Advertisement

سب کچھ یہی بدلیں گے

اقبال اور مودودی رحمہ اللہ کے شہر لاہور میں 21 تا 23 نومبر تین دن کے لیے ایک بستی بسائی گئی، جس میں پاکستان بھراور دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی ۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ لوگ تھے، کسی سے موازنہ مقصود نہیں لیکن یہ سارے لوگ مختلف علاقوں رنگوں، زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق کے باوجود صرف ایک رشتے ’’لاالہ الا اللہ‘‘ سے جڑے ہوئے تھے ۔
یہ بستی جماعت اسلامی پاکستان کے گیارہ برس بعد ہونے والے اجتماع کے لیے بسائی گئی تھی۔ اجتماع کا عزم تھا ’’بدل دو نظام‘‘ اسے لوگ ،نعرہ یا سلوگن کہتے ہیں لیکن جو لوگ آئے تھے وہ بامقصد سوچ والے لوگ ہیں وہ نعرے نہیں دیتے عزم کرتے ہیں اور ان کا عزم صرف دنیا کے لیے نہیں ہوتا، وہ ملک میں نظام بدلنا چاہتے ہیں تواللہ کی رضا کے لیے تین روز تک یہ بستی اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں سے، بھری رہی۔ زندگی سے بھرپور عزم جوان کردینے والی تقریریں اور اس کارواں کے امیر حافظ نعیم کی جانب سے دیا جانے والا پرزور پیغام ہی نظام بدلنے کا نقطہ آغاز تھا۔
بدل دو نظام اجتماع عام میں امیر جماعت اسلامی پاکستان نے تین اہداف مقرر کیے:
پہلا ہدف
O پچاس لاکھ ممبر بنائیں
O پچاس ہزار عوامی کمیٹیاں
دوسرا عزم
O آئین کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کے لیے تحریک منظم کی جائے گی۔
O متناسب نمائندگی پر انتخاب کامطالبہ منوایا جائے گا۔
تیسرا عزم:
بیوروکریسی سے اختیارات لے کر مقامی و بلدیاتی عوامی نمائندوں کے سپرد کیے جائیں۔
اس اجتماع سے متعلق اس کے دوران بھی لکھا گیا اور اختتام کے بعد بھی لکھا جارہا ہے، بہت سے نظریاتی مخالف بھی مان گئے اور ان کا تاثر تھا کہ اگرچہ اس ملک کا نظام بدلنا بہت مشکل ہے لیکن اگر کوئی اس نظام کو بدل سکتا ہے تو یہی لوگ ہیں جو اس سے ٹکرا بھی سکتے ہیں اور اس کا متبادل نظام نافذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ،ایک دانشور نے شاید سب سے پہلے کالم لکھ دیا اور ایک گول مول تحریر کے ذریعہ کچھ تعریفوں کے ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ” کیا جماعت اسلامی نظام بدل سکے گی” اس تحریر اور سرخی سے عام آدمی یہی تاثر لے گا کہ نظام بدلنے کا کام ناممکن ہے۔لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ ان صاحب اور بہت سوں کی خواہش یہی ہوگی کہ یہ نظام نہ بدلے ، کیونکہ اس نظام میں بہت سوں کے فائدے ہیں ، شاید ان کا بھی ! لیکن جماعت اسلامی اگر تبدیلی کا عزم لے کر اٹھی ہے تو وہ اس معاملے میں یقینی طور پر سنجیدہ ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت کے اجتماع کے خلاف بہت کچھ کہا جائے ، لیکن اگر کوئی سنجیدہ تجزیہ کرے تو اس کے سامنے حقیقت آجائے گی۔اس ملک میں سب سے زیادہ حکومت کرنے والی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں ان کے علاوہ پی ٹی آئی بھی حکمرانی کرنے والی قابل ذکر بڑی پارٹی ہے ، اور مختلف ادوار میں مارشل لا ، ق لیگ، اور چھوٹے چھوٹے شامل باجے ایم کیو ایم، اے این پی،جے یو آئی،جے یوپی وغیرہ ہیں یہ سب الٹ پھیر کر ایک سے دوسری پارٹی اور تیسری چوتھی پانچویں میں بھی چلے جاتے ہیں، اور کسی کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ ان سب کے اقتدار کے ادوار میں پاکستانی عوام کو قرضوں ،بیروزگاری، بدعنوانی،مہنگائی، دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ملا ، بار بار اقتدار کے بعد انہیں ایک اور بار اقتدار دینے کا مطلب مزید تباہی ہوگا۔ایسے میں جماعت اسلامی نے نظام بدلنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو ملک کے حالات کے تناظر میں کسی قسم کی خیر اور بھلائی کی توقع جماعت اسلامی کے سوا کسی سے نہیں کی جاسکتی۔ جماعت اسلامی حکومت میں نہیں لیکن اس کے بغیر وہ ،تعلیم، صحت، تربیت، کمپیوٹر کی تعلیم، تجارت و معیشت ہر شعبے میں بہترین خدمات انجام دے رہی ہے،تو اگر اس ملک میں کوئی نظام بدل سکتا ہے تو یہی لوگ ہیں جو تین روز لاہور میں پرعزم قیام کرکے گئے ہیں، اجتماع گاہ اور بادشاہی مسجد کو جماعت کے کارکنوں نے دوبارہ پچھلی حالت میں لاکر صاف ستھرا کرکے انتظامیہ کے حوالے کیاہے، بس اب قوم بھی ان کا ساتھ دے تو یہی لوگ نظام بدلیں گے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: