Advertisement

کراچی کا نوحہ

رنگین انقلاب یا Colour Revolution کی اصطلاح مصنوعی طریقے سے اقتدار کی تبدیلی کے عمل کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ ا س تھیٹر پلے کا ٹریلر 1986 میں فلپائن میں پیش کیا گیا جس کا colour code پیلا تھا تاہم اس سیریز کا باقاعدہ آغاز 2000 سے یوگوسلاویہ سے ہوا ۔پھر تو لگاتار تقریبا پوری ہی دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی ۔ عرب ممالک میں مصنوعی تبدیلی کے اس عمل کو بہار عرب کا نام دیا گیا ۔ اس موضوع پر میں نے فروری 2018 میں تفصیل سے چار آرٹیکلز کی سیریز لکھی تھی ۔ یہ کالم اب بھی میری ویب سائٹ پر موجود ہیں جو ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ ان کالموں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے بین الاقوامی سازش کار کسی بھی ملک میں مصنوعی طریقے سے عوامی تحریک پیدا کرتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے اپنی ناپسندیدہ حکومت کو تبدیل کر ڈالتے ہیں ۔ دیکھنے میں یہ سب انتہائی قدرتی لگتا ہے ۔
اسی تھیٹر پلے کے سیزن 2 کا آغازبنگلا دیش میں طلبا تحریک کے نام سے ہوا ۔ بعد ازاں نیپال میں اسے باقاعدہ Generation Z یا جین زی کے نام سے لانچ کیا گیا ۔ نیپال کے بعد یہ کھیل اس وقت کینیا ، انڈونیشیا ، مڈغاسکر، منگولیا ، مراکش ، پیرو ، فلپائن ، سری لنکا اور ترکی میں جاری ہے ۔
جین زی 1997 تا 2012 میں پیدا ہونے والے افراد کو کہتے ہیں ۔ اس طرح سے اس وقت جین زی سے تعلق رکھنے والے افراد کی عمر 13 سے 28 برس کے درمیان ہے۔ اس نسل کو عرف عام میں Zoomers یا digital native بھی کہا جاتا ہے ۔ اس نسل پر کووڈ کے لاک ڈاؤن کے گہرے اثرات ہیں جس کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا کے زیادہ قریب ہے ۔ 13 تا 28 برس کے افراد کسی بھی تحریک کو چلانے کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ ان کے اندر بلوغت کے ہارمونز اپنے عروج پر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ہوش کے بجائے جوش سے کام لیتے ہیں اور نتائج سے بے پروا ہو کر کسی بھی آگ میں کودنے کو ہر دم تیار ہوتے ہیں ۔
اس بات پر ذرا غور کریں کہ رنگین انقلابات کے کھیل کے پہلے سیزن کی طرح دوسرے سیزن میں بھی کوئی سکہ بند سیاسی قیادت اس تحریک کی قیادت نہیں کررہی ۔ تحریک کو چلانے ، نتیجہ خیز بنانے اور مطلوبہ سمتوں میں موڑنے میں صرف اور صرف سوشل میڈیا کا ہی کردار ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ قیادت کے بغیر کوئی تحریک نہیں چلتی مگر دیکھیں کہ یہ قیادت بالکل نئی ہوتی ہے اور پرانے لوگ ان کے پیچھے چلنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ بنگلا دیش اور نیپال سمیت سارے ہی ممالک کو دیکھ لیں کہ کون ان تحاریک کی قیادت کررہا ہے ۔
گزشتہ آرٹیکل رنگین انقلابات کی پہلی قسط میں ہی میں نے اس کھیل کے طریقہ کار کے بارے میں لکھا تھا ۔ اس سے ایک اقتباس ۔
“ان تمام تحریکات میں کھیل کے میدان کے علاوہ ہر چیز مشترک ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب، کھیل کے قواعد، کھلاڑیوں کا یونیفارم، نعرے، نام نہاد انقلاب کا اسکرپٹ، بین الاقوامی میڈیا کا کردار اور سب سے بڑھ کر فنڈنگ کا طریقہ کار۔ ان تمام تحریکات کے مشترک نکات جنہیں ڈھونڈنے کے لئے کسی خاص دقت کی ضرورت نہیں ہے وہ یہ ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ ان کا آغاز پرانی سیاسی پارٹیوں کے بجائے نئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتار کر کیا جاتا ہے۔ عموما ان کا تعلق طلبہ یونین یا لیبر یونین سے ہوتاہے۔ بعض اوقات پس منظر میں اور بعض اوقات پیش منظر میں مختلف این جی اوز انتہائی متحرک ہوتی ہیں۔ انہیں سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ تحریک کے رہنما پہلے دن سے ہی اس تحریک کے لیے کوئی رنگ یا پھول چن لیتے ہیں جس کو پوری تحریک کے دوران علامت کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے۔
اس تحریک کے آغاز سے قبل مقتدر شخص کے خلاف ذرائع ابلاغ میں ایک زبردست مہم چلائی جاتی ہے اور اس کے تمام کالے کرتوت حیرت انگیز طور پر روز ایک نئی انکشافاتی رپورٹ کی صورت میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں چھپے ہوتے ہیں۔ تحریک کے آغاز سے قبل ہی ملک میں مہنگائی، بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کا طوفان آجاتا ہے اور عوام اس مقتدر شخص سے ہر حال میں چھٹکارے کو تمام مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں۔تحریک کا آغاز ابتدائی طور پر پرامن مظاہروں سے شروع ہوتا ہے اور اختتام خوں ریزی پر۔ ان انقلابیوں پر عالمی ذرائع ابلاغ خصوصی طور پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ہر بلیٹن میں اس کے بارے میں خصوصی رپورٹس شامل ہوتی ہیں۔”
چونکہ یہ قیادت بالکل نئی ہوتی ہے اس لیے اس پر کرپشن کے کوئی الزامات نہیں ہوتے اور لوگ ان پر اعتماد کررہے ہوتے ہیں۔ ایک بات دوبارہ سے سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی ملک میں رنگین انقلاب کا مقصد کہیں سے کوئی انقلاب لانا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے حکومت کی تبدیلی ۔ چونکہ سرکاری سسٹم یا نظام جوں کا توں رہتا ہے اس لیے آئندہ چند برسو ں کے بعد ایک نئے رنگین انقلاب کے لیے دوبارہ سے زمین تیار ہوچکی ہوتی ہے ۔
اب آتے ہیں چند بنیادی سوالات کی طرف ۔ پہلا سوال آخر یہ رنگین انقلاب لانے وا لے ہیں کون ، دوسرا سوال کہ یہ رنگین انقلاب لا کر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ اور سب سے اہم ترین سوال کہ رنگین انقلاب کے لیے زمین کیسے ہموار اور تیار کی جاتی ہے کہ نوجوان نسل نتائج سے بے پروا ہو کر احتجاج کی مشین میں اپنا لہو شامل کردیتی ہے ۔
کراچی ایک کیس اسٹدی
یہاں تک تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی بھی طاقت کسی بھی ملک میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی تبدیلی چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ اس ملک میں عوام کے جذبات کو برانگیخت کرکے اسے حکومت کے خلاف کھڑا کردیتی ہے ۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ آخر عوام کیسے کسی کے ہاتھوں کھلونا بن جاتےہیں ۔ یہ اہم ترین سوال ہے جس کا جواب ہم بوجھ لیں تو بہت ساری باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں۔ پہلے گزشتہ آرٹیکل میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب بوجھتے ہیں ، اس کے بعد اس اہم ترین سوال پر بات کرتے ہیں ۔
