پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل میں قید سے رہائی کے لئیے ان کے گھر والے اور پاکستانی عوام عافیہ موومنٹ کے جھنڈے تلےبائیس سال سے جدوجہد کررہے ہیں ، ہر مرحلے پر گاڑی کہیں اٹکی ہوئی نظر آتی ہے اور تلاش کرنے پر پتا چلتا ہے کہ گاڑی کے بریک پر اپنوں ہی کا پاؤں ہے، عافیہ کے اغوا ،اسے ڈالروں کے عوض امریکیوں کے حوالے کرنے، باگرام سے امریکا لے جانے ، امریکا کی جعلی عدالت میں جھوٹے مقدمے سے لے کراس کو چھیاسی برس کی سزا تک ایک ہی کہانی ہے اور وہ ہے ،،،،
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
کے مصداق ہر مرتبہ حکومت پاکستان ،دفتر خارجہ ، سفیر ،سفارتخانہ یا سرخ فیتہ ،اڑےآتا رہا ہے ،لیکن کبھی براہ راست انکار یا فرار کی نوبت نہیں آئی، عافیہ کو فروخت کرنے والے جنرل پرویز کے دور میں بھی ظفر اللہ جمالی کے منہ سے کلمہ خیر نکل ایا تھا ،پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورمیں بھی عافیہ کو پاکستانی شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتے کرتے بھی اسے قانونی معاونت دینے اور وکیل کی فیس ادا کرنے کا احسان دھرتے رہے ، وزیر داخلہ رحمن ملک بھی قوم کی بیٹی کہتے رہے اور اس دورمیں کچھ پیشرفت بھی ہوئی ، قاضی حسین احمد کا دباؤ بھی تھا اور علمائے کرام کا دباؤ بھی عوام کا احتجاج الگ جاری تھا ، لیکن تاریخ شرمندہ ہے ، عافیہ کا خاندان رنجیدہ ہے اورقوم حیران ہے کہ عافیہ ، مستقل جیل میں ہے، اس پر مظالم مسلسل جاری ہیں، سزا میں کوئی تخفیف نہیں ،اس کو طبی سہولیات نہیں دی جارہیں ،بین الاقوامی قوانین کے تحت جینیوا کنونشن اور قومی ذمہ داریوں کے تحت ایک پاکستانی شہری کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جارہا اور پاکستانی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دیدی کہ ہم نے عافیہ کے لئیے سب کچھ تو کر لیا ہے اس لئیے اب عافیہ کی وطن واپسی کے لئیے دائر پٹیش کو غیر موثر اور غیر ضروری قرار دے کر خارج کردیا جائے ، اب تک عافیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ پاکستانی حکومتوں ہی نے تو کیا ہے ۔
دفتر خارجہ کے بقول حکومت نے سب کچھ کرلیا ہے تو عافیہ پاکستان کیوں نہیں آئی ،اسکی سزا کیوں ختم نہیں ہوئی اگر سب کچھ کرلیا ہے توکوئی ایسا کام نظر بھی انا چاہئیے جو کرلیا گیا ہے ، لیکن ظاہر ہے کچھ کیا ہی نہیں ہے تو نظر کیا ائے گا ، ہاں وہی نظر آئے گا اور آرہا ہے جو کیا گیا ہے،
اگر دیکھا جائے تو حکومت کا دعوی اس اعتبار سے درست ہے کہ اس نے سب کچھ کر لیا ۔ پاکستانی حکمرانوں نے عافیہ کو پاکستان سے اغوا کرنے کے لئیے سب کچھ کیا اور اس کا نتیجہ بھی حاصل کیا ،پاکستانی حکمرانوں نے عافیہ کو بیچنے کے لئیے ڈسلر مانگے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے، پاکستانی حکمرانوں نے عافیہ کے جعلی مقدمے سے لاتعلقی رکھی اور اس کو سزا سنوانے میں بھرپور مدد کی ،اور اس میں کامیاب بھی ہوئے،جب پاکستانی قوم سڑکوں پر نکلی ہوئی تھی اور امریکا میں بھی احتجاج ہورہا تھا اس وقت عافیہ کی امریکی وکیل ٹینا فوسٹر نے بتایا کہ پاکستانی صدر، وزیر اعظم،وزیر خارجہ یا آرمی چیف امریکی صدر کو ایک خط لکھ دیں کہ عافیہ پاکستانی ہے اس کی سزا معاف کرکے اسے پاکستان کے حوالے کیا جائے تو عافیہ کی پاکستان آمد صرف چند روز میں ممکن ہو جائے گی۔
لیکن اس وقت بھی کوئی حرکت نہیں ہوئی ، پتا نہیں لکھنا نہیں اتا ،انگریزی نہیں آتی تھی یا ہمت نہیں ہوسکی، بہر حال خط نہیں لکھا جاسکا، اور یہ خط لکھنے کا مسئلہ آج بھی مسئلہ ہی بنا ہوا ہے ،اگرچہ شہباز حکومت کے دور میں ڈاکٹر عافیہ اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات کروادی گئی ،یہ ایک تاریخی موقع تھا گزشتہ دودہائیوں میں کسی ہاکستانی حکومت کی جانب سے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھایا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر اسی حکومت کی وزارت خارجہ نے اچانک اس سے بڑا یو ٹرن لیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ موقف اختیار کیا کہ عافیہ کے لئیے بہت کچھ کرچکے اب کیس ختم کیا جائے ،یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے ۔چند ماہ قبل یہی حکومت ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کی ملاقات کرواکر تاریخ رقم کررہی تھی وہ اچانک اتنا بڑا یوٹرن کیسے لے سکتی ہے ؟
ہمارے نظام میں جب کسی یوٹرن ، کسی پالیسی میں اچانک تبدیلی یا کوئی پراسرار فیصلہ ہو تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ سب کہاں سے ہورہا ہے اور کون کررہا ہے لیکن کہنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا، یعنی جانتے سب ہیں بولتا کوئی نہیں۔
اب عافیہ موومنٹ والوں کو خوب سوجھی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ جو زبان یا جن لوگوں کی زبان سمجھتا ہے انہیں اسی ذریعہ سے بات سمجھائی جائے چنانچہ، ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کلافورڈ پاکستان آکر دفتر خارجہ، حکومت پاکستان کے عہدیداروں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے کارپردازوں سے مل کر انہیں کوئی راہ سجھائیں گے، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات ۔
کیونکہ کلائیو اسمتھ امریکی نظام میں رہتے ہوئے امریکی نظام سے لڑ رہے ہیں اور گوانتا نامو بے سے درجنوں بے قصوروں کو رہائی دلواچکے ہیں, سزائے موت کے قیدیوں کو بھی رہا کرایا ہے اور دنیا بھر میں ان کے لیکچرز ہوتے ہیں انہوں نے عافیہ کیس دیکھنے کے بعد عافیہ کی پیروی رضاکارانہ طور پر کرنے کی پیشکش کی ، اور مسلسل اس بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، پاکستانی دفتر خارجہ کے موقف پر سخت حیرت کا اظہار کیا اور اسے غیر متوقع قرار دیا ،اب وہ مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان آئیں گے ،اور عدالت میں پیشی کے ساتھ دیگر رابطوں اور سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں گے ۔یہ بات اب ہر پہلو سے واضح ہوچکی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور باعزت وطن واپسی میں بڑی رکاوٹ پاکستان ہی میں ہے امریکی قوانین اور نظام میں تو سزائے موت کے قیدی بھی رہا ہو جاتے ہیں ،عافیہ کا تو مقدمہ ہی جعلی ،سماعت یکطرفہ اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے بے اعتنائی اور لاتعلقی کی وجہ سےخراب ہوا لیکن اب تو ایسا موقف اختیار کیا گیا ہے جو قومی غیرت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے ،سو بار سوچ کر بھی بالفرض محال اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ عافیہ پر سب الزامات درست، اس کا مقدمہ جائز اس کی سزا درست تو بھی کوئی بھی ملک اپنے شہری سے اس طرح لا تعلقی کا اظہار نہیں کرسکتا ،اسے بے حسی ، خوف، غداری ، یوٹرن یا سودا بازی کچھ بھی کہہ لیں یا اس سے بڑھ کر ایسے روئیے کو دنیا بے غیرتی ہی سے تعبیر کرے گی ۔اگر سودا بھی کیاہے تو کیا ملا ،
ع ، حمیت نام تھا جس چیز کا گئی تیمور کے گھر سے
اب سوال یہی ہے کہ کیا ہونا چاہئیے، حکومت کیا کرسکتی ہے ،عوام کیا کرسکتے ہیں، عافیہ موومنت کیا کرسکتی ہے سوائے حکومت کے ہر ایک کے بارے میں یقین ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہے ، حکومت کے لئیے بس اتنی درخواست ہے کہ،یہ قومی غیرت کا مسئلہ ہے حکومت اپنی زندگی کا ثبوت دے ،اس میں زندگی کی رمق باقی ہے تو اس کا ثبوت دے سب راستے خود بخود کھل جائیں گے،سب سے بڑھ کر قوم پشت پر ہوگی ۔
خوف نقصان فائدے سودے اس معاملے میں نہیں دیکھے جاتے ،آپ زندہ ہیں تو سب ٹھیک ہے اقبال نے اسی کی تر جمانی اس طرح کی ہے ۔
برتر از اندیشہ سودو زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں، ہردم جواں ہے زندگی
(حکومت سے سوال)
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ، ضمیر کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
( حکمرانوں کو مشورہ)
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور ازادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
اب ہمارے حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ثبوت کس طرح دیتے ہیں۔امریکا آئی ایم ایف اور مغربی آقاؤں کی بندگی کر کے محدود ہوجانا چاہتے ہی یا ازاد قوم بن کر بحر بے کراں بننا چاہتے ہیں۔