Advertisement

اعجاز علی رحمانی

محترم اعجاز رحمانی صاحب 12 فروری، 1940ء کو علیگڑھ میں پیدا ہوئے۔ انٹرنیٹ پرسال پیدائش 1936 دیا ہے جو درست نہیں ہے۔ والدین کی رحلت کے بعد 1954میں پاکستان ہجرت کی۔ انتقال 26 اکتوبر 2019 کو ہوا۔ استاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی۔ اپنے مجموعے ”جذبوں کی زبان“ کا انتساب ان کے نام کیا ہے۔
اعجاز صاحب نے کا طرز سخن منفرد ہے اس میں انہوں نے کسی کی تقلید نہیں کی،اعجاز رحمانی کا لہجہ انقلابی ہے لیکن ساتھ ہی روایتی غزل کے اسلوب میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔غزل کے علاوہ ان کی پسندیدہ صنف نعت ہے،نعت کے کئی مجموعے طبع ہوچکے ہیں،پہلا مجموعہ ”اعجازِ مصطفی“ ہے، دوسرا مجموعہ ”پہلی کرن آخری روشنی“،تیسرا ”چراٖغِ مدحت“،چوتھا ”آسمانِ رحمت“اور پانچواں ”آبشار رحمت“ہے۔
ان پانچوں مجموعوں کو کلیات کی شکل میں شائع کیا جاچکا ہے جو تقریباً بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔
گیارہ سال کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور پہلا مصرعہ تھا
رواں دواں ہے میری ناؤ بحر الفت میں
یہ مصرعہ ہنوز نامکمل ہے۔
ساٹھ سال مشاعروں میں شریک ہوتے رہے ۔ برِصغیر کے بڑے بڑے شاعروں کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا اتفاق ہوا،ان میں جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی شامل ہیں۔ہندوستان کے شاعروں میں جگن ناتھ آزاد، فنا کانپوری، مجروح سلطان پوری اور خمار بارہ بنکوی کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اعجازرحمانی کامزاج عام شاعروں سے بالکل مختلف تھا۔وہ ایک خاص مشروب سے بہت دور تھے۔سیدھے سادے مسلمان اور اسلامی اصولوں کے پابند۔ کتنے ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑے،وہ اپنی روایات چھوڑنے پرتیار نہیں تھے۔
ان سے تعلق اور دوستی 1970کے الیکشن کے دوران ہوئی۔ وہ بھی جماعت اسلامی کے حامی تھے۔ اس الیکشن کے نتائج جماعت کے لیے بڑے مہلک رہے لیکن ہمارا تعلق گہرا ہوتا گیا۔ ان دنوں شہرکراچی میں نعتیہ مشاعروں کابڑارواج تھا۔ سب سے بڑانعتیہ مشاعرہ ناظم آ باد میں اقبال صفی پوری کے گھرکے سامنے کے پارک میں منعقد ہوتاتھا۔ اس کاانتظام خوداقبال صفی پوری صاحب کرتے تھے۔اعجاز صاحب بھی نعتیہ مشاعروں کے ذریعے ادبی دنیاسے متعارف ہوتے رہے۔ پھر1977؁ء آگیا۔ سات جنوری کوجیالے وزیراعظم نے مارچ میں الیکشن کااعلان کردیا۔ اس الیکشن کے حزب اختلاف کے کراچی کے جلسوں میں اعجاز صاحب کی شرکت ایک لازمی عنصر تھا۔ وہ اپنی شاعری سے آگ اگل رہے تھے ع
جھوٹے ہیں سب دعوے ان کے طوفاں کارخ موڑیں گے۔۔۔ دل جوہماراتوڑرہے ہیں کیاوہ ستارے توڑیں گے
جام وسبولبریزہیں ان کے سرخ ہیں ان کے نیلے ہونٹ۔۔۔ اورہماری شہ رگ سے کتناخون نچوڑیں گے
کچھ عرصہ بعد ہمارارزق دبئی منتقل ہوگیا۔ جب بھی چھٹّی پرآناہوتاملاقات ہوتی۔اسی دوران اپریل1981؁ء آگیا۔ وسیم احمدصاحب اوران کے ساتھیوں نے پہلابین الاقوامی مشاعرہ منعقد کیا۔یہ دورہ ان کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔ابوظہبی کامشاعرہ انہوں نے لوٹ لیا۔
مہمان شاعروں میں سب سے پہلے انہیں دعوت سخن دی گئی۔اس قدر پسندکیاگیاکہ مشاعرے کے نصف کے بعد دوبارہ بلایاگیا۔ یہ عجیب اندازتھا،کسی مشاعرے میں شاعرکودوموقعوں پردعوت کلام پیش کرنے کی زحمت دینے کاہمارے سامنے اس سے پہلے اور نہ اس کے بعدکوئی موقع سامنے آیا۔
یہ بتاتے چلیں کہ شاعروں کی آمدپران کے قیام کے ہوٹل کامعلوم کرکے فون کیا توکہا”فوراً ہوٹل آجاؤ“۔اس وقت شاعروں کو اس وقت کےایکسلسیئر(Excellceor)ہوٹل ڈیرہ میں ٹھہرایاگیا۔ اس کانام اب شیریٹن ڈیرہ ہوگیاہے۔ وسیم صاحب نے شاعروں کو بہت احترام اور بے حدآسائشوں کے ساتھ خوش آمدیدکیاتھا۔ہرشاعر کے لیے الگ کمرہ،کھانے کاانتظام بھی ہوٹل کے ڈایننگ ہال میں کیا تھا۔ بعد کے مشاعروں میں شاعروں کے ساتھ بڑا غیرمناسب سلوک کیاگیا۔ایک کمرے میں دو دو شاعروں کو ٹھہرایا گیا۔ وسیم صاحب نے ہر شاعرکو 1500درہم اور گھڑی ساز کمپنی کی طرف سے ایک ایک اعلیٰ گھڑی پیش کی۔ ایک صاحب نے اپنے گھر پر ایک نشست منعقد کی، انہوں نے ہر شاعر کو 500درہم الگ سے دیے۔ہم اس وقت تک شادی کے مرحلے سے نہیں گزرے تھے،اس لیے دفترسے ہوٹل چلے جاتے اور رات بارہ بجے گھرکی راہ لیتے۔کوئی بازپرس کرنے والانہ تھا۔ بقول اعجاز صاحب ٍ
بے گھروں کوتکلف سے کیاواسطہ……..نیندآئی سِرِ رہ گزرسوگئے
سرِ رہ گزرتونہیں جیسابھی تھاایک ٹھکانہ تھا۔ اس دوران کئی دلچسپ واقعات پیش آئے،ایک شاعرکلیم عثمانی صاحب لاہورسے تشریف لائے
اس وقت ان کی عمر لگ بھگ پچاس سال تھی۔فلموں کے گانے بھی لکھتے تھے۔وہ بے چارے تمباکوکے پان کے عادی تھے۔ ادھردبئی میں پان پرپابندی لگی ہوئی تھی۔لیکن یہ پابندی ایسی ہی تھی کہ جیسے پاکستان میں مدت سے شراب پرہے پابندی ہے۔کسی شرا بی کواس کے حصول میں پریشان نہیں دیکھا۔ یہی حال دبئی میں پان کاتھا۔ پان کھانے والوں کوکچھ تلاش کے بعد ٹھکانہ مل جاتااورپھرمستقل بندوبست ہوجاتا۔ ہماراپان اور اس کے دیگراصناف جیسے پان مسالہ، گٹکاوغیرہ سے دور کا تعلق نہ تھا،اس لیے ہم نے بلاوجہ کلیم عثمانی صاحب سے کہہ دیاکہ دبئی میں پان پرپابندی ہے۔ اس پرتوایسے غصّے میں آئے کہ سنبھالنامشکل ہوگیا۔کہنے لگے کیاشراب پرپابندی نہیں ہے جوچندمہمان شاعروں کو مہیّاکی جارہی ہے۔ ہم لاجواب ہوگئے۔ اعجازصاحب نے کہا ”یارلادے بہت بے چین ہورہے ہیں،اپنی اسلامی فکرکے آّدمی ہیں“۔ہم نے اپنے پنواڑی دوست کوفون کرکے جگہ کاپوچھااور پان لاکر دے دیے۔ پان دیکھ کران کی بانچھیں کھل گئیں،بہت شکریہ اور دعاؤں کے ساتھ قبول کیا۔ کہنے لگے ہمارابہت سستااورآسان سا نشہ ہے،اس سے محرومی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کچھ دیربعد ان سے ملنے کچھ نوجون آئے۔ اس کے بعد ہم سے کہا”بھئی ہمارے یہ احباب شارجہ میں رہتے ہیں،ان کے لیے پان لاکردینا بہت مشکل ہوگا اس لیے یہ ذمہ داری آپ ہی کواٹھانا پڑے گی۔ہم نے کہا ضرور، اس وقت ایک درہم میں تین پان آتے تھے۔ دودرہم کاپان ان کاروز کاکوٹہ تھا۔ ہمیں کوئی دشواری نہ تھی بہت ارزاں تھا۔آخری دن بہت محبت سے گلے لگایا،بے حدشکریہ اداکیا۔ہم کہتے رہے اتنی معمولی بات کاذکر نہ کریں۔ شرمندگی ہورہی ہے۔ پھراپنالاہور کاپتابھی دیاکہ جب لاہورآئیں ضرور ملیے گا۔ اتفاق کی بات ہے کافی عرصے تک لاہور نہیں جاناہوا۔ پھرایک دن اخبار سے معلوم ہواکہ وہ دنیاسے جاچکے ہیں۔ ”حق مغفرت کرے عجب آزادمردتھا“۔
جولائی 1982؁ء میں یہ خاکسار شادی کے مرحلے سے گزرا۔پرانی دوستی کاخیال کرکے ایک سہراکہااوراسے فریم کراکر لائے تھے۔ سہرے کا ایک شعر غزل کالگتاتھاسہرے کانہیں ؎
آج سہرے میں رخِ محمودہے۔۔۔زندگی کی،ہرخوشی موجودہے
وہ اہم شعرتھا ؎ دوستوں کی بزم ہے آراستہ۔۔۔دشمنوں کاراستہ مسدودہے۔
غالباً1991؁ء کاذکرہے اعجازصاحب آئے۔ حسبِ معمول میں انہیں رات ڈیڑھ بجے ہوٹل پہنچاکرواپس گھرآگیا۔ صبح دفترمیں بیگم صاحبہ کافون آیاکہ اعجازصاحب بہت پریشان ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے بات کرلو“۔دراصل ہماراآفس جبل علی میں تھاجہاں ہوٹل سے فون نہیں کیاجاسکتاتھا۔ صرف دبئی کی حدودمیں بلاکسی رکاوٹ اور چارجزکے فون ہوسکتاتھا۔ ہم نے فون کرکے پوچھا”کیاپریشانی ہوگئی ہے،رات ڈیڑھ بجے سے اب تک“۔ بہت برہم تھے۔پہلے تودبئی کوچندمغلطات بکیں۔ان کانرم سے نرم جملہ تھاکہ یہ دبئی ہے یا رنڈی
خانہ۔ تفصیل پوچھی توفرمایا کہ رات جب کمرے میں آیاتودروازہ اندرسے بندنہیں کیا،اس لیے کہ ساتھ والابستر طارق سبزواری کاتھا
ان کاخیال تھاکہ وہ پتانہیں کب آئے،دروازہ بندکرنے کی صورت میں اس کے آنے پراپنی نیندخراب کرکے دروازہ کھولناپڑیگا۔سوتے وقت انہوں نے لائٹ جلی رہنے دی کہ طارق سبزواری آکر بتی جلائے گاتو نیندخراب ہوگی۔
ان کے مطابق رات ساڑھے تین بجے ایک خاتون دروازہ کھول کربے دھڑک داخل ہوکر بازو والے بسترپربراجمان ہوگئی۔
اسی اثنامیں اعجازصاحب آنکھ ملتے ہوئے اٹھے، حسینہ نے کہا:”آپ ہمیں بلاکرکہاں غائب ہوگئے،کب سے آپ کاانتظارکررہے ہیں“۔
یہ سن کران کے حواس خطا ہوگئے لیکن سنبھل کرکہا:”محترمہ میں نے کسی کونہیں بلایا،آپ باہرجاکراسے تلاش کیجئے جس نے بلایاہے،میں اس قماش کانہیں ہوں“ اس کے ساتھ انہوں نے ایک ترپ کاپتّہ پھینکا”دیکھئے اس وقت رات بہت ہوگئی ہے۔مجھے کچھ وقت آرام کرنے دیں تاکہ میں فجر کی نماز کے لیے اٹھ سکوں“۔ نمازتووہ ویسے بھی پڑھتے تھے لیکن اس وقت اس کاذکرخاص طورپراس لیے کیاکہ وہ بلائے جان سمجھ جائے کہ جوفجرکی نماز اداکرے گاوہ منہ کالاکرنا پسندنہیں کرے گا۔
ہم نے موقع غنیمت جان کرکہا”تم بھی بہت ناشکرے ہو،قدرت نے گھربیٹھے نعمت بھیجی ہے اور تم کفران نعمت کررہے ہو“۔اس پرتوانہوں نے اس خاکسارکوبے حد ” نوازا” اور کہا”کیاتم ایساہی کرتے ہو“۔ہماراجواب تھایہ نعمتیں ہوٹل میں عطاکی جاتی ہیں گھروں میں نہیں،میں تومنتظرہوں کہ کب ہمارے نصیب جاگیں اور بے طلب ہی ’من وسلویٰ‘دروازے پرآموجودہو“۔ مزید آگ لگانے کے لیے کہا ”شاعرلوگ بڑے چرب زبان ہوتے ہیں،تمہاری وضاحت سن کرچلی گئی،اگر اس میدان کے کھلاڑی ہوتے تواپنی زبان دانی کے زورپر مفت میں سیرکرلیتے یعنی وہ جوکہاوت ہے نا ’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھاآئے“۔ اس پرتوہمارے حق میں گالیوں کاایک طوفان کھڑاہوگیا۔ ہم نے اتناہی کہا”وہ کون سا تمہاری عصمت لوٹ لیتی۔اتناپریشان توحسینائیں بھی نہیں ہوتی ہیں“۔
اس وقت سے انہوں نے مشاعروں کی دعوت دینے والوں سے کہہ دیاکہ اب وہ ہوٹل میں نہیں ٹھہریں گے بلکہ اس خاکسار کے گھررہیں گے۔ مشکل سے ایک یادومرتبہ رہنے کااتفاق ہوا۔بہت تعاون کرنے والے فرمائشوں سے دور۔ذیابیطس (Diabetes)کے مریض تھے۔ ایک فرمائش تھی کہ فرج میں دوتین ڈائٹ پیپسی اورڈائٹ سیون اپ کے ڈبے رکھ دو،جب دل چاہے گا خود نکال کرنوش کرلوں گا۔
ان دنوں یہ نعمتیں بے حد ارزاں تھیں۔
اعجازصاحب بلاکے حاضر جواب تھے۔ اکثر چھیڑچھاڑ کرنیوالوں کومنہ توڑجواب دیتے تھے۔ ایسے کئی اتفاقات ہمارے ساتھ ہوئےایک مرتبہ فون پربات کرتے ہوئے ہم نے شاعروں کواس مخلوق سے مشابہ قراردیاجوسورج غروب ہونے کے بعد بن سنورکر اپنے ٹھکانے پرمحفل جمانے آتی ہیں۔ اس مخلوق سے بہت زیادہ مطابقت پیداکرنے کی کوشش کی۔ان کاجواب بشیربدر کے شعرکی صورت میں تھا؎
رات کاانتظارکون کرے…………..آج کل دن میں کیانہیں ہوتا
آج سے کچھ سال قبل ان کافون آیاکہ دوماہ بعد 22مارچ کوان کی بچی کی شادی ہے۔وقت اورمقام بھی بتایا۔ساتھ ہی کہاکہ اب دعوت نامہ دینے نہیں آسکتا۔ فون پرپوچھاکہ یہ بچی توآخری ہوگی جس ؎ کی شادی کا فرض نبھارہے ہو۔ ان کاجواب اثبات میں تھا۔پوچھاکہ کل سات اولادیں ہوں گی آپ کی۔ تنک کربولے کون کہتاہے دس بچے ہیں میرے۔
اعجازصاحب مشاعرے میں شرکت کے لیے کوئی مطالبات یاشرائط نہیں رکھتے تھے۔جوبھی پرخلوص دعوت آتی، اس میں شرکت کی حامی بھر لیتے۔یہ بھی نہیں پوچھتے کہ کتنامعاوضہ دیں گے۔کراچی میں نوٹ کیاکہ آرٹس کونسل کے مشاعرے میں شریک نہیں ہورہے تھے۔ دریافت کرنے پراس کی انتظامیہ پر تین حرف بھیج کر کہاکہ وہ اپنی شرائط پردعوت دیتے ہیں۔پوچھاکہ کیالفافہ نہیں دیتے ہیں۔ان کاکہناتھا”لفافہ نہ دیں کوئی بات نہیں،عزّت تودیں۔ ان کاطریقہ ہے کہ فون پراطلاع دے دیتے ہیں۔ٹرانسپورٹ کاکوئی انتظام نہیں کرتے،اپنے خرچے پرآؤ اورجاؤ۔ اب ان کے مشاعرے میں جاکرواپسی تقریباً دوبجے ہوتی ہے۔ آنے جانے کادوطرفہ کرایہ ڈھائی تین ہزارہوجاتاہے۔ شعرسنانے کااتنا شوق اب نہیں ہے۔بہت داد اور واہ واہ سمیٹ لی“اس کے ساتھ اس ادارے کی شان میں ایک قصیدہ بھی پڑھتے۔
