہیں یعنی آصف علی زرداری جن سے آج سے ٹھیک پندرہ سال قبل 2010 میں اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف یہ مطالبہ کررہے تھے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سزا انسانیت کے خلاف جرم ہے، حکومت منسوخی کے لئیے کردار ادا کرے، اور اب بھی یہ کہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کوسزا دلوانے میں اپنے اور پرائے دونوں شامل ہیں، حسب روایت وہ اور ان کے بھائی میاں نواز شریف اقتدار میں آکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھول گئے، یہی نہیں کہ عافیہ کی سزا کے بعد وہ ایک ہی مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں ،وہ تو صرف ساڑھے تین برس کی عمران خان حکومت کو الگ کرکے حکومت ہی میں ہیں اور پنجاب میں بھی ایساہی ہوا ہے کہ یہی پارٹی اقتدار کا تسلسل ہے ۔
آج جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی قید کو 22 برس مکمل ہوچکے ہیں اور سزا سنائے جانے کو بھی15 برس ہوچکے ہیں میاں شہباز شریف صاحب وزیر اعظم ہیں اور زرداری صاحب صدر اب انہیں مطالبہ کرنے کے بجائے عملی اقدام کرنا ہوگا ،اسے اتفاق کہیں یا وزیر اعظم کا ایک اور امتحان کہ عین اسی موقع پر وہ امریکا جارہے ہیں ، جب ڈاکٹر عافیہ کی سزاکو پندرہواں برس مکمل ہورہا ہے ،اور ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی ہونےوالی ہے، سماجی ذرائع ابلاغ پر تو وزیر اعظم کو یاددہانی کرائی جارہی ہے کہ اس ملاقات میں قوم کی بیٹی ، جسے آپ اور آپ کے بھائی اپنی بیٹی قرار دیتے رہے ہیں ،کو بھول نہ جائیں۔ لیکن ایسالگتا ہے کہ یہ محاورہ ایسے ہی لوگوں کے لئیے کہا گیا ہے ، کہ
” کلام نرم و نازک بے اثر”
اگر قوم کوئی نتیجہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو میاں شہباز شریف کو نہایت گرمجوشی کے ساتھ امریکا کے لئیے رخصت کرے اور واپسی میں وہ اچھی خبر لائیں تو ان کا اس سے بھی زیادہ زوردار استقبال کیا جائے ،اور اگر ایک بار پھر ٹرمپ کی بارگاہ میں صم بکم عمی کی عملی تفسیر بن کر آئے تو پوری گرمجوشی کے ساتھ انہیں ایوان اقتدار سے رخصت کردیا جائے۔
یہ محض علامتی باتیں نہیں بلکہ اب پڑوس کے ممالک میں جھوٹے وعدے اور جھوٹے دعوے کرنے والوں کا تختہ پلٹا جارہا ہے، انہیں گھروں اور اقتدار سے نکالا جارہا ہے۔ تو کیا عجب کہ پاکستان میں بھی ایسا کچھ ہو جائے ، کہیں صرف رجاکار (رضاکار ) کہنے پر طلبہ کی تحریک رخ بدل لیتی ہے اور کہیں سوشل میڈیا پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے ، عافیہ کا معاملہ تو بہت سنگین ہے ، اس بنیاد پر تو اب تک عوام کو گھروں سے نکل کھڑا ہونا چاہئیے۔ وزیر اعظم کی امریکا روانگی کے وقت ان کے ماضی کے بیانات کی نقل پر مشتمل بینرز ملک بھر میں لگادئیے جائیں ،ہر سڑک پر یہ نظر آنا چاہئیے کہ اور یاد دلانا چاہئیے کہ عافیہ کو سزا دلوانے میں اپنے اورپرائے دونوں شامل تھے۔
اور اب تو عافیہ کی رہائی میں رکاوٹ پرائےلوگوں سے زیادہ اپنے ہی بنے ہوئے ہیں ۔
کبھی عافیہ کو ڈالر کے عوض فروخت کرکے ،کبھی اسےامریکی شہری قرار دیکر، کبھی اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے عدالت میں دی گئی درخواست کی راہ میں روڑے اٹکاکر، کبھی، بہت کچھ کرلیا کہ کرکیس لپیٹنے کی درخواست کرکے ،اور کبھی عدالتوں میں بنچ تشکیل دینے اور توڑنے کا کھیل کرکے رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور یہ سارے تو “اپنے”ہی کہلائے جاتے ہیں،پھر یہ کیوں نہ کہا جائے کہ
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
ویسے اتنی بے ہودگی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاچکا ہے کہ “کمیں گاہ “کی جگہ “کمین گاہ” لکھنے کا دل چاہتا ہے ۔
بہر حال میاں شہباز شریف کے لئیے ایک اور امتحان کے ساتھ موقع بھی ہے وہ اس ایک کام کے ذریعہ اپنے بہت سے سیاسی عزائم کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں اور اپنے سر پر اقتدار کے خاتمے کی لٹکتی تلوار کو بھی ہٹاسکتے ہیں، اور اگر عافیہ کو نہ لاسکے تو اب سن کے سر پر دوسری تلوار لٹک رہی ہے،اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے ، عافیہ کو لائیں یا گھر جائیں۔
ویسے ہمارے حکمران اپنے پرانے بیانات اور اس کیس میں بار بار اپنے یوٹرن دیکھ لیں تو شاید شرمندگی کے مارے خود ہی گھر چلے جائیں ، لیکن یہاں خود ہی گھر جانے کی روایت ہی نہیں ہے ، ہمارے حلمران تو زبردستی مسلط کئیے جاتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر زبردستی اتارے بھی جاتے ہیں، اب فیصلہ ان ہی کو کرنا ہے کہ کون ساراستہ اختیار کرتے ہیں ، خود فیصلہ کرلیں ،قبل اس کے کہ عوام فیصلہ کریں ۔
عافیہ کو لاؤ یا گھر جاؤ
















