قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت، زندگی ،رہائی اور وطن واپسی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ ماہ ایک اہم موڑ آیا جب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹسز کا حتمی جواب مانگا گیا تھا ،کہ اچانک جسٹس سردار اعجاز اسحق خان سے کیس لے کر جسٹس راجا انعام امین منہاس کو دے دیا گیا ، جنہوں نے پہلی سماعت کے روز سماعت سے انکار کرتے ہوئے چیف جسٹس کو واپس کردیا کہ اس پر لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اعظم خان، جناب جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جناب جسٹس راجا انعام امین منہاس پر مشتمل بنچ تشکیل دیا گیا ،یہ سوال بہر حال اپنی جگہ رہے گا کہ یہ اقدام کیوں کیا گیا ،اور کیا اس کا مقصد حکومت کو توہین عدالت کی کارروائی سے بچانا مقصود ہے یا اصل مسئلہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اورواپسی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ عزائم خواہ کچھ بھی ہوں نتیجہ تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی میں رکاوٹ ہی کا نکلے گا۔
اس فیصلے پرسول سوسائٹی اور ملکی حلقوں میں سخت تنقید ہورہی ہے اور اسے انصاف کے قتل کی کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے، ظاہر ہے انصاف میں تاخیر انصاف کاقتل ہی کہلائے گی۔
اگرچہ لارجر بنچ بن گیا ہے جسٹس راجا انعام نے لارجر بنچ کیوں بنوادیا ،شاید وہ کسی دباؤ کا تنہا سامنا نہیں کرپارہے ہوں، یا کسی غیر متوقع فیصلے کا بوجھ تنہا سہارنے کی پوزیشن میں نہ ہوں اسلئیے کئی ججوں پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، ممکن ہے یہ بھی منقسم فیصلہ دے کر مقتدرہ کا مقصد بھی پورا کردیں اور عدلیہ کی ساکھ بھی بچانے کی کوشش کریں ، لیکن اگر ایک جج نا انصافی کرے یا لارجر اور فل بنچ کے تمام جج ناانصافی کریں ،یہ کہلائے گی تو ناانصافی ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی اور رہائی کے معاملے میں حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی غائب ہوگئی، یہ اور بات ہے کہ عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئیے درخواست دائر کر دی ہے اور حکومت پاکستان اس کیس میں تعاون سے جتنا فرار ہورہی ہے اس سے کہیں زیادہ اسے امریکی عدالت میں تعاون کرنا پڑے گا۔ اور وہ مزید پھنسے گی ،ابھی اگر حکومت یہ تعاون کرلیتی تو امریکی عدالت کے ابتدائی سوالات سے بچ سکتی تھی جن میں عافیہ کے اغوا،افغانستان پہنچائے جانے اور امریکی انتظامیہ کے ہاتھوں اس کی فروخت وغیرہ جیسے امور شامل ہونگے ۔
اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بنچ میں شامل ججوں کا امتحان ہے کہ وہ انصاف کا بول بالا کرتے ہیں یا عدالت کے باہر سے آنے والے دباؤ کو قبول کرکے انصاف کے قتل میں حصہ ڈالتے ہیں ۔بہرحال قوم کو توقع ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا لارجر بنچ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے لئیے اپنا کردار اداکریگا،
لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ معاملہ امریکی عدالت ہی میں جائے گا اور ڈاکٹر عافیہ کو وہیں سے انصاف ملے گا، آج لارجر بنچ کے سامنے پہلی سماعت ہے ،اس روز ہی ججوں کا انداز بہت اہمیت کا حامل ہوگا ،ممکن ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنے مخصوص انداز اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی میں اہم کردار اداکرے، لیکن ڈاکٹر عافیہ کا کیس ابتدا ہی سے پیچیدہ ہے ، اور حکومتوں کا رویہ عدم تعاون کا ہے ، لیکن دیگر حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت کا رویہ نہایت عجیب و غریب ہے اور یہ پل میں تولہ پل میں ماشہ کے مترادف ہے۔ ایک جانب حکومت کا ہر وزیر ڈاکٹر عافیہ کو قوم کی بیٹی، اپنی بیٹی اور قوم کی عزت قرار دیتے نہیں تھکتا لیکن دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھا گیاخط پاکستانی سفارتخانے سے امریکی صدر تک نہیں پہنچ سکا ،اور جب پہنچا تو تاخیر سے بھی زیادہ تاخیر ہوچکی تھی ، اور کلائیو اسمتھ اور دیگر امریکی معاونین کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا ۔اب ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو ایک خط لکھنا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں امریکی عدالت میں تعاون کرے گی ، لیکن جوں ہی یہ خط لکھنے کو کہا گیا حکومت تولے سے ماشہ بن گئی اور کیس ہی لپیٹنے کی درخواست کردی یہ تک کہہ دیا کہ عافیہ کے لئیے حکومت پاکستان نے بہت کچھ کرلیا، لیکن وہ یہ نہیں بتاسکے کہ بہت کچھ سے کیا مراد ہے ، کیا عافیہ رہا ہوگئی ، کیا عافیہ کو ڈاکٹر ،عالم دین کی معاونت اور گھر والوں سے ملاقات کی سہولت میسر آگئی ،یا اس پر تشدد بند ہوگیا کوئی کام تو نہیں ہوا پھر یہ نہیں کہا جاسکتا یا اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت نے عافیہ کے لئیے بہت کچھ کرلیا ہے بلکہ یہی زیادہ درست ہے کہ عافیہ کے ساتھ سب کچھ پاکستانی حکومتوں ہی نے کیا ہے، پھر بھی پاکستانی قوم کی امیدیں اسلام آباد ہائی کورٹ سےجڑی ہوئی ہیں کہ شاید انصاف کا راستہ آسان کردیا جائے ،
یہ حقیقت بھی اب میڈیا میں آچکی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس میں اختلافات ہیں اور وہ اب سرعام زیر بحث ہیں، یہاں کورٹ کی انتظامیہ اور ججز کا مکالمہ بھی سامنے آچکا جس میں کہا گیا ہے کہ نئے قواعد کی منظوری میں سینئیر ججز کے تحفظات نظر انداز کئیے گئے ، جبکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تمام ججز شامل تھے، ظاہر ہے دو میں سے ایک بات درست ہے ، لیکن تیسری بات زیادہ درست ہے کہ عدالتوں پر باہر سے دباؤ ہے اور یہ اختلافات بھی اسی دباؤ کا نتیجہ ہیں ، اب تو عافیہ کیس سے زیادہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اپنی ساکھ اور عدلیہ کے وقار کاسوال پیدا ہوگیا ہے۔
عدلیہ میں اختلافات پہلے تو رائے کے اختلاف کی حد تک ہوتے تھے لیکن اب بات بہت آگے جاچکی ہے ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کارروائی اور اس کا فائدہ دوسرے ججز کو ملنے کے بعد سے صورتحال خراب سے خراب ہوتی جارہی ہے عدالتی ساکھ اس وقت بہت بہتر ہوگئی تھی جب چھ ججز نے خط لکھا تھا لیکن یہ آگ عدالت عظمی تک پہنچی اور ایک جج کو روکنے کے لئیے آئینی عدالت بنادی گئی ،اب یہ ججز جن کو فائدہ ہوا ہے اور وہ جن کو حق سے محروم کیا گیا ہے دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں ۔ دونوں ہی کسی حکومتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار نہیں دے پائیں گے ۔ اب بھی عدالت عظمی میں مسائل موجود ہیں ، اور اگر ججز مطمئن نہیں تو وہ انصاف کیسے دیں گے۔ یہ بھی محل نظر رہے کہ یہ اطمینان تنخواہوں یا مراعت سے تعلق نہیں رکھتا، اب یہ معاملہ بہت بہتر ہے ۔لیکن عدالت عظمی کے چار ججوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ ہم فل کورٹ میں شریک نہیں ہونگے۔ عدالتی رولز کی سرکلر کے ذریعے منظوری پر تحفظآت کا اظہار کیا گیا ہے،اس خط سے بھی ظاہر ہورہا ہے کہ عدلیہ میں اختلافات ہیں اورخوب سمجھ میں آرہا ہے کہ سارا معاملہ عدالت کے باہر کا ہے اندر کا نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ عدلیہ اپنی ساکھ بحال کرلے ،ورنہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کا تبصرہ تو گھر کی گواہی ہے ، لوگوں کو فوری انصاف نہیں مل رہا۔ ہم تو کہیں گے کہ فوری نہیں عدالتوں سے انصاف مل ہی نہیں رہا۔
ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ حکومت کا گھناؤنا کھیل
















