جاپان کی سیاست میں گزشتہ انتخابات کے بعد اب ایک نیا موڑ آ چکا ہے جس کے ڈانڈے قوم پرستی سے ملتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں قوم پرست جماعت سینسیتو پارٹی کی غیر معمولی کامیابی نے ملک کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ یہ کامیابی جہاں جاپانی عوام کے بدلتے ہوئے رجحانات کی عکاسی کرتی ہے، وہیں ایک نہایت اہم سوال کو جنم دیتی ہے: جاپان میں موجود غیر ملکی ورک فورس کا مستقبل کیا ہوگا؟
آج جاپان کی تاریخ کا ایک اور المناک دن بھی یاد آتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس نے جاپان کو دکھ اور صبر کے سفر سے گزارا اور جس کی یاد آج بھی دلوں کو کچوکے لگاتی ہے۔ مگر جاپان نے ہمیشہ دکھوں سے اٹھ کر ترقی کی نئی راہیں بنائیں۔ اب وقت کا سوال ہے: کیا جاپان ایک بار پھر نئے چیلنجز کا سامنا کر کے روشن مستقبل کا راستہ تلاش کرے گا؟
اسی پس منظر میں جاپان کے وزیرِ انصاف کئیسُوکے سوزوکی کا حالیہ بیان نہایت معنی خیز ہے:
ان کے مطابق غیر ملکی جاپان کی آبادی کا تقریباً 3 فیصد ہیں، لیکن تاحال کوئی جامع اور منظم “سوشل انٹیگریشن” پالیسی موجود نہیں۔
جاپان آج ایک نازک مقام پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ثقافتی شناخت کا تحفظ ہے، اور دوسری طرف آبادی کے بحران اور ورک فورس کی کمی۔ نوجوان آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے، افرادی قوت سکڑ رہی ہے، اور معیشت کو نئی سانس دینے کے لیے غیر ملکیوں کی شمولیت ناگزیر بنتی جا رہی ہے۔
حکومت نے حالیہ برسوں میں بزنس منیجر ویزا کے لیے سخت شرائط عائد کی ہیں، سرمایہ بڑھا دیا ہے اور جاپانی زبان میں JLPT N3 کی لازمی شرط پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات کی منطق یہ ہے کہ غیر ملکی جاپان کی زبان اور ثقافت میں رچ بس سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاپان کے معاشی مسائل صرف غیر ملکیوں کی وجہ سے نہیں۔ معاشی جمود، زرعی چیلنجز (جیسے چاول کی کمی) اور بڑے تجارتی شراکت داروں مثلاً امریکہ کے ساتھ ناکام ٹیرف مذاکرات، یہ سب مسائل داخلی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
اگر درست حکمت عملی اپنائی جائے تو امیگریشن جاپان کے لیے خطرہ نہیں بلکہ موقع ثابت ہو سکتی ہے۔ جاپان کے پاس انفراسٹرکچر کی کمی نہیں — کارخانے، فیکٹریاں، خالی گھر اور سنسان قصبے سب موجود ہیں۔ کمی صرف انسانوں کی ہے۔
جاپان کو سنجیدگی کے ساتھ دو سمتوں میں کام کرنا ہوگا:
ہائی اسکلڈ ویزا کے لیے بلند معیار برقرار رکھنا
جاپان کو چاہیے کہ ہائی اسکلڈ پروفیشنل ویزا کے تحت صرف ایسے افراد کو بلائے جو واقعی معیشت اور تحقیق میں نمایاں کردار ادا کر سکیں۔ اس سے جدیدیت اور جدت پسندی کو تقویت ملے گی۔
بنیادی ورک فورس کے لیے منظم پروگرام بنانا
جاپان کی صنعت، ریٹیل اور سروس سیکٹر کو لاکھوں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو اگرچہ ہائی اسکلڈ نہ ہوں مگر محنت کش اور تربیت یافتہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے جاپان ایسے ممالک کے ساتھ ہیومن کیپیٹل معاہدے کر سکتا ہے جہاں لیبر کی فراہمی ممکن ہے۔
ہماری رائے میں اس پروگرام کے تحت:
جاپانی کمپنیاں حکومت کے ساتھ رجسٹر ہوں۔
پارٹنر ممالک (جیسے پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا وغیرہ) ورکرز کا ڈیٹا فراہم کریں۔
کمپنیاں ایک واضح فریم ورک کے تحت بیچز میں ورکرز ہائر کریں (مثلاً 50 کارکن ایک وقت میں)۔
رہائش، ویزا اور ٹریننگ کی ذمہ داری آجر پر ہو۔
غیر ملکیوں کو خالی پڑے دیہات یا قصبوں میں آباد کر کے ان علاقوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
زبان اور کلچرل ٹریننگ لازمی ہو، جسے پوائنٹ سسٹم کے ذریعے مانیٹر کیا جائے۔
یہ پالیسی جاپان کے لیے کئی پہلوؤں سے فائدہ مند ہوگی:
دیہی علاقوں کی بحالی ہے جو جاپان کے ترجیحی اقدامات میں شامل ہے ۔
ثقافتی انضمام کو باقاعدہ اور منظم شکل دینا، اس کے علاؤہ جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ذمہ داریوں کی منصفانہ تقسیم بھی ہے جس میں ورکر اور کمپنی دونوں شریک ہوں۔
امیگریشن پالیسی کو ثقافتی بقا اور معاشی ضرورت کے درمیان ہرگز حائل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دوراندیش اور شفاف اصلاحات لائی جائیں تو جاپان اپنی روایات بھی بچا سکتا ہے اور مستقبل کی خوشحالی بھی یقینی بنا سکتا ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہےکہ یہ مضمون کوئی پالیسی بلیو پرنٹ نہیں، لیکن ایک فکر انگیز تجویز ضرور ہے، کیونکہ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے سوالات ہی بڑے فیصلوں کی راہیں کھول دیتے ہیں۔
















