قدرتی آفات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔ پانی کا ایک ریلہ آتا ہے اور بستیاں، کھیت اور خواب سب بہا لے جاتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی اصل پہچان انہی مشکل گھڑیوں میں سامنے آتی ہے۔ پندرہ اگست کو خیبرپختونخوا میں کلاؤڈ برسٹ اور شدید بارشوں کے بعد جب بونیر، شانگلہ، سوات، دیر اور باجوڑ میں زندگی مفلوج ہو گئی تو اسی رات صدر الخدمت فاؤنڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ہنگامی اجلاس طلب کرکے پلاننگ کے بعد ریسکیو آپریشن کا آغاز کر دیا، ذمہ داران اور رضاکار فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچے، قریبی اضلاع سے رضاکاروں کو طلب کیا گیا، مساجد و اسکولوں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔ صدر الخدمت کا کہنا تھا کہ الخدمت مشکل کی ہر گھڑی میں متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ہم کسی بھی جانی، مالی نقصان کو روکنے کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے۔
یہ ہدایات محض الفاظ نہیں تھے بلکہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن، سید وقاص جعفری، محمد عبدالشکور سمیت دیگر ذمہ داران اور 70 ہزار سے زائد الخدمت کے بےلوث رضاکاروں کا ایک عملی عزم تھا جس کی جھلک اہل پاکستان سمیت عالمی ادارے بھی الخدمت کی امدادی سرگرمیوں کی صورت گزشتہ 30 دنوں سے خیبرپختونخوا، پنجاب، گلگت، آزادکشمیر، سندھ میں دیکھ رہے ہیں۔ اس مختصر عرصے میں بارشوں، سیلاب اور ہندوستان کی آبی جارحیت نے 42 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 4 ہزار 700 دیہات پانی میں ڈوب گئے اور 20 لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ ملک بھر میں 985 افراد جان کی بازی ہار گئے، ایک ہزار سے زیادہ زخمی اور 8 ہزار سے زائد مکانات جزوی اور مکمل تباہی کا شکار ہوئے۔ 6,500 سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے اور بے شمار خاندان اپنے گھروں اور وسائل سے محروم ہو گئے۔
ایسے میں الخدمت کا منظم اور مربوط ردعمل ہی امید کی سب سے بڑی کرن بنا۔ ملک بھر میں 41,885 رضاکار میدان میں اترے اور 1,895 ریسکیو آپریشنز میں 33,062 سے زیادہ افراد کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ 37,871 خاندانوں کو ایک ماہ کا راشن فراہم کیا، 6,100 دیگوں میں پکا ہوا کھانا تیار ہوا اور 3 لاکھ 64 ہزار سے زائد متاثرین کو تیار کھانا فراہم کیا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی کی تمام تنصیبات ناقابل استعمال ہوئیں تو ایک بڑا بحران پیدا ہوا لیکن الخدمت کی مینجمنٹ اور رضاکاروں نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا اور 3 لاکھ 22 ہزار پانی کی بوتلیں، 3,178 جیری کین اور واٹر ٹینک انسٹال کیے تاکہ متاثرین کو صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ 12 موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی مسلسل سیلابی علاقوں میں صاف پانی مہیا کر رہے ہیں۔
الخدمت کا شعبہ ہیلتھ بھی ان 30 دنوں کے دوران ڈاکٹر محمد زاہد لطیف اور ڈاکٹر عبد الرحمن کی نگرانی میں متاثرین سیلاب کی خدمت کے لیے دن رات متحرک رہا، 86 الخدمت ایمبولینس اور ریسپانس گاڑیوں کے ذریعے زخمیوں اور مریضوں کو میڈیکل کیمپوں اور ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ الخدمت موبائل ہیلتھ یونٹ ایک چلتا پھرتا منی ہسپتال ہے جس میں اوپی ڈی، الٹراساؤنڈ، لیب ٹیسٹ سمیت متعدد سہولیات ایک ائیرکنڈیشنڈ موبائل یونٹ میں موجود ہوتی ہیں جس کی کسی بھی مقام پر آسانی سے موومنٹ ممکن ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس عرصے کے دوران 14 الخدمت موبائل ہیلتھ یونٹس نے 37 ہزار مریضوں اور زخمیوں کا علاج کیا۔ متاثرہ علاقوں میں 620 میڈیکل کیمپ میں ایک لاکھ 17 ہزار متاثرین کو ہیلتھ کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ پریگنٹ خواتین کا سرجری سمیت تمام علاج متاثرہ علاقوں کے قریب موجود الخدمت ہسپتالوں میں فری کیا گیا۔
یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قیادت کے عزم کے ساتھ رضاکاروں کا جذبہ، اہل خیر کا مال اور اعتماد اور عوام کی دعائیں شامل ہو جائیں تو آفت کے بیچ بھی امید کا چراغ جل سکتا ہے۔ سیلاب ایک قدرتی آفت ضرور ہے مگر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنی توانائی کہاں صرف کریں۔ انفرادی کوششیں نیک نیتی کے باوجود محدود رہتی ہیں لیکن جب سب کچھ ایک منظم اور رجسٹرڈ ادارے کے ذریعے ہوتا ہے تو ہر روپیہ، ہر گھنٹہ اور ہر صلاحیت درست ہاتھوں تک پہنچتی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان برسوں سے ریسکیو، ریلیف اور بحالی کے میدان میں اپنی قابلیت منوا چکی ہے۔
تباہی اور الخدمت کی خدمات چند سطروں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ وقت صرف مالی امداد دینے یا لینے کا نہیں بلکہ اپنی صلاحیتیں، وقت اور مہارتیں بانٹنے کا ہے۔ شاید آپ کا ایک گھنٹہ کسی کی زندگی بچا لے، شاید آپ کی ایک مہارت کسی بستی کو دوبارہ کھڑا کرنے میں مدد دے اور شاید آپ کا ایک قدم کسی معصوم بچے کو بھوک اور خوف سے بچا لے۔ اتفاق میں برکت ہے اور یہی اتفاق آج ہم سب سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم الخدمت جیسے ادارے کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ مایوسی کی جگہ امید اور خوشبو کا پیغام ہر دل تک پہنچ سکے۔
الخدمت متاثرین سیلاب کے لیے ایک امید
















