Advertisement

قصہ ایک ’’صلوٰۃ بریشن‘‘ اور ’’رسمِ بسم اللہ‘‘ کا

ہم ہاتھوں میں کھیر کا پیالہ تھامے اپنے ’’سُنئے‘‘کے ہمراہ اپنے دیور کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ ارے آپ تو چونک ہی گئے۔ اب اسے ہماری کاہلی کہئے یا قدامت پسندی، کہ شادی کے بیس سالوں کے بعد بھی ہم اپنے مجازی خدا کا نام لینے سے کتراتے ہیں اور ’’سُنئے‘‘ کہنےپرہی اکتفا کرتے ہیں۔ خیر، ابھی گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اندرسےایک چہکتی ہوئی آواز سنائی دی۔” تائی امی! تایا ابو!“ اور کھٹاک سے دروازہ کھل گیا۔اس کے ساتھ ہی پیاری سی حرااور ننھے وقاص ہم سے لپٹ گئے۔ اس دن حرا(جو عنقریب ہی سات برس کی ہوئیں تھیں)کی صلوٰۃ بریشن تھی۔ یعنی نمازکی باقاعدہ ابتدا کی تقریب۔ دوسری طرف وقاص چاربرس کے ہو چکے تھے، لہٰذا ان کی رسمِ بسم اللہ بھی تھی۔ چٹا پٹی کےغراے کے ساتھ زرق برق دوپٹہ اوڑھے حرا چھوٹی سی دلہن معلوم ہو رہی تھی۔ دوسری طرف سفید کمخواب کی شیروانی اور ٹوپی پہن کروقاص بالکل لکھنٔو کے نواب لگ رہے تھے۔ دونوں ہی بچے ہمیں تقریباً کھینچتے ہوئے اندر لے گئے۔ آخرانہیں ساری تیاریاں بھی تو دکھانی تھیں۔
وہاں تو واقعی ایک جشن کا سماں تھا۔ گھر کی دیواروں پر رنگ برنگی جھنڈیاں اور غبارے لگے ہوئے تھے۔ابھی ہم سجاوٹ دیکھنے میں محو تھے کہ بچے ہماری انگلی پکڑے ہوئے ایک طرف لے گئے۔ وہاں کافی سارے کاغذی تھیلے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔” یہ کیا ہے؟“ہم نے خوشگوارحیرت سے پوچھا۔”اس میں ہمارے دوستوں کے لیے تحفے ہیں۔“ حراجھٹ بولیں۔ ”اورتائی امی میں نے بھی موتیوں سے تسبیح بنائی ہیں، اتنی ساری“، وقاص نے بھی آنکھیں مٹکا مٹکا کر اپنا کارنامہ بتایا۔ ہم نے مارے تجسّس کے ایک تھیلے میں جھانکا۔اس میں ایک چھوٹی سی جائے نمازاورتسبیح، گھر میں بنے ہوئے چاکلیٹ بسکٹ، بچوں کی ہی بنائی ہوئی مساجد کی تصاویر اور رنگ بھرنے کے لیے کچھ کریونزرکھےہوئےتھے۔ دل میں ایک معصومانہ خواہش نے انگڑائی لی کہ کاش ہم بھی بچے ہوتے توایک تھیلا ہمارے نام کا بھی ہوتا۔ مگراب تو چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔
بہرحال ہم نے دل ہی دل میں اپنی دیورانی صاحبہ کے سلیقے کوخراجِِ تحسین پیش کیا ۔ دراصل ان کا تعلق خواتین کے اس قبیلے سےہے جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نوکری کے بجائے اپنے گھر اور خاندان کو پوری توجہ اور محبت دیتی ہیں ۔ نہ ہی سر پر پیسے کمانے کی دھن سوار نہ ہی گھر کے حضرات پر اپنی برتری ثابت کرنے کا جنون۔ دنیا بھر میں آزادئ نسواں(فیمینزم) کا پرچار ہو رہا ہے،مردوں کو ظالم اور جابر ثابت کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ خدا جانے کس مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ اتنے اطمینان سے مردوں کو قوّام مان لیا کہ یہی اللہ کی مشیت ہے۔ شوق ہے تو بس مستقبل کے لیے بہترین نسل تیار کرنے کا اور اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانے کا۔
تو جناب ذکر ہو رہا تھا تقریب کا جہاں ننھیال ، ددھیال، اسکول کے دوست ، آس پڑوس کے بچے سب ہی جمع ہو چکے تھے۔ صحن میں تخت پر رلّی بچھی ہوئی تھی۔ایک طرف نانی جان اور دوسری طرف دادی امی، درمیان میں حرااوروقاص بیٹھے تھے۔ پہلے نانی جان نے وقاص میاں کو عربی قاعدہ پڑھایا اور دعا کروائی۔ اس کے بعد چھوٹے نواب نے بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اتنی معصومیت سے دعا مانگی جس سے تمام حاضرین بے حد محظوظ ہوئے۔ آپ بھی سنئے:
چھوٹے نواب :اللہ پاک آپ کا تھینک یو آپ نے مجھے گْڈ بوائے بنایا،
(فلسطینی بھائیوں کے لئے) اللہ پاک جو بچے گھر کے باہر ہیں وہ گھر کے اندر آجائیں
حاضرین : آمین
وقاص :اللہ پاک ہمیں نمازوالا بچہ (نمازی) بنا دیں۔
حاضرین : آمین
وقاص :اللہ پاک جن بچوں نے کھانا نہیں کھایا انہیں بہت ساری بریانی دے دیں(غرباءکے لئے)
حاضرین : آمین
وقاص :اللہ پاک میرے بابا کو سپائڈرمین والی( سرخ) اور سُپرمین والی( نیلی) گاڑی دے دیں۔
حاضرین : آمین (کچھ نے اپنے گلے صاف کئے)
وقاص :اللہ پاک اگر آپ میری بات نہیں سنیں گے تو میں بھی آپ کی بات نہیں سنوں گا۔
حاضرین : ہائیں! کھی ۔۔۔ کھی ۔۔۔ کھی!
چھوٹے نواب نے وہی حربہ استعمال کیا جو ان کے والدِ محترم اپنی بات منوانے کے لئے کرتےآئے تھے۔ اِس پر دادی امی نے دھیرے سے پوتے کا ہاتھ دبا کر اس کی سرزنش کی ، مگر وہ بچہ ہی کیا جو من کا سچا نہ ہو۔ پھر تمام بچوں نے باری باری اسماء الحسنٰی اور احادیث سنائیں اور آخرمیں وعدے کے مطابق ہم نے بھی اپنی لکھی ہوئی ایک نظم سب کے گوشگزار کی جو کہ کچھ یوں ہے:
چھتّے میں لگایا اک کارخانہ چھوٹی سی مکھی، بڑا کارنامہ
درخت پہ چھتا جو ہے لگا سنہری شہد سے لبا لب بھرا
کیسا شیریں ذائقہ اس کا شربت یہ گلوں کے رس کا
بیماری میں کھاوُ تو شفا ہے کمزوری بھگانے کی یہ دوا ہے
نبیؐ کو تھا بہت مرغوب جنت کا ہے یہ مشروب
تو اس سنت کو ہے اپنانا جو رکھنا ہے خود کو توانا
چاہے چمچ بھر کے کھاو چاہے پراٹھے پر اسے لگاؤ
دیکھو! بھول نہ جانا بچو ! شہد کھانا
نظم سن کر بچوں نے خوب تالیاں بجائیں اور کچھ لمحوں کے لیے ہم اس خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے کہ ہم ’’کراچی لٹریچر فیسٹول‘‘ میں اُردو کے نامی گرامی شعراء کے سامنے اپنا کلام پیش کرنے کے بعد داد وصول کر رہے ہیں۔
کہانی ابھی یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے بعد ماہ نور آپی (بچوں کی خالہ زاد بہن) کی سربراہی میں بچوں نے دو رکعت شکرانے کے نفل ادا کئے۔ پھر باری تھی بچوں کے کھیلوں کی جس میں ہم جیسے بڑے (بلکہ بہت بڑے) بچوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ مگر آخر میں گڑبڑ یہ ہوئی کہ میوزیکل چیئرز میں وقاص میاں نے اپنی ہار کا اس قدر بُرا منایا کہ ایک مرتبہ پھر میوزیکل چیئرزکھیلا گیااوراس مرتبہ کسی نے بھی چھوٹے نواب کی شاہی کرسی کی طرف میلی نظر نہ ڈالی۔ نتیجتاً پاکستان کے الیکشن کی طرح چھوٹے نواب بھی بلامقابلہ کھیل کے فاتح قرار پائے۔ جیت کی خوشی نے ان کے چہرے پرویسی ہی بشاشیت بکھیر دی تھی جیسی دھاندلی سے جیتنے والے سیاستدانوں کے رخِِِِِِ انورپر نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد دونوں بہن بھائیوں نے مل کر کیک کاٹا جو آنی( بچوں کی خالہ) بڑے پیار سے بنا کر لائی تھیں۔
اب وقت ہوچلا تھاعشائیہ کا تو جناب کھانے کی میز سے طرح طرح کے لذیذ کھانوں کی مہک ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی. نہاری بچوں کے بڑے ماموں کے گھر سے اور پسندے چھوٹے ماموں کے گھر سے، کٹلیٹس چاچا کے گھر سے تو نوڈلز پھپو بنا کر لائی تھیں، جبکہ بریانی دیور کے اپنے گھر پر ہی تیّار ہوئ تھی. غرض کہ سبھی کے ہاتھوں کا جادو وہاں ایک ایک ہانڈی کی صورت میں موجود تھا. اس طرح سے میزبان کے کام اور خرچے کو بڑے ہی غیرمحسوس طریقے سے بانٹ لیا گیا تھا.میٹھے میں ہماری لائی ہوئی کھیراورکیک پیش کیا گیا۔
اب تقریب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی ۔ تمام بچوں میں تحفتی تھیلے تقسیم کیے گئے اور یہ اعلان بھی کیا گیا کہ آئندہ تقریب موسمِ سرما کی تعطیلات میں ہوگی جس میں ہر بچہ کسی نہ کسی کھانے کا اسٹال لگائےگا اورساتھ میں سورہ رحمن بھی زبانی سنائے گا۔
ہم ایک مرتبہ پھر دیورانی صاحبہ کی ہوشیاری کے قائل ہو گئے کہ کس خوبصورتی سے تمام بچوں کو قرآن سے جوڑنے اور اپنی ماؤں کے ساتھ مل کر اسٹال کی تیّاری میں لگا دیا۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار!
اس دن کے بعد سے پورے خاندان میں ایک طرح کی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ بچے سورہ الرحمن حفظ کرنے میں اور ان کی مائیں اسی سوچ بچار میں لگی ہوئی ہیں کہ سٹال پر کیا بنا کر رکھا جائے گا، اسٹال کو کیسے بنایا اور سجایا جائے گا۔ جب کہ ہم چَین کی بانسری بجا رہے ہیں کیونکہ ہم نےعوام کی خوشی کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس میلے میں ہم دکاندار کی نہیں بلکہ خریدار کی حیثیت سے شریک ہوں گے. خوب خریداری کریں گے اور معصوم بچوں کی بِکری کروا کر ان کی دعائیں سمیٹیں گے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: