Advertisement

آئینی ترامیم یا انتقامی ترامیم

پاکستانی پارلیمنٹ نے 1973 میں متفقہ طور پر ایک آئین منظور کیا تھا اور اس کی متفقہ منظوری میں اگرچہ اپوزیشن کا خصوصی کردار تھا،لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت سارا کریڈٹ خود لیتی رہی ہے ، اور اب اس متفقہ آئین کا حلیہ بگاڑنے میں بھی یہی پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر جوڑ توڑ کررہی ہے ، اس چکر میں مفادات سمیٹنے والی جماعتوں کا ریٹ بڑھ گیا ہے کیونکہ حکومت کے نمبر پورے کرنے کے لیے دودو اور چار چھہ نشستوں والی پارٹیوں کی اہمیت بڑھ گئی ۔ چنانچہ شرائط منواکر مفادات سمیٹے گئے ، نمبر یا مفادات کے کھیل میں ائینی عدالت سے آئینی بنچ تک کا سفر طے ہوا ، یہ دوسری پسپائی تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے ترمیم کے بارے میں کہا تھا کہ عدالتی اصلاحات بہر صورت لائیں گے‘کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔
یہاں پہنچ کر بلاول نے آئینی ترمیم کا اصل مقصد بیان کیا کہ وہ دراصل اپنی والدہ کے خلاف عدالت کے فیصلوں کا انتقام لینا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے 90 کی دہائی میں بے نظیر کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا، میں عدلیہ کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں، عدلیہ نے کیا کیا؟ مشرف کو تحفظ دیا، جو عدالت آئین کی محافظ ہے وہی عدالت ایک جنرل کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آئین بنائے اور ہم انہیں مائی لارڈ کہیں ؟ وہ اس قدر غصے میں تھےکہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا کہ ہم برابری نہ لے سکیں، افتخار چودھری نے ایسا نظام وضع کیا کہ کسی کو انصاف نہیں ملا ہاں جج کو مل جاتا ہے، لیکن وہ شوکت عزیز صدیقی کو بھول گئے ۔کہتے ہیں سکھر جیل میں ہماری خواتین بند کی گئیں‘ ہمارے والدین کو جیل میں رکھا گیا، ہمارے مقدمات سکھر سے اسلام آباد منتقل کردیے گئے اور آپ کہتے ہیں ہم کہیں مائی لارڈ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا طریقہ مفاہمت کی سیاست کا ہے تو یہ سمجھتے ہیں ہم ہر ظلم بھول گئے؟ ہم حساب لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ وقت آئے گا جب ہر ظلم کا جواب دینا ہوگا۔
تو یہ ہے آئینی ترامیم کرکے عدلیہ کا بیڑا غرق کرنے کا پس منظر ، یعنی یہ آئینی ترمیم نہیں انتقامی ترمیم ہے ، اور انتقامی جذبے سے جو کام کیا جائے اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ یہ جو نیب ترامیم ہیں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہیں یہ سب کسی کے خلاف استعمال کی نیت سے بنائی گئیں اور ان کے قانون میں ترمیم کی گئی یہ قوانین اور ترامیم بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں ،بلاول زرداری تو کھل کر،سامنے آگئے ہیں وہ عدالتی نظام کی اصلاح نہیں کرنا چاہتے عدلیہ سے انتقام لینا چاہتے ہیں، اور اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت اپنی مرضی کا عدالتی نظام لانا چاہتی ہے،شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقا دکے دوران یقیناً ملک میں پُر امن ماحول ہونا چاہیے لیکن اس کی آڑ میں اگر آئینی ترمیم لا کر حکومت اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہے تو یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ہم آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں ، تمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اس پر گفتگو ختم کر دینی چاہیے ، ہماری اپوزیشن جماعتوں سے درخواست ہے کہ آئینی ترمیم کے اس گورکھ دھندے میں نہ پڑیں ۔
موجودہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے اور نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد آئینی ترمیم پر بات چیت کی جائے ۔ فوج ، عدلیہ ، پارلیمنٹ اور بیورو کریسی سمیت تمام اداروں کو آئین کی پابندی کرنی چاہیے ۔ بلاول اچھی طرح جانتے ہیں کہ 73 کے آئین کی متفقہ منظوری میں جماعت اسلامی کا کردار نہایت اہم تھا اراکین تو اس کے چار تھے لیکن انہوں نے اپنی بولی نہیں لگوائی اور نہ قیمت وصول کی بلکہ قومی مفاد کو مقدم رکھا اور آئین منظور کروایا،حافظ نعیم کا تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشورہ صائب ہے ،صاف نظر ارہا ہے کہ سارا کام قومی مفاد کے بجائے بد نیتی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے ،اپنی مرضی کی عدالت بنا کر عدالتی نظام تباہ کیا جارہا ہے ،اور جن ممالک میں عدلیہ کام نہیں کرتی ان کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔ عدلیہ سے حکمرانوں کا خوف بتارہا ہے کہ وہ اصلاح نہیں فساد چاہتے ہیں ۔ دیکھتے ہیں آئینی بنچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔بظاہر تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ملکی ترقی میں عدالت عظمی رکاوٹ ہے یہ ہٹ جائے تو ملک ترقی کرے گا سپر پاور بنے گا ، ڈالر دو روپئے کا ہو جائے گا پیٹرول دس روپئے لیٹر ہوجائے گا۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ،کچھ دن بعد یہی لوگ عدالت کو یاد کرکے روئیں گے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: