Advertisement

پاک فضائیہ کی بھارت پر برتری

ائیر کموڈور (ر) محمد امین اور ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور کے سیمینار میں گفتگو

پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کی جنگ محدود رہی اور تین چار روز میں جنگ شروع ہوئی اور ختم بھی ہو گئی، اس جنگ میں پاکستان کی فضائی افواج نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں جشن منایا گیاجبکہ بھارت میں ماتم کیا گیا پاکستان میں افواج کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور بھارت میں مودی سرکار پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے پاکستان کو شکست نہیں دی ، اس کی بڑی وجہ ہماری فضائی افواج کی برتری ہے اوریہ کوئی نئی بات نہیں ہے پاکستان نے ہمیشہ سےیعنی ائیر مارشل اصغر خان کے زمانے سے سن ۱۹۴۸ سے یہ برتری قائم رکھی ہوئی ہے جب پاکستان ایئرفورس قائم ہوئی، اور 13 اپریل 1948 کو قائد اعظم محمد علی جنا ح نے اپنی بہن کے ساتھ رسالپور پور اکیڈمی تشریف لائے اور انہوں نے پاک فضائیہ کی پہلی پاسنگ اؤٹ پریڈکی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ایک ایسا ملک جس کی فضائیہ مضبوط نہ ہو، وہ کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی فضائیہ کو جلد از جلد مضبوط اور مؤثر بنائے — ایک ایسی طاقتور فضائیہ جو کسی سے کم نہ ہو” 1965 کی جنگ میں آپ نے دیکھا کہ ایم ایم عالم نے ایک کمزور جہاز کے ذریعے پانچ جہازوں کو گرایا اس کے بعد پھر 71 کی جنگ میں اور 2019 میں ابھی نندن کے جہاز کو گرایا گیا اور اب چھ بھارتی جہازوں کو گرایا گیا ہے ان تین روز یاتین راتوں کے دوران یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس نے پوری جنگ کا نقشہ تبدیل کیا یعنی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے آپ دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرتا ہے جس طرح اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں عرب ممالک کے ساتھ کیا انھوں نے اس کی فضایہ کو مفلوج کیا ان کے تمام ہوائی اڈوں پر بمباری کر کے ختم کیا اس کے بعد اس کی بری فوج نے پیش قدمی کی ۔یہی اس جنگ میں بھی ہونا تھا کہ بھارتی فورس تعداد میں بہت زیادہ ہے ۔ ان کے پاس جہاز بہتر اور زیادہ ہیں اور پائلٹ زیادہ ہیں لیکن انہوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ پہلی رات ان کے پانچ جہاز گرائے گئے اور ایک بڑا ڈرون گرایا گیا ۔ان جہازوں میں وہ جہاز شامل تھے جو فرانس کے بنائے گئے رافیل ہیں ۔ دنیا میں بہترین جہازوں کی فہرست میں یہ آٹھویں نمبر پر ہے لیکن پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ جہازوں میں یہ اول نمبر پر ہے۔ پاکستان کے پاس اس کے مقابلے کا جہاز ہے جے ٹین سی کہلاتا ہے چین کا جہاز ہے وہ اس سے اعلیٰ نہیں ہے بلکہ اس سےکمتر ہے یہ جو کام ہوا ہے اس لئے بہت بڑا دھچکا پہنچاہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی فضائی برتری کو تسلیم کیا گیا ہے۔یہ جوبرتری ہے اس میں پائلٹ کی مہارت پر بعد میں بات کریں گے لیکن جو اصل قوت ہے جو اس جہاز ہم نے استعمال کیا یہ چین کی جہازJ-10 C ٹین سی ہے یہ 4.5 جنریشن کہلاتا ہے اس کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں یہ جو کمال دکھایا ہے وہ دو چیزوں نے دکھایا ایک جو PL-15 میزائل اس میں نصب کیے گئے ہیں ایسے میزائل ہیں جو 200 کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں جبکہ رافیل جہا ز میں جو میزائل ہیں وہ 100 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ دوسرا جو پاکستان کا ائیر ڈیفنس سسٹم ہے اس نے بھی اس میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔اس نے مخالف جہازوں کو جام کیا اور وہ کارکردگی نہیں دکھانے دی جو رافیل جہاز دکھا سکتے تھے اور تیسری بات پائلٹ کی کا میابی ہے یہ سب مل کر اور اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ پاکستان کو بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔
آج ہمارے ساتھ مہمان جو بڑے افسر ہیں پاک فضائیہ کے ہم نے ان سے سوالات کیے ہیں ان کے جوابات تحریر کر رہے ہیں ۔
سوال : پاکستانی ایئر فورس کو بھارتی فضائیہ پر جو برتری حاصل ہوئی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی پائلٹس جو ہیں وہ بھارت کے پائلٹس سےبہتر ہے کیا واقعی ایسا ہے پاکستانی پائلٹ بھارتی پائلٹس سے بہتر ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ کیوں؟
جواب : میرے خیال میں جو ٹریننگ ہے وہ اس لحاظ سے ہماری بہت اچھی ہے کہ ہماری ائیر فورس بہت چھوٹی ہے بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور بہت بڑی فضائی قوت ہے ہمارے پائلٹ جو ٹریننگ کرتے ہیں وہ اپنی منصوبہ بندی اور تربیت سے سے یہ کمی پوراکرتے ہیں ۔ بھارتی فضائیہ بھی ٹریننگ کرتے ہیں اور ان کا بجٹ آپ نے دیکھا کتنا زیادہ ہے ہمارا بجٹ کتنا کم ہےآپ موازنہ کر لیں ان کے پاس ٹیکنالوجی زیادہ ہے ان کی جہاز وں کی تعداد زیادہ ہے ہمارے جو پائلٹس ہیں ان کے ذہن میں یہ چیز ہے کہ ہم نے اگر ٹریننگ اور مہارت حاصل کی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پھر جنگ لڑنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے وہ صبح شام لگے رہتے ہیں زیادہ ٹریننگ کرتے ہیں زیادہ فلائنگ کرتے ہیں ۔ زمانہ امن میں وہ مسلسل تیاری کر تے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے ابتدا ء سے جو بات کہی ہے کہ 13 اپریل 1948 کو قائد اعظم محمد علی جنا ح نے رسالپور میں جو کہا تھا، ان کے الفاظ تھے ۔
A country without a strong Air Force is at the mercy of any aggressor Pakistan must build up its own Air Force as quickly as possible must be an efficient air force second to none
سوال :یہ بات تو بھارت کے لوگوں کے دل میں بھی ہو گی کیونکہ تاریخی طور پر 65 کی جنگ میں بھی ہماری فضائیہ کی کارگردگی اچھی رہی 71 میں جو کچھ بھی ہوا تھا وہ الگ بات ہے تو 2019 میں بھی ابھی نندن کا جہاز گرایا تو پاکستان کی اس وقت بھی اچھی کار کردگی بیان کی گئی تو بھارت نے اس کا کوئی توڑ نہیں کیا ؟
جواب : بھارت نے اس کا توڑ کیا اس کی ائیر فورس بڑی ہے اس کی ٹیکنالوجی ہم سے بہتر ہے ، ہمارے جہازوں اور پائیلیٹس اور کی تعد اد کم ہے ہمارے ملک کے اقتصادی حالات کا سب کو پتہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی ٹریننگ بہت قوی اور سخت قسم کی ٹریننگ ہے اس سے وہ کمی پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مختلف ممالک کے ساتھ مشقیں بھی کرتے ہیں ۔دیگر ممالک کی ہمارے بارے میں جو رائے ہے وہ کیوں مثبت ہے اس لئے کہ یہ بہترین ٹریننگ لے رہے ہیں ۔ ہمارے پاس J-10 C ان سے بہتر نہیں ہے لیکن اس سے ہم نے ان کے رافیل جہاز گرائے ۔
سب سے بڑھ کر ہمارے پاس ایمان کا جذبہ ہے جنگ کے دوران آپ نے دیکھ لیا کہ ان کے 70 جہاز تھے اور اپ کے پاس 27/ 30 تھے آپ اگر تعداد میں کم بھی ہے تو آپ زیادہ تعداد والے کوشکست دے سکتے ہیں ہمارے لئے قرآن میں ہدایت ہے یقیناً ہے کہ اپ کے تین جہاز جاتے ہیں اور اپنا ٹارگٹ مار کر کے واپس بھی ا ٓجاتے ہیں ۔
اب کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نےکہانیاں گھڑ لیں ٓاپ نے سوشل میڈیا پہ دیکھ لیا ہوگا کہ چار بجے چین سے رنگ اگئی کہ جاگ جائیں ،آپ سو رہے ہیں اور ادھر سے 300 جہاز آرہے ہیں حالانکہ لڑائی ایک بجے شروع ہو گئی اب ہم یہ خود ایک پروپیگنڈا کر رہے ہیں اپنے ملک کے خلاف ایک بجے لڑائی شروع ہوئی اور اس کے بعد آپ نے دیکھ لیا کہ اس کا انجام کہ وہاں جہازگرائے گئے۔
سوال:کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا جو ایئر ڈیفنس سسٹم ہے یہ بہت بہتر ہے یا سپیریئر ہے اور جب جہاز بھارت کے ہوائی اڈوں سے اڑتے ہیں جو سرحد کے قریب ہیں تو اس کا پاکستان کو پتہ چل جاتا ہے تو اس بات میں کتنی حقیقت ہے ؟
جواب :اس میں حقیقت ہے کہ پاکستان کا ایئر ڈیفنس سسٹم اچھا ہے ،ان کے پاس بھی اضافہ کر رہے ہیں ہمارے پاس بھی مگر ہمارا جو امیج یہی ہے کہ ہماری ایئر فورس میں یہ صلاحیت ہے ہمارے جے وائی 27 اے ریڈار سسٹم کی جسے دنیا کا سب سے جدید ترین ریڈار سسٹم مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں جاسوس طیاروں کی موجودگی کا پتا چلانے والا جدید ترین جے وائی 27 اے ریڈار سسٹم موجود ہے،جسے میانوالی کی ائیربیس پر نصب کیا گیا ہے۔ یہ ریڈار چائنہ الیکٹرانکس ٹیکنالوجی گروپ کارپوریشن کا تیار کردہ ہے جو ایک لانگ رینج سرویلنس اینڈ گائیڈنس ریڈار ہے۔ یہ ریڈار نہ صرف اسٹیلتھ طیاروں کا سراغ لگا سکتا ہے بلکہ ان طیاروں کو نشانہ بنانے کے لیے میزائلوں کی رہنمائی بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے چینی فوجی حکام نے اس ریڈار کے متعلق بتایا کہ اسے زمین کے ساتھ ساتھ کسی گاڑی پر یا جنگی بحری بیڑے پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔
سوال، اس جنگ کا معیشت سے کیا تعلق ہے ؟
جواب، دیکھیں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران جس وقت دونوں جانب سے تنازع اپنے عروج پر تھا تو ایسے وقت میں چینی اسٹاک مارکیٹ میں چینی دفاعی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی تھی۔
خاص طور پر ان کمپنیوں کے شیئرز میں اضافہ ہوا جو پاکستان کو ہتھیار اور لڑاکا طیارے فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک جے 10 سی لڑاکا طیارہ بنانے والی کمپنی ’ایوک چنگڈو ایئر کرافٹ کارپوریشن ہے
صرف پاکستان کی وجہ سے چینی کمپنی کےشیئرز اوپر چلے گئے توچائنا پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے مگر چائنا کوپاکستان کا شکر گزار بھی ہونا چاہیے اس چیز میں کہ ہم نے اس کو کس طریقے سے استعمال کیااور ہم نے اس سے بہترین نتائج نکالے ۔
سوال :موجودہ ایئر چیف ائر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کے بارے میں آپ نے بات کی تو ان کے بارے میں مشہور ہے کہ چین سے تعلق کو ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی انہوں نے یہ پالیسی بنائی کہ موجودہ دور میں چین کی ٹیکنالوجی کواپنانا چاہیے جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا ایئر فورس کے حوالے سے اس بات میں کتنی حقیقت ہے ؟
جواب :اگر آپ شروع سے دیکھیں کہ 48 19 ءکے بعد باقی ممالک کے پاس ا تنی ٹیکنالوجی نہیں تھی تو سب یورپین ٹیکنالوجی اپنارہے تھے اور ان سے خرید رہے تھے پھر 65 میں آپ نے دیکھ لیا کہ جنگ کے دوران ہی امریکہ کا سپلائی کو روکنا اسپئیر پارٹس (پرزہ جات ) ایمونیشن روک لینا ، ان ساری چیزوں سے متبادل کی ضرورت محسوس ہونے لگی ، جنگ کے بعد F-6 F-5 ائیرکرافٹ چین سے لینے شروع کئے ۔ اس وقت بہت کمزور قسم کے جہاز تھے مگر اپ کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا ، پھر یہ سلسلہ امریکا کی طرف شفٹ ہو گیا پھر امریکا کی پابندی کی وجہ سے پھر ہم چین کی طرف گئے ہیں ،موجودہ ائیر چیف نے وہ کام کئیے جو اس سے پہلے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں تھی جیسا کہ سائبر کمانڈ انھوں نے بنایا جو ہمارا سائبر سسٹم ایک چھت کے نیچے وہ سارا پاکستان کا تیار کردہ ہے اپنے انجنیئرز کولاکھوں میں تنخواہیں دے رہے ہیں جب آپ اس طر ح عام طور پر سوچتے بھی نہیں ،ان کو عزت دے رہے ہیں انھوں نے اس کا ایک لیول رکھا ہوا ہے ۔اگر آپ سافٹ وئیرز دوسرے ملکوں سے لیں گے آپ کے خیال میں کیا اس میں انھوں نے ایسےسسٹم نہیں کیے ہوں گے کہ وہ سارا ان کو پتہ چل جائے گا اگر آپ کویاد ہو تو وہ جو خود کش حملے ہوتے تھے تو موبائل سے جا کے وہ دھماکہ کرتے تھے تو اگر موبائل سے دھماکہ ہو سکتا ہے تو وہ کوڈنگ سے ان سے آپ کا سارا نظام ایکسپوز ہو گا ۔
انھوں نے الیکٹرانک وار فئیرز پر بھر پور توجہ دی ہے، یہ جو چائنیز شفٹ ہے تو وقت نے بتا دیا کہ یہ اچھا فیصلہ ہے۔ جس سے پاکستان کو فائدہ پہنچا ہے۔
سوال :یہ بتائیں یہ ویسے تو رافیل جہاز کو گرانے کے حوالے سے کئی ویڈیوز ہیں کئی وضاحتیں بھی آئی ہیں ائیر وائس مارشل صاحب نے بھی اس کی تفصیل سے و ضاحت کی ہے۔ آپ کی کیارائے ہے کہ یہ رافیل جہاز کو کس طرح گرایا گیا ہے ؟
جواب :رافیل جہاز میں بنیادی طور پر تو ایک جیمنگ (Jamming System) سسٹم ہے ہمارا اپنا جیمنگ سسٹم بھی اچھا خاصا ترقی یافتہ ہے ۔ ہمارے جے ٹین سی میں میزائل لگا ہوا ہے PL-15وہ تقریبا 200 کلومیٹر کے قریب اس کا رینج ہے جبکہ رافیل جہاز کا جو رینج 100 کلو میٹرز تک مارکر سکتا ہے ہمارے چیف صاحب نے جو فیصلہ کیا ہے کہ جب بھارت نے رافیل لے لئیے انہوں نے اس کے توڑ کے لئے جو مزائل لیا وہ ہمارا PL-15ہے وہ اس سے بہت کم قیمت پر ملتا ہے ۔آپ نے صرف وہ میزائل لے لئے جو دشمن کے پورے سسٹم کو ناکارہ کیا ہے اب ان کی یہ حالت ہے کہ جب آپ جہاز میں بیٹھے ہیں اپ کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ اچانک کوئی میزائل آئے اور آپ کوہٹ کریں ۔ اس کو بی وی آر ویژول کہتے ہیں ۔
سوال : پاکستان کے اسٹریٹجک اثاثے یا جو ہمارے جو ایٹمی اثاثہ جات ہیں یا جو ہمارا کہوٹہ پلانٹ ہے ۔ اس کی حفاظت کے لئے کیا حفاظتی انتظامات کئےگئے ہیں کیونکہ بھارت کی طرف سے بھی خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ حملہ کرے گا پھر کہوٹہ کا پلانٹ جو ہے وہ بارڈر کے بھی قریب ہے اور اسرائیل کی طرف سے بھی خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ بھی حملہ نہ کرے ۔
جواب:اصل بات یہ ہے کہ خفیہ مراکز پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں کہوٹہ پلانٹ تو ایک پرانی بات ہے یہ تو ایک علامتی حیثیت ہے ہمارے پاس کئی مقامات ہیں جو محفوظ ہیں آپ ایک کو مارنا چاہیں گے تو نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایک مضبوط حصار ہے۔ ،بم پروف بلڈنگ وہ ساری سلسلے ہیں اس کا ایئر ڈیفنس سسٹم اس کے ڈیزائن سسٹم سے تو یہ ساری چیزیں ہیں ظاہر بات ہے کہ اگر آپ کا نیوکلیئر پروگرام اتنا آسان ہدف ہو گا تو یہ بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہوگا۔
آخری سوال ، یہ جو اسرائیل کے حوالے سے سنتے ہیں کہ حوثیوں نے حملہ کیا اور انہوں نے اینٹی میزائل سسٹم سے ان حملوں کو ناکام بنا دیا میزائلوں کو ناکام بنا دیا تو ایسا کوئی سسٹم پاکستان میں یا ہندوستان کے پاس نہیں ہے جو میزائلوں کوجس طرح ہم نےفتح میزائل پھینکیں تو وہاں جا کے لگ گئے تو کیا ان کے پاس نہیں تھا کوئی ایسا سسٹم یا پاکستان کے اوپر جو بھارت نے نور خان ائر بیس پر حملے کیے سرگودھا ،شور کوٹ پر یا جو کراچی کے قریب آخری دن جو حملہ ہوا تو یہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا سسٹم نہیں ہے کہ ہم ان کے میزائلوں کو ناکارہ بنا دے یا ہوا میں اس کو تباہ کر دیں؟؟۔
جواب : وہ جو جس کو میزائل ڈوم سسٹم کہتے ہیں وہ تو پاکستان کے پاس نہیں ہے بھارت کے پاس بھی نہیں ہے ۔ البتہ مختلف قسم کے دفاعی نظام دونوں ممالک کے پاس ہیں ۔
اس کے لیے پھرمختلف جس طرح آپ کو میں نے کہا کہ الیکٹرانک وار فئیر ان کے باہمی مربوط نظام ، مقام وغیرہ یہ ساراآپ محفوظ رکھتے ہیں اور خفیہ رکھتے ہیں اس کو بنیادی طور دنیا کو یا مختلف قسم کے جو میزائل کی گائیڈنس ہے ان کو آپ منتشر کر لیتے ہیں آپ اس کو مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں جگہوں پہ لے کے جاتے ہیں اور وہ الیکٹرانکس جیمنگ سسٹم میزائل کو میس گائڈ کرنا یہ مختلف حربے ہیں جواس لیول پر ہمارے پاس نہیں مگر اس جنگ کے دوران آپ نے دیکھا کہ ہمارے میزائل سارے کے سارے اپنے ہدف پر گئے ہیں ۔ اسکی بنیادی وجہ یہ کہ ہم کواس نظام کو بنانے میں 30 سال ہو گئے اور یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔خود بنایا ہے ۔
موجودہ ایئر چیف ائر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو جو ہے اس نے ترکی سے کیلر ڈرون لئے ہیں ہمارے ہاں بن رہے ہیں پاکستان میں اب ظاہر بات ہےڈرون ایک ایسی چیز ہے کہ وہ جہاں جائے اور خودکش ڈرونز ہو اس کو پے لوڈ کر لیں اس کو آپ کیسے روک لیں گے ایک کو روک لیں گے دو کو روک لیں گے جب آپ اپنی خود بنا رہے ہیں ہم نے اپنا لانگ رینج ریڈار بنا لیا ہے جوطویل فاصلوں تک اہداف کا پتہ لگانے اور ان کی نگرانی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان نے بھارت پر نظر رکھنے کے لیے پہلا لانگ رینج ریڈار تیار کیا ہے، جو 450 کلومیٹر تک کی دوری تک اہداف کا پتہ لگا سکتا ہے، بشمول توپوں، ٹینکوں اور طیاروں کے. یہ ریڈار NRTC اور Blue Surge کے اشتراک سے تیار کیا گیا ہے اور اسے شدید موسم میں بھی کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
تو یہ بنیادی طور ایک اہم ہا جو الیکٹرانک وار فیئر سسٹم ہے اس کے زریعے سے ہم اس کو محفوظ بنا رہے ہیں ۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: