کھانے کا وقت تھا۔ ثنا نے حسبِ معمول اپنے تینوں بچوں کو آواز دی جو کھیل کود میں اتنے مگن تھے کہ دسترخوان پر بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ کئی بار بلانے کے بعد بھی جب کوئی بچہ تیار نہ ہوا تو ثنا نے بے بسی سے موبائل فون ان کے ہاتھوں میں تھما دیے تھے۔ جیسے ہی چھوٹی اسکرین آن ہوئی، کمرہ یکدم پُرسکون ہو گیا تھا۔ بچے جو ابھی کچھ دیر پہلے شور مچا رہے تھے، اب یکسوئی کے ساتھ اسکرین پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ ثنا نے تیزی سے ان کے منہ میں نوالے ڈالنے شروع کیے اور وہ بے دھیانی میں، ایک مشین کی طرح کھاتے چلے گئے تھے۔
اسی کمرے میں صفائی کرتی ہوئی ماسی کے لیے یہ منظر نیا نہیں تھا۔ وہ زمین پر پوچھا رگڑتے ہوئے بولی، “آج کل تو بچے موبائل کے بغیر کھانا ہی نہیں کھاتے۔ باجی، تقریباً جتنے گھروں میں میں کام کرتی ہوں، سب جگہ بس کھانے میں موبائل۔” ثنا نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا تھا، “اور کیا کروں بھلا؟ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بار بار چیختی رہوں ان کے پیچھے۔” یہ کہہ کر اس نے برتن سمیٹے اور کچن کا رخ کر لیا۔ بچے اسی دوران اپنی اپنی اسکرین میں گم ہو تھے۔ بڑا بیٹا گیم کھیلنے میں ڈوبا ہوا تھا، بیٹی کارٹون دیکھ رہی تھی جس میں ایک جادوئی دنیا اور اس میں رہنے والے جادوئی کردار تھے، جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا ٹک ٹاک کی بے ربط ویڈیوز پر انگلیاں گھما رہا تھا۔ ثنا نے برتن دھوتے ہوئے سکون کا سانس لیا تھا کہ کم از کم کچھ دیر کے لیے تینوں بچے خاموش تو تھے۔
شام ہوئی تو ساری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہی تھی۔ اس کے چھوٹے دیور اور نند اپنے اپنے موبائل فونوں میں مشغول تھے۔ کبھی اس کے ساس اور سسر ان سے کوئ بات کرتے تو وہ اسکرین سے نظر ہٹائے بغیر ہی ہوں ہاں کر دیتے۔ ثنا کی بیٹی ہاتھ میں پنسل لیے ہر چیز پر جادوئی منتر پڑھ رہی تھی جو اس نے کارٹون دیکھ دیکھ کر یاد کر لیے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چھوٹے بیٹے نے ٹک ٹاک پر سنے گئے ٹرینڈنگ گانوں پر اپنی توتلی آواز میں گا گا کر، ڈانس کرنا شروع کر دیا۔ گھر والے قہقہے لگا کر اور تالیاں بجا کر اس کی مزید حوصلہ افزائی کر رنے لگے۔ بچے خوش تھے اور بڑوں کو بھی یہ سب وقتی طور پر خوشی کا سامان لگا رہا تھا، مگر کسی نے یہ نہ سوچا تھا کہ اصل میں بچے کیا سیکھ رہے ہیں۔
ماں باپ یہی سمجھے رہے کہ گیمز اور کارٹون بس کھیل تماشے ہیں، لیکن دراصل بچے جادوئی منتر، ڈانس اور ایسے رویے اپنا رہے تھے جو اسلامی تربیت کے بالکل برعکس تھے۔ یوں ماں باپ اور دادا دادی کی جگہ موبائل ان کی تربیت کر رہا تھا۔
رات کو سارے گھریلو کاموں سے فارغ ہو کر اور بچوں کو سلا کر جب ثنا بیڈ پر آئی تو اس نے دیکھا تھا کہ شوہر موبائل پر اسکرولنگ میں گم تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا، “یار ایک اچھی سی کافی تو پلا دو۔” یہ سنتے ہی ثنا جھنجھلا گئی تھی، “یہی تو میرا می ٹائم ہوتا ہے!” شوہر نے بات ٹالنے کے انداز میں کہا تھا، “اچھا اچھا چھوڑو نا۔” پھر وہ دونوں اپنے اپنے موبائل فونز میں مصروف ہو گئے تھے۔ بے مقصد اسکرولنگ کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ تھکن کے بوجھ تلے وہ سو تو گئے، مگر یہ نیند ایک اور تھکی ہوئی صبح کا پیش خیمہ تھی۔ می ٹائم کے نام پر وہ اپنے رشتوں سے بھی دور ہو گئے تھے اور اپنی صحت سے بھی۔
سدرہ کے گھر کا منظر بالکل مختلف تھا۔ بچے اسکول سے واپس آئے تو اس نے ان کو آواز دی:
“آج دوپہر کے کھانے پر ایک نئی کہانی ہے، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی تھی۔” یہ سنتے ہی بچے دوڑتے ہوئے آ گئے تھے۔ کبھی وہ کھانا لگانے میں ماں کی مدد کرتے، کبھی برتن لاتے۔ پھر سب ایک ساتھ بیٹھے اور مزے سے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانے لگے۔ سدرہ کہانی سناتی رہی اور بچے انہماک سے سنتے رہے۔ کھانے کے بعد اس نے کہا، “اب دیکھتے ہیں آج ریس میں کون جیتے گا!” سب نے خوشی خوشی اپنے برتن سمیٹ کر سنک میں رکھے، پھر کوئی وضو کرنے دوڑا تھا تو کوئی جائے نماز بچھانے۔ تھوڑی دیر میں سب نے مل کر نماز پڑھی۔
شام کو سدرہ چھت پر ٹہلنے نکلی تو بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ وہ بھی ان کے کھیل میں شامل ہو گئی تھی۔ باقی گھر والے بھی چائے پیتے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ ہنسی قہقہوں اور محبت کی فضا گھر کے ہر کونے میں پھیل گئی تھی۔
سدرہ کو جب بھی تھکن یا دباؤ محسوس ہوتا تھا تو وہ موبائل کی بجائے بچوں کے ساتھ کھیل لیتی تھی، شوہر یا بہن کو فون کرکے بات کر لیتی تھی یا ہلکی سی واک کر لیتی تھی۔ اس طرح نہ صرف اس کا دل ہلکا ہو جاتا تھا بلکہ رشتے بھی مزید مضبوط ہوتے تھے۔
رات کو جب اس کا شوہر گھر آیا تو سب ایک ساتھ کھانے پر بیٹھے تھے۔ وہ بچوں کو اپنے دن کے واقعات سناتا اور ان سے ان کے دن کے بارے میں پوچھتا۔ پھر سب نے مل کر کھانا کھایا تھا۔ بچوں کو سلا کر سدرہ بیڈ پر آئی تھی، موبائل ہاتھ میں اٹھایا لیکن صرف فجر کا الارم لگا کر فون رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر بعد نیند نہ آنے پر اس نے کروٹیں بدلیں۔ آخر کار اس نے شوہر کو آہستہ سے جگایا اور کہا:
“مجھے نیند نہیں آرہی، اگر آپ بھی اٹھ جائیں تو میری ہمت بڑھ جائے گی۔ آیئے تہجد پڑھ لیتے ہیں۔” شوہر نے آنکھیں ملتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ دونوں خاموشی سے اٹھے تھے، وضو کیا تھا اور رات کے سکوت میں اپنے رب کے حضور کھڑے ہو گئے تھے۔
یہ دو گھروں کی دو کہانیاں تھیں۔ ایک طرف ثنا کا گھر تھا جہاں سکون اور خاموشی صرف موبائل اسکرین کے ذریعے آتی تھی، لیکن اس سکون کی قیمت تھی: بے مقصدیت، تھکن، صحت کی خرابی اور تعلقات کی کمزوری۔ بچے حقیقت سے دور ہوتے جا رہے تھے، ان کا ذہن کارٹونز اور ٹک ٹاک ریلس کے سحر میں گم تھا، اور ماں باپ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ سب معصوم کھیل تماشہ ہے۔
دوسری طرف سدرہ کا گھر تھا جہاں موبائل موجود ضرور تھا مگر زندگی کا مرکز نہیں تھا۔ کہانیوں، کھیلوں، نماز اور گفتگو کے ذریعے بچے ماں باپ کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔ فیملی ایک دوسرے کو وقت دیتی تھی، ایک دوسرے کے دن کو سنتی اور بانٹتی تھی۔ رات کا اختتام بھی بے مقصد اسکرولنگ پر نہیں بلکہ رب کے حضور کھڑے ہو کر عبادت پر ہوتا تھا۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ ہمارا گھر ان دو گھروں میں سے کس سے مشابہ ہے۔ اگر اس میں ثنا کے گھر کی جھلک ہے، جہاں سکون صرف موبائل کی اسکرین سے آتا ہے اور رشتے پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں، تو یہ لمحہ رکنے اور سوچنے کا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے گھر کے اندر موبائل فری اوقات طے کریں، مثلاً کھانے کے وقت یا نماز کے بعد سب موبائل الگ رکھ دیں۔ بچوں کے ساتھ کہانیاں سنیں، کھیل کھیلیں یا چھوٹی چھوٹی گھریلو ذمہ داریاں ان کے ساتھ بانٹیں تاکہ ان کا وقت مثبت سرگرمیوں میں گزرے۔ اگر بچے ضد کریں تو آہستہ آہستہ اسکرین ٹائم کم کریں، یکدم سب ختم کرنے کے بجائے ان کو متبادل مصروفیات دیں۔ ان کے شور شرابے سے نہ گھبرائیں، یہی شور، آوازیں اور شرارتیں ان کا بچپن ہے، اسکرین تھما کر ان سے انکا بچپن نہیں لیں۔
اپنا اسکرین ٹائم بھی خود کنٹرول کریں تاکہ بچے عملی نمونہ دیکھیں۔ اگر آپ کا شریکِ حیات بھی موبائل کا عادی ہے تو جھگڑنے کے بجائے نرمی سے بات کریں، کبھی ساتھ واک پر نکل جائیں یا ساتھ بیٹھ کر دن کے بارے میں گفتگو کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب دل بہت بوجھل ہو یا تھکن زیادہ لگے تو موبائل پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ذکر، تلاوت یا اپنے قریبی لوگوں سے بات چیت کر کے دل کو سکون دیں۔ یہی وہ چھوٹے چھوٹے قدم ہیں جو گھر کو ثنا کے بجائے سدرہ کے گھر سے مشابہ بنا سکتے ہیں، جہاں سکون اسکرین کی چمک سے نہیں بلکہ رشتوں کی گرمی اور اللہ کے ذکر سے آتا ہے۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم خود کو، اپنے بچوں کو، اور اپنے گھر کو ثنا کے ماڈل پر چلاتے یا سدرہ کے ماڈل پر۔
دو گھروں کی کہانی
