میرے سوالات تھے کہ آخر یہ رنگین انقلاب لانے وا لے ہیں کون اور رنگین انقلاب لا کر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ کسی بھی ملک میں حکومت کی تبدیلی اس کے منشاء کاروں کے نزدیک ایک پروجیکٹ ہوتی ہے ۔ اور کسی بھی پروجیکٹ کے لیے فنڈنگ اہم ترین ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے زندگی کے لیے دوران خون کی اہمیت ۔ نوجوانوں کو منظم کرنے اور اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لئے این جی اوز کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے خاص طور سے کئی نجی فاوٴنڈیشنوں اور انسٹی ٹیوشنوں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں سرفہرست البرٹ آئنسٹائن انسٹیٹیوٹ ، نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی، انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹیٹیوٹ، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ، فریڈم ہاوٴس اور انٹرنیشنل سنٹر فارنان وائیولینٹ کانفلکٹ ہیں۔ ان تمام این جی اوز جو کہ دیکھنے میں علمی تحقیق کے لیے کام کررہی ہیں، کو کبھی امریکی حکومت ، کبھی یورپی حکومتوں اور کبھی مدر آف این جی اوز جیسے اوپن سوسائٹی سے بلاروک ٹوک فنڈنگ کروائی جاتی ہے ۔
امریکا میں فنڈنگ کی ذمہ داری امریکی حکومت کے مالی ونگ یوایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کے پاس ہے ۔یو ایس ایڈ کا کام صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ مالی معاونت فراہم کرے۔ یو ایس ایڈ امریکی خارجہ پالیسی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ اس ایجنسی کا امریکا کی سیکوریٹی، انٹیلی جنس اور دفاع ، ہر شعبہ میں اہم ترین کردار ہے۔تعمیر نو، اقتصادی ترقی، گورنیس، جمہوریت اور اسی طرح کے دیگر عنوانات کے تحت یو ایس ایڈ کروڑوں ڈالر ہر سال اس ملک میں منتقل کرتی ہے جو اس کا ہدف ہوتا ہے۔یہ ڈالراین جی اوز، طلبہ تنظیموں، لیبر یونینوں اور سیاسی تنظیموں میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور ان تمام جگہوں پر استعمال کیے جاتے ہیں جو ہدف کو ہٹانے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ عوامی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کے لیے میڈیا ہاؤسز کے علاوہ یوٹیوبرز ، بلاگرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز پر ڈالر بے دریغ اڑائے جاتے ہیں ۔ یہ فنڈز نوجوانوں کو منظم کرنے اور ان سیاسی گروہوں میں تقسیم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو ہدف کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں اہم ترین سوال پر کہ کسی بھی حکومت کے خلاف ماحول کس طرح سے تیار کیا جاتا ہے ۔ پہلے رنگین انقلاب سے لے کر آج تک جہاں جہاں بھی حکومت کے خلاف تحاریک چل رہی ہیں ، آپ ایک قدر مشترک نوٹ کریں گے ، وہ قدر مشترک ہے کرپشن ۔ دوسری اہم قدر مشترک آپ کو ملے گی کہ مجرموں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے اور ان سے نجات کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا ہے ۔
کیس اسٹڈی کے طور پر ہم کراچی کو لیتے ہیں ۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ۔ یہ سرکار کو ہر مد میں سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی اپنی رپورٹ کے مطابق کراچی کا ایک چھوٹا سے تجارتی علاقہ لیاقت آباد پورے لاہور سے زیادہ سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ دیگر مدآت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ کراچی سے حاصل ہونے والے ریونیو کو کم دکھانے کے لیے ڈرائی پورٹ کی جادوگری دکھائی گئی کہ کراچی بندرگاہ پر اترنے والے سامان کو دیگر شہروں سے کلیئر کیا جائے اور کسٹمز اور دیگر ڈیوٹیوں کو اس شہر کی آمدنی دکھائی جائے ۔ عملی طور پر پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس چوری ان ڈرائی پورٹس پر ہی ہورہی ہے ۔
اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ کراچی ملک کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر ہوتا مگر صورتحال اس کے یکسر برعکس ہے ۔ یہ ملک کا پسماندہ ترین علاقہ ہے ۔ آپ تعلیم ، صحت ، ٹرانسپورٹ ، امن و امان ، انفرا اسٹرکچر غرض کسی بھی شعبہ کو لے لیں ، اس سے بہتر آپ کو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے دیہات مل جائیں گے ۔ ٹوٹی سڑکوں نے ہر شخص کو ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں تکلیف میں مبتلا کردیا ہے ۔ ان ہی ٹوٹی سڑکوں کی بناء پر گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات لامتناہی بڑھ گئے ہیں ۔ سڑک پر اڑتی دھول مٹی نے کراچی کو دنیا کے دوسرے آلودہ ترین شہر کے منصب پر فائز کردیا ہے ۔ سیوریج کا کوئی نظام نہیں ہے ۔ گلیوں سے لے کر مین روڈوں تک جگہ جگہ سیوریج کا پانی بہتا نظر آتا ہے ۔ جب یہ پانی خشک ہوتا ہے تو اس کی اڑنے والی دھول سے کراچی کے شہری آنکھ، ناک، سانس اور سینے کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کبھی کراچی پورے سندھ اور بلوچستان تک کے لوگوں کو صحت کی سہولتیں مہیا کرتا تھا ، اب یہاں کا ہر اسپتال ناگفتہ حالت میں ہے ۔ یہی صورتحال یہاں کی یونیورسٹیوں سمیت سارے ہی تعلیمی اداروں کی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کو صوبے میں سب سے کم گرانٹ دی جاتی ہے ۔ کراچی کے تعلیمی بورڈزمیں شعوری طور پر نااہل اور کرپٹ سربراہ اور ناظم امتحانات مقرر کرکے ان کی ساکھ تباہ کردی گئی ہے ۔
سہولت مہیا کرنے کے بجائے ، اس پر مزید صورتحال یہ کہ صوبائی حکومت کراچی کو مزید شکنجے میں کستی جارہی ہے ۔ بلدیہ کی صورتحال یہ ہے کہ دس لاکھ روپے تک کے سارے پروجیکٹ صرف کاغذوں پر ہی مکمل ہوتےہیں ۔ باقی پروجیکٹ میں پچاس فیصد سے زاید رشوت میں چلا جاتا ہے ۔ سندھ سیکریٹریٹ میں ہر منصوبے کی منظوری کے لے 13 فیصد کا ریٹ مقرر ہے جو اب بڑھا کر 20 فیصد تک کردیا گیا ہے۔ اے جی سندھ ہو یا بلدیہ کا محکمہ فنانس ، پنش و پراویڈنٹ کی منظوری کے لیے 30 فیصد دیے بغیر کام نہیں ہوتا ۔ پورا کراچی سسٹم کے حوالے ہے ۔ یہ سسٹم اتنا مضبوط ہے اور صوبے کی مقتدر ترین شخصیت تک بھتہ پہنچاتا ہے کہ کوئی بھی اسے توڑ نہیں سکتا ۔
کراچی کے لیے تولنے کے پیمانے الگ ہیں اور کراچی کے علاوہ بقیہ صوبے کے لیے الگ ۔ کراچی میں جگہ جگہ آپ کو پولیس ناکہ لگائے نظر آئے گی ۔ یہ ناکے مجرموں کو پکڑنے کے لیے نہیں ہے بلکہ شہریوں سے بھتوں کی وصولی کے لیے لگائے جاتے ہیں ۔ صرف کراچی کے لیے ٹریفک کے جرمانے اتنے بڑھادیے گئے ہیں کہ الامان اور عدم ادائیگی پر گرفتاریوں سے لے کر گاڑی کی ضبطگی تک کے فرمان جاری کردیے گئے ہیں۔
اب آپ سوچیں کہ ایک عام آدمی جب موٹر سائیکل پر سڑک پر نکلے اور اسے روز کم از کم پانچ سو روپے کا پولیس کو بھتہ دینا ہے ، بیماری یا حادثہ کی صورت میں صحت کی سہولت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اتنے بڑے شہر میں ایمبولینس کی کوئی سہولت نہیں ہے ، تعلیم کی کوئی سہولت نہیں ہے ، بجلی نہیں ہے ، گیس نہیں ہے مگر ان کے بل اتنے ہوتے ہیں کہ کئی ماہ کی تنخواہ بھی کم پڑ جائے ۔
عوام کو تنگ کرنے کے لیے روز ایک نیا طریقہ کار ایجاد ہوتا ہے ۔ اس میں ایک نیا طریقہ ٹاؤن کے افسران اور اہلکار بھی ہیں ۔ یہ اپنا بنیادی کام ایک بھی نہیں کرتے ۔ گلیوں میں روشنی ، صحت ، صفائی ، آوارہ کتے ، سیوریج سب تباہ حال ہیں مگر ان کے کارندے بھوکے کتوں کی طرح ہر شہری سے بھتہ وصولی کے لیے دن و رات کام کررہے ہیں ۔
اس کے برخلاف دیگر شہروں میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہیلمٹ تو دور کی بات ہے موٹر سائیکل پر نمبر پلیٹ ہی نہیں ہے اور یہ کراچی سے چھینی گےیا چوری شدہ موٹر سائیکل یا کار ہے ۔ اسی طرح کراچی میں جو نئے نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں، ان کا وہاں پر کوئی ذکر بھی نہیں ہے ۔ اس سے کراچی کے لوگوں کا فرسٹریشن اور بڑھ جاتا ہے ۔
یہ کراچی کی مختصر داستان ہے ۔ ایسے میں ہر شہری پریشان ہے اور کسی بھی حل کی تلاش میں ہے ۔ سب سے پہلے تو وہ ان کے حل کے لیے مقتدر افراد کی طرف دیکھے گا ۔ جب اسے پتا چلتا ہے کہ مقتدر افراد ہی تو یہ سب کروارہے ہیں تو پھر وہ دوسرے حل کی طرف دیکھتا ہے ۔ ایک وزیر بلدیات احمقانہ بیان دیتا ہے کہ کراچی کے لوگ خود ہی اپنی سڑکیں اور سیوریج کی لائنیں توڑتے ہیں تو میئر کراچی اس سے زیادہ گھامڑ پنے کا مظاہرہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کراچی کے لوگ ناشکرے ہیں ۔ ان کے گاڈ فادر روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا کے عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ ایسے میں دوسرا حل ہےکمپنی بہادر ۔ مگر پتا چلتا ہے کہ صوبے میں کرپٹ افراد کو اقتدار میں لانے کا سہرا تو کمپنی بہادر کو ہی جاتا ہے اور اب کمپنی بہادر کے لوگ انفرادی طور پر سسٹم کا حصہ بن چکے ہیں ۔ یہ دیکھ کر لوگ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
ایسے میں اگر پراسرار طور پر سوشل میڈیا پر تبدیلی کی مہم شروع ہوجاتی ہے اور روشنی کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو پھر پورا کراچی باہر ہوگا اور آگ میں جل رہا ہوگا ۔ بندرگاہ بند ہوچکی ہوگی اور ملک کی معیشت مفلوج ۔ ایک بات اور سمجھیں کہ ساٹھ کی دہائی اور آج کے کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اب یہ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والوں کا شہر نہیں رہا ۔ وہ تو اب چند فیصد رہ گئے ہیں ۔ یہاں پر پشاور سے زیادہ پختون ، کوئٹہ سے زیادہ بلوچ، جنوبی پنجاب سے زیادہ سرائیکی ، ہزارہ سے زیادہ ہندکو بولنے والے اور سندھ کے کسی بھی شہر سے زیادہ سندھی بولنے والے بستے ہیں ۔ یہ سب کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں اور اب یہ کہیں اور کے نہیں کراچی کے باشندے ہیں ۔ ان کے بچے یہیں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں تعلیم حاصل کی ہے، یہیں جوان ہوئے ہیں ۔ یہ اب اپنے آبائی علاقوں میں اجنبی ہیں ۔ اس لیے اب کراچی کسی ایک زبان بولنے والوں کا شہر نہیں رہا ہے بلکہ یہ ایک کاسموپولیٹن شہر ہے ۔
اب سمجھ میں تو آگیا کہ زمین کیسے ہموار ہوتی ہے ۔ تو پھر سوال تو بنتا ہے کہ پاکستان میں رنگین انقلاب کیوں نہیں ۔ یہ انقلاب اس وقت آتا ہے جب مقتدر حلقے آقاؤں کو آنکھ دکھانا شروع کرتے ہیں ۔ اس وقت تو یہ مقتدر حلقے آقاؤں کی آنکھ کا تارا ہیں ۔ جس لمحے یہ ایکسپائر ہوئے اور کام کے نہیں رہے ، اسی لمحے ان کی کرپشن ، نااہلی کے خلاف مہم شروع ہوجائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہوجائے گا ۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: