انسان صدیوں سے ایک ہی خواب کا اسیر ہے—سکون! لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سکون آخر کہاں ہے؟ دولت کے انبار میں؟ شہرت کے چراغ تلے؟ یا طاقت کے میناروں کے سائے میں؟ ہم سب اسی تلاش میں بھاگتے ہیں، مگر جتنا قریب جاتے ہیں اتنا ہی یہ خواب دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے سکون ایک تتلی ہے، جسے پکڑنے کی کوشش کرو تو یہ اور بھی دور اُڑ جاتی ہے۔
دولت کا سراب:
ہمارے معاشرے کا بڑا حصہ سمجھتا ہے کہ سکون صرف روپے پیسے میں ہے۔ دن رات کی دوڑ، کرسی کی سیاست، اور کھوکھلی نمایش—یہ سب سکون کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دولت جسم کے لیے آسایش تو خرید سکتی ہے، مگر دل کے لیے سکون نہیں۔ اسی لیے بڑے بڑے محلوں کے مکین بھی تنہائی اور بے چینی کے اسیر ہیں۔
عزت اور شہرت کا فریب:
کچھ لوگ عزت اور شہرت کو سکون سمجھ بیٹھتے ہیں۔ وہ تالیوں کی گونج میں اپنی حقیقت ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ شور تھمتا ہے، ان کے دل کی خاموشی چیخ بن کر گونجتی ہے۔ معاشرہ جب عزت کو دکھاوے سے جوڑ دے تو سکون رخصت ہو جاتا ہے۔
طاقت اور اقتدار کا دھوکہ:
طاقت بظاہر سکون کا سب سے بڑا ہتھیار لگتی ہے، لیکن دراصل یہ خوف اور بے سکونی کا آغاز ہے۔
جس کے پاس طاقت ہوتی ہے، وہ اپنے ہی زوال کے خوف میں جیتا ہے۔ وہ دشمن کے وار سے نہیں، اپنی بے قراری سے مرتا ہے۔
اصل سکون کہاں ہے؟
قرآن نے سکون کی اصل حقیقت کو یوں بیان کیا:
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)
ترجمہ: یاد رکھو! دلوں کا اطمینان تو صرف اللہ کے ذکر ہی میں ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ سکون نہ دولت میں ہے، نہ طاقت میں، نہ ہی دنیاوی دکھاوے میں۔ سکون صرف اس دل میں ہے جو اپنے رب کے ساتھ جُڑ جائے۔ جو دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹے، وہ خود سکون کی بارش میں نہا لیتا ہے۔
عملی پیغام!
اگر ہم ایک حقیقی پر سکون معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اقدار بدلنی ہوں گی۔ خود غرضی کی جگہ ایثار، دکھاوے کی جگہ اخلاص، اور نفرت کی جگہ محبت کو جگہ دینا ہوگی۔ سکون تبھی آئے گا جب ہم دوسروں کے لیے وہی پسند کریں جو اپنے لیے چاہتے ہیں۔
سکون کی تلاش میں بے سکون معاشرہ
