دبئی میں ایک مشاعرے کی دعوت میرے ذریعے ایک شاعروڈرامہ نویس کودی توانہوں نے لفافے کاوزن دریافت کیا۔کہاکہ ایک ہزار درہم کا ہوگا۔انہوں نے انکارکردیاکہ وہ ڈھائی ہزاردرہم لیں گے۔ ایک اور شاعروکالم نگار کے متعلق قطرکی ادبی تنظیموں کے عہدیدار عدیل اکبرصاحب نے بتایاکہ وہ جب آتے ہیں،کہتے ہیں کہ وہ اپنی شیونگ کٹ بھول آئے ہیں۔انہیں چار مرتبہ یہ کٹ دلائی گئی۔ ہماراکہنا تھا کہ اب بھول کرآئیں توانہیں ایک Disposab;leریزر دلادینا۔ اعجازصاحب اس طرح کی بھونڈی فرمائش سے بہت بلندتھے۔
اعجازرحمانی کی پسندیدہ اصناف نعت اورغزل ہیں۔کلیات نعت1184صفحات پرمبنی ہے،1972؁ء سے 2010؁ء تک کی نعتیں شامل ہیں
یہ کلیات مئی 2010؁ء میں شائع ہوئی۔ چارکتابوں کویکجا کیاگیاہے۔ پہلی’اعجازمصطفیٰ‘، اس کے بعد’پہلی کرن آخری روشنی‘،تیسری کتاب ہے ’چراغ مدحت‘ اورچوتھی ہے ’آسمان رحمت‘
کلیات غزل جولائی 2013؁ء میں منظرعام پرآئی۔ 1168صفحات پرمشتمل ہے۔پانچ کتابوں کوشامل کیاہے۔اول ہے ’کاغذکے سفینے‘ دوسری ’غبارِانا‘ پھر’لہوکاآبشار‘ چوتھی کتاب ’جذبوں کی زبان‘ اورلباسِ غزل‘ اس کلیات میں شامل ہیں۔
ان کی شائع ہونے والی منظوم تاریخ اسلام ’سلامتی کاسفر‘ 849 صفحات پرمشتمل ہے۔
خلفاء راشدین کی سوانح حیات کتاب’عظمتوں کے مینار‘1056صفحات پربیان کی گئی ہیں۔سال اشاعت ہے 2014؁ء۔حضرت ابوبکر کالقب ’رفیقِ رسولؓ۔ حضرت عمر کودعائے رسولؓ۔ حضرت عثمان کے لیے حیائے رسولؓ اورحضرت علی کے لیے ’برادررسولؓ کے القاب استعمال کیے ہیں۔
ان کتابوں کے اجراکے بعد تقریباً چھ سال حیات رہے۔ ان چھ سالوں کی مشقِ سخن کی تفصیل نداردد۔ پتا نہیں کس کے پاس جمع ہیں اورکب منظرعام پرآئیں گی۔
اعجازصاحب اپنے اشعارمیں اپنے تخلّص کابہت خوبصورت استعمال کرتے تھے۔
ان کے نعتیہ مجموعہ کانام ہے ”اعجازمصطفیٰ“۔اس کی ابتداایک حمد سے ہوتی ہے۔مقطع یاآخری شعرہے ؎
ہے یہ اعجازتیری قدرت کا
ہرجگہ ہے کہیں نہیں موجود
اسی خوبی سے مرصع نعت کے چنداشعارہیں ؎
اسے کیانظرآئیں اعجازان کے
جوآنکھیں رکھتے ہوئے بے بصرہو
بے مثل ہے کردارشہنشاہ دوعالم
اعجازیہ کیاہے اگراعجازنہیں ہے
ہے یہ بھی صاحب اعجازآپ کااعجاز
ہم اپنے سرپہ کرم کاسحاب رکھتے ہیں
اعجازیہ ہے صاحب اعجازکااعجاز
طوفان جوبچ بچ کے سفینے سے چلے ہیں
اعجازان کے نام کااعجازدیکھیے
اللہ نے ہماری دعامستجاب کی
سرسے پاتک مصطفےٰ اعجازہی اعجازہیں
۔۔۔۔۔
بارہاکی کافروں نے آزمائش آپ کی
رفعت مصطفےٰ کایہ اعجازہے
زیرِپاجیسامقام آگیا
یہ اعجازہے خاک پائے نبی کا
میں کب جانب جام وجم دیکھتاہوں
جواعجازسارے رسولوں نے پائے
وہ اعجازسب ان میں پائے گئے ہیں
ہے یہ اعجاز،اعجازخلقِ بنی
زندگی خودبہارآفریں ہوگئی

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: