Advertisement

امن کے لیے طاقت کا توازن

جنوری 1985 ءبیروت


سمیرہ بیروت یونیورسٹی کی طالبہ تھی ۔اسپتال پر بمباری نے اس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسپتال میں تو اکثر بیمار، زخمی اور ضعیف افراد تھے۔ پل بھر میں سب خاک ہوچکے تھے ۔۔ہم کیوں اتنے بے بس ہیں؟ اس فکر نے اسے سوچنے پر مجبور کیا اور نتیجہ میں اس کا سراپا بدل گیا کہ میں مسلمان لڑکی ہوں ۔مجھے دیگر اقوام سے منفرد نظر آنا چاہیے۔۔ یہ تبدیلی اس کے لیے یوں آزمائش بن کر سامنے آئی کہ منگیتر احمد نے رشتہ توڑنے کا اعلان کردیا ۔ رب کے قریب ہونے میں اتنا تو قابل برداشت تھا لیکن تکلیف دہ بات اپنی قوم پر ظلم تھا ۔ جو ایک عتاب کی صورت میں ان پر نازل تھا !
وہ اپنے آپ کو تنہا سمجھ رہی تھی لیکن اسےاندازہ ہوا کہ اور بہت سے لوگ ایسا سوچ رہے ہیں ۔ان ہی میں فیصل عباداللہ بھی تھا ۔وہ نواحی علاقے کا رہائشی ننھیالی رشتہ دار اس کا بہترین ہمسفر ثابت ہوا ۔۔ہم ذوق اور ہم آہنگی نے منزلیں آسان کردیں۔یکسوئی نصیب ہوئی تو بہت سے راستے کھلے ۔
جدو جہد کی ایک نئی صورت سامنے تھی ۔جو محض ایک جماعت نہ تھی بلکہ ایک نظریہ تھی جو دیرپا امن کے لیے آزمائشوں سے سجی تھی۔

جنوری 2024ء
سمیرہ اور اسکے شوہر فیصل عباد اللہ غزہ کے باسی تھے جہاں ہر وقت موت منڈلاتی تھی۔ عراق سے ملحقہ علاقے میں کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ۔ ان کے تینوں بیٹےمع اپنے خاندان مائع بن چکے تھے ۔لڑکے جو پڑھائی کے لیے عراق گئے تھے واپسی کا کوئی راستہ نہیں پاتے تھے چنانچہ وہیں مہاجر بن کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور بالآخر وہیں پیوند خاک ہوئے ۔

اپریل 1985ء۔۔کراچی
سمیرامنورجامعہ کراچی کی طالبہ تھی ۔بس کے نیچے آکر کچلنے والی بشری زیدی کی خبر سن کر وہ رو رہی تھی کہ جسم ہی نہیں اس لڑکی کے خواب کچلے گئے اور پھر اس کے بعد پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں نے شہر کو خون آشام بنادیا جہاں روز لاشوں کا اسکور گنا جاتا تھا ۔۔اور یہ مقتل 30 برس سے زیادہ جاری رہا۔

اکتوبر 2025ء ۔کراچی

بظاہر قتل و غارت گری تو نہیں نظر آتی لیکن شہر کھنڈربنا ہوا ہے ۔ ایک کے بعد ایک جرائم کی لہرنے اسے ناقابل رہائش شہروں کی اولین فہرست میں شامل کر دیا ہے۔وجہ نااہل اور بد دیانت افراد اور گروہ کا شہر پر قبضہ ! یہ ایک شہر ہی نہیں پورے ملک کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز ہے لیکن گدھ نما لوگ اس کو پنپنے نہیں دیتے اور وہ ایسا بیرونی اشاروں پر کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں ڈالر کماتے ہیں۔ یہاں رہنے والا ہر شخص کس کرب و بلا میں زندگی گزارتا ہے اس کا اندازہ ہر وہ فرد کرتا ہے جو یہاں رہ چکا ہے یا پھر زندگی گزار رہا ہے ۔
سمیرا منور نے سوشل میڈیا پر نظر ڈالی اور اس خبرنے اس کو دہلا دیا ۔
جامعہ کراچی کی بس کے نیچے آکر کچلی گئی لڑکی کے جسم کے ٹکڑے جمع کرنے والی ویڈیو دیکھ کر سمیرا بالکل اسی طرح رو رہی تھی جیسے بشری زیدی کی خبر دیکھ کر روئی تھی ۔آج اس دکھ میں اندیشہ اور خوف بھی تھا کہ اس کے گھر اور خاندان کے بچوں سمیت ہزاروں بچے اس کھنڈر بنے شہر پر محو سفر ہوتے تھے۔

دو شہروں کے چالیس سال پر محیط واقعات بتاتے ہیں کہ بدامنی آج کے فرعون کا ایجنڈا ہے جو کہیں بمباری کر کے تو کہیں بد نظمی پھیلا کر انسانیت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔۔کیا امن سب کے لیے نہیں چاہیے ؟ اور یہ صرف ان دو  علاقوں کی بات نہیں ہے ۔ کشمیر اور سوڈان کےعلاوہ بھی بہت سے علاقے امن و آشتی کے لیے ترس رہے ہیں ۔  اس کا حل کیا ہے ؟  امن کس طرح قائم ہوسکتا ہے ؟

جب ذمہ داری ،جواب دہی کا احساس ہر فرد، ہرطبقے اور ہر قوم کو ہو ! جب تک انسان اپنے سے بالا تر کسی اقتدار کو تسلیم نہ کرے !
ایسی طاقت سوائے اللہ کے کسی کے پاس نہیں جس کی باز پرس کا خوف فرد سے لے کر دنیا کی سلطنتوں اور قوموں کو ہو!
ایک سیاح نے کسان سے پوچھا ” آپ کے پڑوسی آپ کے ساتھ کیسے ہیں ؟ اس نے جواب دیا ” بہت اچھے ! میرے ساتھ امن میں ہیں “
” تو پھر آپ نے تلوار کیوں لٹکا رکھی ہے ؟
” انہیں امن پر مجبور رکھنے کے لیے “
کسان کے اس جواب میں ہی امن کا فارمولا چھپا ہوا ہے ۔۔۔ طاقت کا توازن قائم رہے تو امن ممکن ہے!

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: