ثمرین ندیم ثمرصاحبہ کے شاعری کے مجموعہ ”آرزوکادیا“ کی تقریب رونمائی فروری2025میں آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی۔ ہم بھی وہاں موجودتھے۔ہمارے ایک دکنی دوست کی ان کے شوہرسے کچھ رشتہ داری تھی۔ پتاچلاکہ شاعرہ کے شریک حیات دکنی ہیں۔یہ بھی پتا چلاکہ وہ بینکرہیں،کئی سال دبئی میں گزارکرقطر کے کسی بنک سے وابستہ ہیں۔
اس میں تحریرشدہ ایک مضمون کے مطابق یہ ان کا دوسرامجموعہ ہے۔بہت اعلیٰ معیار کی طباعت،نفیس کاغذ،بہت معیاری سرورق اوراس پرنقش کی گئی خوبصورت عکّاسی کتاب کی خوبیوں میں شامل ہے۔تین سو(300)صفحات پرمشتمل کتاب میں چالیس (40)صفحات پراکابرین کے مضامین ہیں،ان میں ڈاکٹرشاداب احسانی (سابق صدر شعبہ اردوجامعہ کراچی)،خواجہ محمداکرم(جواہرلعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی بھارت)، ڈاکٹر مقصود جعفری، اسلام آباد،ڈاکٹرذکیہ رانی، اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،جامعہ کراچی،عبدالسلام عارف،کینیڈا، اشتیاق میر،لیڈز، یوکے،کے ساتھ صاحبہ کتاب (شاعرہ ہیں توصاحب کتاب کی جگہ صاحبہ کتاب لکھناچاہیے)کے مختصر تاثرات درج کیے گئے ہیں۔فلیپ اور عقب میں ان ہی احباب کے مضامین سے اقتباس شائع کیے گئے ہیں۔
کتاب میں حمدیہ رباعی، نعتیہ قطعہ اور دیگر قطعات کے ساتھ چندنظمیں جوزیادہ ترغزل کے پیرائے میں ہیں۔اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں غزلیں شامل ہیں۔ لگتاہے غزل شاعرہ کی پسندیدہ صنف ہے۔
تقریب رونمائی کی محفل بہت عمدہ طور پرسجائی گئی تھی۔بہت سارے مقررین تھے لیکن شکرہے سب نے اختصارسے کام لیا۔ تقریباً نوے (90)فیصد کرسیاں سامعین سے پرتھیں۔عام طور پر تقریب کے اختتام پرلذت کام و دہن کاانتظام کیا جاتا ہے۔ سامعین جوتقاریرسے اکتائے ہوئے ہوتے ہیں۔میزپرٹوٹ پرتے ہیں۔ اکثر نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ لیکن یہاں لنچ بکس(رات کی تقریب کے حوالے سے اسے ڈنر بکس یاعشائیہ بکس کہاجاسکتاہے)کی تقسیم کاانتظام تھا۔ وافر تعدادمیں موجودتھے، کئی کے ہاتھوں میں دو دوتھے۔ہم پرانے خیالات کے ہیں اس لیے زوجہ سے لے کر ڈنر بکس تک ایک پرگزارہ کیا۔
عام طورپرشعراحضرات کاایک تخلّص بھی ہوتاہے،شاعرات کوایک سہولت حاصل ہے کہ ان کی سہ حرفی نام میں ان کااصل نام، شریک حیات کانام اور ان کاتخلّص جوکہ نام کاایک حصّہ ہوتاہے شامل ہوجاتاہے۔اس نسبت سے ثمرین ندیم ثمربہت مناسب نام ہے۔ اس سے فائدہ دوسری شاعرات نے بھی اٹھایاہے،مثلاً عبرین حسیب عنبر وغیرہ۔بدقسمتی سے مردشعراکویہ سہولت میسّر نہیں ہے ورنہ ان کے نام کچھ اس طرح ہوتے۔ فیض ایلیس فیض، ایم ڈی بلقیس تاثیر یا اطہرحسین شوکت کیفی اعظمی۔
تقریب کے آخرمیں مختصر طورپر شاعرہ کے شوہر عبدالرحمٰن ندیم صاحب نے بھی خطاب کیا،ان کاتوحق بھی بنتاہے بلاسے شاعر نہ ہوں توکیا ساری تقریب کے اسپانسر (Sponser) تو وہی تھے۔
اطلاع ملی ہے کہ ان کی کتاب کی رونمائی قطر کے کسی ہوٹل میں ہوئی۔ کیوں کرنہ ہو شہربلکہ ملک مختلف، شائقین ادب مختلف اور شوہرندیم صاحب کی کفالت (Sponsership)کاجذبہ بلکہ حوصلہ سلامت رہے توابھی بہت دنیاباقی ہے ع
کریں گے اہل نظرتازہ بستیاں آباد
اس کے اشتہار کے مطابق یہ تقریب 9مئی کوDusit D2 Hotelمیں سجائی گئی۔ شاعرہ اور تقریب کے کفیل عبدالرحمٰن کے علاوہ 15 مقرریں سنے گئے ، سامعین پراللہ رحم کرے جنہیں اتنے سارے لوگوں کوبھگتناپڑا۔ ہرمقرر نے کتنا وقت لیا خدا جانے، یہ بھی نہیں معلوم کہ مقررین نے کتاب کامطالعہ کیا یا ایک پرانے مضمون ”میبل اور میں“کی طرح آئیں بائیں شائیں کہہ کر گزارا کیا۔ عام طورپرخطاب کرنے والے اتنی تکلیف نہیں کرتے۔
رمضان اور اس کے بعد کاایک مہینہ ہم نے قطرمیں بیٹے کے ساتھ گزرا،ندیم صاحب کانمبردوست نے دیاتھا،ثمرین صاحبہ کے نام اور نمبرتک پہنچنابھی مشکل نہ تھا۔ ایک گروپ ’قلمی دوستی‘ کی وہ بھی ممبرہیں۔اس کے ذریعے نمبرتک پہنچنامشکل نہ تھا۔ اس کے علاوہ کتاب کی مصنفہ کاقطر کانمبر کتاب کی ابتدامیں دیاہواتھا۔بیٹے سے کہاکہ فون کریں،ملوانے لے چلوگے۔ اس نے نے رخی سے کہا،ان کاگھربوحمور میں ہے،وہ جگہ بہت دور سلویٰ روڈپرہے جوسعودی عرب کوجاتی ہے۔ بہر حال
ہمارے پرانے مہربان یعقوب صاحب (ان سے ہمار ی پرانی روم وراہ تھی، پھردنیاکے بکھیڑوں نے انہیں سعودی عرب مختصر عرصہ کے لیے اور ہمیں نسبتاً طویل مدت کے لیے دبئی بھگا دیا۔ پچاس سال بعد دوبارہ واٹس اپ کے ذریعے سلام دعاہوئی پھر ملاقات،کراچی اور قطر میں ہوسکی،ان کی بدولت قطر کے چندادب دوست احباب سے ملاقات ہوئی، امیدہے کہ آئندہ قطر کی کسی تقریب میں شاعرہ اور ان کے شوہر سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔اس طرح ہمیں بیٹے کی محتاجی نہیں ہوگی۔
’’آرزوکادیا ‘‘ کی تقریب رونمائی
















