پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جرم بے گناہی میں 22 سال قید کاٹ چکی ہے ،عافیہ کی رہائی کے لئیے پہلے پہل انفرادی کوششیں کی گئیں ،سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اواز اٹھائی، پھر ایک ایک کرکے عافیہ کے دوبچے مل گئے ،جدوجہد میں تیزی آئی اور اس دوران عافیہ رہائی کی جدوجہد کو باقاعدہ تحریک کی شکل دیکر اسے عافیہ موومنٹ بنادیا گیا، جدوجہد جاری ہے قدم بڑھ رہے ہیں ، لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ جوں ہی کہیں سے عافیہ کی رہائی کی امید پیدا ہوتی ہے اسی وقت کوئی نیا شوشا چھوڑدیا جاتا ہے۔یا کوئی پراسرار قوت بریک پر پاؤں رکھ دیتی ہے،اس حوالے سے مختلف پہلوؤں پر بات ہوتی رہتی ہے ،ابتدا میں بلکہ اب تک بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہی خدشات ہیں کہ 1،عافیہ نے کچھ نہ کچھ کیابوگا ،2،عافیہ امریکی اور پاکستانی دوہری شہریت کی مالک ہے ،3،امریکا اسے رہا نہیں کرنا چاہتا ،4،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عافیہ آئی تو ایک ایک بات بتائے گی کہ کس نے اغوا کیا ،بگرام میں کیا ہوا، امریکا میں کیاہوا، وغیرہ وغیرہ ۔
ہم آخری بات ہی سے شروع کرتے ہیں کیونکہ بقیہ تمام باتوں سے متعلق عافیہ کے بارے میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں ، اس کی صرف پاکستانی شہریت ہے ، کچھ غیر قانونی نہ کرنے کا ثبوت ہے، مقدمے میں اس کی بے گناہی کا ثبوت، اور پاکستان سے اغوا کا ثبوت، اصل چیز جس کا ذکر کم کیا جاتا ہے اب وہ بھی سامنے آرہی ہے اور جب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کےجج سردار اعجاز اسحاق نےعافیہ کیس میں وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس کیا ہے اس کے بعد سے یہی سامنے لایا جارہا ہے کہ پاکستان کا مقتدر طبقہ اس بارے میں خدشات کا شکار ہے کہ عافیہ رہا ہوگئی تو سب بتادے گی۔اس پر مختلف آرا ہیں ہمارے ایک محترم دوست نے لکھا ہے کہ
” ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی سے پاکستانی سرکار اور اسٹبلشمنٹ کو کیا خطرات و خدشات لاحق ہو سکتے ہیں؟ وہ لکھتے ہیں کہ
“جب گوانتا نامو جیل میں قید بہت سے دیگر ممالک کے قیدیوں کی رہائی اور ان کو ان کے اپنے وطن کے حوالے کرنے کے بارے میں فیصلہ ہوا تو بہت سے ممالک نے اپنے ان شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا جن میں سر فہرست عرب ممالک تھے اور کچھ قیدیوں کو خود امریکہ نے ہی ان کے اپنے ملک کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جیسے چین کے ایغور قیدی اور اس بارے میں توجیہ یہ کی ان ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال نہایت ابتر ہے اور خدشہ ہے کہ ان قیدیوں کو ان حالات میں ان ممالک کے حوالے کرنے سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔۔ ایک طرف امریکہ کو یہ خدشات لاحق تھے کہ چین کے حوالے اگر ان کے یہ قیدی کر دیے جائیں تو وہ بہت سی حساس نوعیت کی معلومات ان قیدیوں سے بھی حاصل کر سکتا ہے اور پھر یہ بھی کہ اس حساس نوعیت کی معلومات کے حصول کے بعد ان کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے جس سے ایک طرف خود چین میں چلنے والی بعض علیحدگی پسند تنظیموں اور تحاریک پر بھی اثر پڑ سکتا ہے
جن ملکوں نے خود اپنے قیدیوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا تھا ان کا موقف یہ تھا کہ یہ واپس آئے ہوئے قیدی ان کی حکومتوں کے لئے ایک مستقل درد سر کی حیثیت اختیار کر لیں گے ۔۔۔ اور آئے دن ایک نیا اسکینڈل ۔۔ نیا بیان ۔۔۔ اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کے امریکہ سے خفیہ تعلقات ۔۔۔ اپنے شہریوں کی خرید و فروخت کے لئے لی جانی والی رقوم اور بہت سے معاملات کو طشت از بام کرتے رہیں گے ۔۔
جن ممالک میں نام نہاد جمہوریتیں ہیں وہاں صورت حال مزید خراب تھی کہ اس قسم کے واپس ائے ہوئے قیدیوں کو حزب اختلاف ہر مہم کا مرکزی کردار بنا کر رکھے گی ۔۔۔ میڈیا ان کے گھروں کے اگے ڈیرے ڈال رکھے گا اور آئے دن ان کے انٹرویوز سارے سیاسی نظام کی تباہی اور عدم استحکام کا سبب بنیں گے لہذا ان ممالک نے ان کو واپس لینے سے انکار دیا۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ۔۔ گوانتا نامو بے سے جڑی ہوئی بہت سی ظلم کی داستانیں طاق نسیاں کی نذر ہو گئیں ، قیدیوں کو بھی اکھٹے رہا کرنے کے بجائے الگ الگ اور وقفہ وقفہ سے رہا کر دیے گئے تو کچھ پاکستانی قیدی بھی پاکستان واپس ائے لیکن چوں کہ وہ اتنے خبروں میں نہیں رہے تھے لہذا خاموشی سے ایک عام ذندگی کا حصہ بن گئے ۔۔ چوں کہ عافیہ صدیقی صاحبہ کا معاملہ ابھی تک روز اول کی طرح تر و تازہ ہے اور” ایک سیاسی و مذہبی جماعت” ان کے پیچھے کھڑی ہے ، بظاہر لگتا ہے کہ اس وجہ سے ان کے بارے میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ان ہی خدشات سے دو چار ہے۔ :”
یہی بات جناب اوریا مقبول جان بھی فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ ہے۔وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مقتدر قوتوں کو خطرہ ہے ،اور یہ بات درست بھی ہے کہ “طعی واقف نہیں کہ عافیہ کی رہائی کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ سے نہیں مانگا یا دیا جارہا ہے ،بلکہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے امریکی عدالت کودرخواست دی ہے کہ انسانی بنیادوں پر عافیہ کو رہا کیا جائے ،اس میں معاونت کے لئیے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایمائکس بریف پر دستخط کردیں ،یعنی جینیوا کنونشن کے تحت ہر ملک اپن٪ے باشندے کو دوسرے ملک میں معاونت فراہم کرنے کا پابند ہے ،اس پر دستخط کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت پاکستان سے پیسے مانگے جارہے ہیں، بالفرض حکومت دستخط نہ بھی کرے تو بھی مقدمے کی کارروائی تو ہوگی اور امریکی وکیلوں کو اعتماد ہے کہ عافیہ کو رہا بھی کردیا جائے گا ، سوال یہ ہے کہ پھر حکومت پاکستان کہاں کھڑی ہوگی، ایمائکس بریف پر دستخط سے ماضی کریدنے کے امکانات ختم ہوجائیں گے ، جس سے ہمارے حکمران خوفزدہ ہیں ،پھر بات صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہوگی۔
اور یہ کہ حکومت پاکستان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ کس کو خط لکھے اور کسے نہیں ،اور یہ کہ خط لکھا گیا تھس لیکن بسئیڈن نے جواب نہیں دیا ، یہ بھی مرلوم کریں کہ خط لکھ کر کہاں، کب بھیجا،اور کب بائیڈن تک پہنچس کہ وہ جواب بھی نہ دے دکے، امریکا سے لاکھ شکایات سہی لیکن وہ وقت پر ملنے وسلے ہر خط کا جواب فیتے ہیں، دیکھا جدئے کہ خط کہاں معلق رہا ، کس نے تاخیر کی ۔ ایسے تمام صحافیوں، کالم نگاروں ،اور دانشوروں کے لئیے آسان نسخہ ہے عافیہ موومنٹ کے ذمہ داروں یا ان کی بہن سے اپنے سوالات پوچھ کر معلومات تو درست کرلیں ۔
ایک پہلو ذرا وضاحت طلب ہے بلکہ یاددہانی کا متقاضی ہے کہ ایک سیاسی ومذہبی جماعت عافیہ کیس کے پیچھے ہے۔ نہیں ایسا نہیں
صرف ایک سیاسی و مذہبی جماعت اس کے پیچھے نہیں ہے،ترتیب وار یادکریں۔
۔۔پی ٹی آئی کے عمران خان نے ایوون ریڈلی کے ساتھ عافیہ کی بگرام میں موجودگی کا انکشاف کیا تھا ،
۔۔ جماعت اسلامی کےقاضی حسین احمد نے تمام حلقوں میں آواز اٹھائی تھی،
۔۔عافیہ کے بیٹے احمد کی موجودگی کی اطلاع پر حکومت کو احتجاج کی دھمکی دی تھی۔
۔۔ پیپلز پارٹی کے رحمن ملک احمد کو لے کر آئے تھے ۔
۔۔مسلم لیگ کے نواز شریف نے عافیہ کو قوم کی بیٹی کہا ،
۔۔موجودہ مسلم لیگی حکومت نے تاریخ میں پہلی بار عافیہ کی ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات کرائی اور وکلا اور کونسلرز تک رسائی دلوائی۔
۔۔مسلم لیگ کے نہال ہاشمی مسلسل ساتھ دیتے رہے۔
۔۔جے یو آئی کے سینیٹر طلحہ محمود اب بھی ساتھ ہیں۔
مفتی رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی نے مستقل آواز اٹھائی۔
اب بتائیے کون سی رکاوٹ ہے ۔
جس دن عافیہ رہا ہوکر آئی اس روز سارے میدان میں ہونگے کہ ہم بھی تھے ، بلکہ کہیں گے کہ ہم ہی تھے ۔بلاشبہ سیاسی جماعتوں میں سب سے توانا اور مسلسل آواز جماعت اسلامی کی ہے لیکن موجودہ حکومت اگر عافیہ کو لے آئی تو یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکے گا ، جیسے ایٹمی دھماکوں کے حق میں پوری قوم تھی لیکن دھماکوں کا کریڈٹ تو اس وقت کی حکومت ہی کو ملا ۔لہذا عافیہ کی رہائی کے امکانات کو خدشات کے ذریعہ معدوم نہ کریں اصل چیز رہائی ہے ، حکمران بھی ہوش کے ناخن لیں خصوصا شہباز شریف حکومت نے جہاں اتنا کیا ہے کہ ملاقات بھی کرادی اور قوم کی بیٹی بھی مانتے ہیں تو تعاون پر راضی ہوجائیں ، حکومت بھی بچ جائے گی اور عزت بھی۔ اور اسٹبلشمنٹ کو تو سنہری موقع ملا ہے عافیہ کو خود لے کر ائیں اور اپنے خلاف سارے الزامات دھودیں۔یہ سارے لوگ عافیہ کی جگہ اپنی بہن بیٹی بیوی یا ماں کی تصویر لگائیں اور خود سے سوال کریں کہ اگر عافیہ کی جگہ یہ ہوتی تو میں کیا کرتا۔ بس اسی میں سارے جواب ہیں۔