Advertisement

ایک آئین 350 ترامیم

دنیا بھر میں ریاستوں اور ممالک کا نظم و نسق چلانے کے لئیے قوانین وضع کئیے جاتے ہیں اور ان کو پورے ملک کے خاص وعام پر یکساں نافذ کرکے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس دنیا ہی کا ایک ملک ہے لیکن اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس ملک میں قوانین، آئین ،دستور سب کچھ ہے لیکن ان سب چیزوں کا استعمال ملک کا نظم ونسق چلانے کے بجائے اس نام پر چند لوگوں اور مخصوص طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے ، پاکستان کے آئینی سفر میں جو بھیانک اندھے موڑ آئے ہیں اور محض ایک شخص یا چند افراد کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں وہ شاید دنیا میں کہیں پیش نہیں آئے۔ امریکا جیسا ملک بھی اپنی دوسوسالہ تاریخ میں اب تک 27 ترامیم کرسکا ہے لیکن پاکستان اب اب صرف 78 برس میں امریکا کے برابر آگیا ہے۔اور 27 ترامیم کے ذریعہ 350 سے زیادہ شقیں تبدیل کردی گئی ہیں۔اگر پاکستانی آئین کا تیاپانچا کرنے کا تجزیہ کیا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن موٹا موٹا تجزیہ کریں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ پاکستان کا آئین جس کو کہا اور مانا جاتا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ 1947 سے چھبیس برس تک کیا پاکستان سرزمین بے آئین رہا ۔ کوئی 1956 اور 62 کے دساتیر کا بھی ذکر کرسکتا یے لیکن ،صحیح معنوں میں جس کو دستور کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973 ہی کا دستور ہے ۔
1973 کے متفقہ منظور کردہ آئین پاکستان میں اب تک 27 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے دور میں ہوئیں یعنی 73 سے 77 کے دوران سات ترامیم عمل میں آئیں ۔تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ آٹھ ترامیم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہوئیں اور اگر مسلم لیگ کو سامنے رکھیں تو اس کا ریکارڈ سب سے زیادہ نکلے گا۔
بہر حال ترتیب یوں ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی، حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم سے پہلے تک آئین پاکستان کی تین ترامیم، آٹھویں، سترہویں اور اٹھارہویں سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہیں، پہلی دو ترامیم کا تعلق تو غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا،آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کیلئے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کیلئے باعث تقویت کہا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اختلافات شدید ہیں اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دئیے گئے بعض اختیارات ہی کو ملکی نظام میں عدم توازن کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے،خصوصا،سندھ میں تعلیم،صحت اور بلدیات سے متعلق قوانین کے غلط استعمال نے نزاع پیدا کیا ہے۔ البتہ اٹھارہویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی بھی تصورکیا جاتا ہے۔ آئین میں ترامیم کب کب اور کیوں کئ گئیں یہاں ان کا مختصر جائزہ لیا جارہا ہے۔
1973 کےدستور کی منظوری کے بعد ایک سال سے کم مدت میں اس میں:
پہلی ترمیم: 4 مئی 1974ء کو کی گئی آئین پاکستان میں اس پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی، اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔
دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا ۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ترمیم ہے جس نے پاکستان سے برطانیہ اور امریکا تک ہیجان برپا کردیا ،اور اج تک اس ترمیم کو چھیڑنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہیں ، لیکن ،مذہبی مسلکوں، لسانی اور علاقائی گروہوں اور سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کے باوجود قوم ختم نبوت کے مسئلے پر متفق ہوجاتی ہے اور ایسی کوشش کو ناکام بنادیتی ہے۔ اس لئیے اس ترمیم کے تحفظ کے لئیے کوئی ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں نہ اٹھے تو بھی قوم اس کا تحفظ کرتی ہے۔
آگے چل کر اقتدار کو مضبوط کرنے اورعوام کے حقوق غصب کرنے والی ترامیم آناشروع ہوگئیں۔ ان میں آئین کی تیسری ترمیم بھی ہے جو 18 فروری 1975ء کو منظور ہوئی ،اس ترمیم میں احتیاطی حراست کی مدت کو بڑھایا گیا۔ Preventivedetention‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ یعنی حکومت ہی فیصلہ کرے گی کہ کون ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث یے ۔ جو حکومت مخالف ہے وہ لاپتا کیا جاسکتا ہے۔
چوتھی ترمیم: 21 نومبر 1975 کو کی گئی جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کیلئے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔
پانچویں ترمیم: 5 ستمبر 1976 کو ہوئی اس کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالتوں کا اختیارِ سماعت وسیع کیا گیا۔
چھٹی ترمیم:  22 دسمبر 1976 ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کی کوشش میں
ساتویں ترمیم: 16 مئی 1977ء کو منظور کی گئی ،اس کے ذریعہ وزیر اعظم کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ شاید یہ خوف کی نفسیات کی پہلی ترمیم تھی۔
ان سات ترامیم کے بعد 5 جولائی 1977 کو مضبوط کرسی، اور زیادہ اختیارات رکھنے والے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا اور گیارہ سالہ مارشل لاء نے جگہ لے لی، لیکن بین الاقوامی برادری میں منہ دکھانے کے لئیے نام نہاد جمہوریت تو لانا ہی تھی ، چنانچہ غیر جماعتی انتخابات کرواکے اسمبلی بنائی گئی۔اور اس اسمبلی سے آٹھویں ترمیم 11 نومبر 1985ء کو منظور کروائی گئی ، اس موقع پر پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ایک بار پھر نویں ترمیم کی ضرورت پڑی ملک بھر میں جنرل ضیا کو ان کا نظام مصطفی کا وعدہ یاد دلایا جارہا تھا تو 1985 ہی میں شریعہ لاء کو ملک کے اعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔یہ بات آج تک درجہ دینے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔
دسویں ترمیم 29 مارچ 1987 کومنظور کی گئی جس کے تحت پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاسوں کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔
اس کے بعد کی ترامیم مسلم لیگی اور بے نظیر ادوار میں کی گئیں۔
گیارہویں ترمیم: 1989ء کے ذریعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ اس کے بعد مخالفین کے خلاف استعمال کے لیے
بارہویں ترمیم 1991 میں منظور ہوئی جس کے تحت سنگین جرائم کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتیں تین سال کیلئے قائم کی گئیں۔ اور یہ خصوصی عدالتیں ان ترامیم کو منظور کرنے والوں سمیت سب کے لئیے آج بھی مشکل بنی ہوئی ہیں۔
ایک بار پھر سیاسی نظام مقتدر قوتوں کے مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہوگیا توتیرہویں ترمیم 1997 میں لائی گئی جس کے تحت صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیار ختم کیا گیا۔ پھر 3 جولائی1997 کو ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔اور چودھویں ترمیم منظور کی گئی۔ قیام پاکستان کے اصل مقصد نفاذ اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے پندرہویں ترمیم 1998 کے ذریعہ شریعہ لاء کو نافذ کرنے کے بل کو پاس نہیں کیا گیا۔سولہویں ترمیم 1999ء کے ذریعہ کوٹہ سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔ اس کام میں بھی عوام کی نمائندگی کے دعویدار اور کوٹہ سسٹم کی مخالفت کی دعویدار ایم کیو ایم بھی شامل رہی۔
جنرل پرویز مشرف کو قوت دینے کے لئےسترہویں ترمیم 2003ء کے ذریعہ صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔
بعد میں نیم جمہوری ڈرامے کے دوران اٹھارہویں ترمیم بھی آگئی 8اپریل 2010ء کو منظور کردہ اس ترمیم میں NWFP کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔
انیسویں ترمیم کے تحت 22 دسمبر 2010 کو اسلام آباد ہائی کورٹ قائم کی گئی اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے قانون وضع کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بھی حلق کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بیسویں ترمیم لائی گئی 14 فروری 2012 کو صاف شفاف انتخابات کیلئے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تبدیل کیا گیا۔
اکیسویں ترمیم میں 7 جنوری 2015 کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں۔ آرمی پبلک اسکول کے ذمہ داروں کا کیا بنا یہ الگ قصہ ہے لیکن ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل آج بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
آئین پاکستان میں بائیسویں ترمیم 8 جون 2016 کو ہوئی،اس میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو دیئے گئے، چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا ،جس کے تحت بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بن سکیں گے۔
تئیسویں ترمیم 7 جون 2017 کو منظور ہوئی ،2015 میں قومی اسمبلی نے 21 ویں ترمیم میں دو سال کیلئے ملٹری کورٹس قائم کی تھیں، یہ دورانیہ 6 جنوری 2017 کو ختم ہوا، اس ترمیم میں ملٹری کورٹس کے دورانیے کو مزید دو سال کیلئے ، 6 جنوری 2019 تک بڑھایا گیا۔جس طرح سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت بڑھائی جاتی ہے اسی طرح یہ کام بھی کردیا گیا۔ آئین پاکستان میں چوبیسویں ترمیم 22 دسمبر2017 کو ہوئی، وفاقی اکائیوں کے مابین نشستوں کے تعین کا اعادہ اور 2017 کی خانہ و مردم شماری کی روشنی میں نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل، عمل میں آئی۔
پچیسویں ترمیم 31 مئی 2018 کو لائی گئی اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔
پاکستان میں عدلیہ کے پر کاٹنے بلکہ اسے عضو معطل بنانے والی ترمیم 26 ویں ترمیم کہلاتی ہے۔20 اکتوبر 2024 کی اس ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کرنے کی تجویز دی گئی ۔یہ پوری ترمیم، عدالت عظمی،ججوں کے تقرر، تبادلے، ریفرنسز، مدت ملازمت،عمر کی حد، عدالت کےاختیارات کی حد بندیوں وغیرہ کے گرد گھومتی ہے۔ اور یہ عدلیہ پر کھلا حملہ تھا لیکن عدلیہ کے رکھوالوں اور ججز کے درمیان اختلافات اور چھوٹے چھوٹے مفادات نے انہیں اس پر کوئی رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا اور انہیں اس کا اندازہ بھی تھا، انہیں چند مہینوں میں غلطی کا احساس ہوگیا لیکن اب دیر ہوچکی تھی ،فائدہ اتھانے وزلوں نے فسئدہ اٹھالیا، کچھ ججوں کو کچھ فوائد بھی مل گئے۔ اور تمام اختیارات قومی اداروں سے چھیننے کاکام کرنے والو ں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب ستائیسویں ترمیم بھی آگئی بلکہ چھاگئی ہے۔
یوں عدالت عظمی پر حکومت کا اور اس کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول قائم ہوگیا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں جے یو آئی نے جس چیز کا ذکر کامیابی کے طور پر کیا تھا وہ معیشت سے سود کے خاتمے کا اعلان ہے۔پاکستان میں بینکنگ اور کسی بھی قسم کے لین دین سے سود کے خاتمے کے لئیے آرٹیکل 38 میں کی گئی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 تک ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ یہ ہوگا یا نہیں ،ویسے تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حکمران حکومت اور اپوزیشن ایسا کرنے والے نہیں ہیں، یہ بچھڑے ( سودی نظام ) کی قربانی نہیں دیں گے، بس کفار قریش کی طرح نشانیاں ہی پوچھتے رہیں گے، ایک اور کارنامہ چھبیسویں ترمیم میں ہے، وہ یہ کہ آئین میں ایک نئی شق آرٹیکل نو اے بھی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی شہری حقوق میں شامل کردیا گیا ۔یہ اور بات ہے کہ دیگر بنیادی حقوق سے قوم کی بڑی اکثریت محروم ہے۔
سوال یہ ہے کہ ستائیسویں ترمیم میں کیا ہوا ہے ہنگامہ کیوں بپا ہے؟بظاہر تو اس ترمیم سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2030 تک فوج کے سربراہ ہوگئے ہیں، آرمی، ایئر فورس اور نیوی ترمیمی بلز کی قومی اسمبلی میں منظوری سے چئیر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوگیا ہے۔ مجوزہ آرمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف کا بطور چیف آف ڈیفنس فورسز نیا نوٹی فکیشن جاری ہو گاجس کے بعد آرمی چیف کی مدت بطور چیف آف ڈیفنس فورسز دوبارہ سے شروع ہوگی‘ وزیراعظم آرمی چیف‘چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ تعینات کریں گے‘ کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈرکی مدت ملازمت 3سال ہوگی ‘قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعدآرمی چیف کے عہدے کی مدت 5سال ہوگی اور تعیناتی کی تاریخ سے مدت شمار ہوگی‘چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہےاور موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے‘ مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ آرمی چیف‘چیف آف ڈیفنس فورسز پاک فوج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ اور انضمام کریں گے‘ کمانڈر نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کو 3 سال کے لیے دوبارہ تعینات کیا جا سکے گا۔مجوزہ آرمی ایکٹ میں کہا گیا کہ 27 نومبر سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہو جائے گا۔ اس ترمیم پر صدر مملکت نے دستخط کردئیے ہیں اور یہ ائین کا حصہ بن گیا ہے۔
یہاں زیادہ تنقید کا نشانہ فیلڈ مارشل اور عدلیہ کو بنایا جارہا ہے ، جو اس اعتبار سے درست ہے کہ فوج کے سربراہ کو کد چیز کا خوف ہے ،عدلیہ کے ججوں نے چھبیسویں ترمیم کے موقع پر جس دوہرے روئیے کا مظاہرہ کیا اور خاموش رہے، ستائیسویں ترمیم اسی روئیے کا شاخسانہ ہے۔اس ترمیم میں وزرائے اعظم کو بھی استثنا دینے کی بات ہوئی تھی لیکن اس صورت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو بھی استثنا مل جاتا۔ لہٰذا اسے وزیر اعظم کے نمبر بڑھانے کے لئیے استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے لئیے استثنا لینے سے انکار کرتے ہوئے وزرائے اعظم کا لفظ نکلوادیا۔
پاکستان میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ظاہری نتائج اور فائدہ اٹھانے والوں کا بہت ذکر ہوتا ہے ،نام تک لئیے جاتے ہیں، 1973کے آئین اور اس کی قادیانیوں سے متعلق ترمیم کے ایک ایک مرحلے سے قوم واقف ہے۔آئین کی تیاری، تنازعات، ترامیم تجاویز ہر مرحلہ ریکارڈ پر ہے لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد سے پراسرار انداز نے جگہ لے لی ،راتوں رات پیچیدہ شقوں میں ترامیم تجویز ہوتیں اور چند گھنٹوں میں پیش کرنے سے لے کر منظوری تک کا عمل مکمل ہو جاتا، آخر یہ کیسا جادو ہے، وہ کون جادوگر ہے جو لمحوں میں ترامیم لاتا اور منظور کراتا ہے، دستور کے ابتدائی خاکے اور منظوری تک کے سارے عمل کے برخلاف نئی ترسمیم کا کوئی خالق سامنے نہیں اتا،کوئی حفیظ پیرزادہ ، کوئی مفتی محمود، کوئی پروفیسر غفور، کوئی مولانا ندرانی سامنے نہیں آتا، بس ترامیم آتی ہیں اور منظور ہوجاتی ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔پہلے ان اسمبلیوں میں کچھ لوگ مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں ،سو انہیں اسمبلیوں سے باہر کردیا گیا، کبھی آرٹی ایس بیٹھا ، کبھی فارم 47 آگیا کبھی زبردستی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔اب پارلیمنٹ میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں اور ان کو غیر موجود رکھنے کے ذمہ دار وہی ہیں جو یہ سارے جادو کرتے ہیں ۔ بس ان کا نام نہیں آتا، بے چارے نام نہاد سیاستدان سارا الزام چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اپنے سر لے لیتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ساری ترامیم سے آرمی چیف اور عدلیہ کے فائدے کی بات کررہے ہیں ، لیکن سب سے زیادہ خطرے جو شخصیت تھی اور جو اپنے بارے میں خدشات کا شکار تھی ،وہ صدر مملکت کی شخصیت ہے ،خطرہ بھی انہیں تھا اوراصل فائدہ بھی وہی اٹھائیں گے، آرمی چیف یا فوج کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے ؟ ذرا گرد بیٹھنے دیں پھر پتا چلے گا کہ کون سب سے زیادہ فائدے میں ہے۔عوام کو تو بیشتر آئینی ترامیم میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: