علامہ اقبالؒ کا سید ابولاعلیٰ مودودیؒ سے تعارف پہلی بار ان کی کتاب ”الجہاد فی الاسلام“ سے ہوا جو انہوں نے محض 24 سال کی عمر میں لکھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن(کتابی صورت میں) 1930ء میں شائع ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے اس کتاب کو اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف قرار دے کر اہل علم حضرات کو اس کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔
علامہ اقبال ؒ کی یہ خواہش تھی کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جہاں بہترین دل و دماغ کے مسلم نوجوان خالص اسلامی ماحول میں ریاضیات، طبیعات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علومِ جدیدہ کا علوم قدیمہ سے تعلق دریافت کریں اور یوں نہ صرف ان میں جدید مذہبی، سیاسی، اقتصادی، قانونی، علمی، سائنسی اور فنی مسائل کی اہمیت کو سمجھنے کا احساس بیدار کردیا جائے، بلکہ اُن میں مسلمانان عالم کی ہر شعبے میں صحیح رہنمائی کی اہلیت بھی پیدا ہو جائے۔
اقبال ؒ نے اس خواہش کو ایک نوٹ کی صورت میں تحریر کرکے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی خدمت میں بھیجاتھا، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ حسن ِ اتفاق ایک دردمند اور مخلص مسلم زمیندار چودھری نیاز علی خان کو خیال آیا کہ موضع جمال پور نزد پٹھان کوٹ میں خدمت دین کے لئے ایک ایسا ہی ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ اقبالؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا بیان کیا۔ اقبالؒ نے ان کے سامنے اپنی دیرینہ اسکیم کا ذکر کیا۔ چنانچہ 1936ء میں انہوں نے ایک قطعہئ اراضی تعلیم قرآن کے لیے وقف کردیا اور اس میں ضروری عمارات یعنی مسجد، مکتب، کتب خانہ‘ دارلاقامت اور رہائشی مکانات وغیرہ کی تعمیر شروع کردی۔
اب اس ادارے کو چلانے کیلئے کسی ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جسے نہ صرف دینی علوم میں مہارت حاصل ہو، اعلیٰ درجہ کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت ِ دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہو۔اقبالؒ کی نظر بھی مولانا مودودیؒ پر جاپڑی۔چنانچہ علامہ اقبالؒ اور چودھری نیاز علی نے الگ الگ مولانا مودودیؒ سے حیدر آباد میں مراسلت شروع کر دی۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودیؒ سے وعدہ کیا کہ وہ بھی سال میں چھ مہینے اس ادارے میں گزاریں گے۔اس پر مولانا مودودیؒ نے چوہدری نیاز علی کے نام مکاتب میں اس ادارے کے لیے ایک جامع خاکہ لکھ کر انہیں بھیجا، اس دوران علامہ اقبالؒ کا اصرار بھی حد سے زیادہ بڑھ گیا کہ مولانا مودودیؒ شمالی ہندوستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں چنانچہ اگست 1937ء کے اواخر میں دونوں صاحبان جالندھر سے ہوتے ہوئے لاہور آئے اور علامہ اقبالؒ سے ملاقات کی جس میں طے پایا کہ علامہ اقبالؒ سال میں چھ ماہ پٹھانکوٹ میں گزاریں گے۔ اس کے بعد نیاز علی صاحب کے پاس اؒئے، اور ان کی علامہ اقبالؒ سے تفصیلی ملاقاتیں مسلسل تین دن ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں میں جمال پور (پٹھانکوٹ) کے اس مدرسے کا نام مولانا مودودیؒ نے ”دارالسلام“ تجویز کیا جسے علامہ اقبالؒ نے انتہائی پسند فرمایا۔ اس دوران وہ حیدر آباد چلے گئے تاکہ اپنا سازوسامان لے آئیں۔
اپریل 1938ء کو علامہ اقبالؒ کی طبیعت خاصی ناساز تھی۔ 18/اپریل 1938ء کو درج ذیل خط سید نذیر نیازی نے مولانا مودودیؒ کے نام تحریر کیا:
”کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہوا تھا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیں اور عنقریب لاہور بھی آئیں گے۔ اُس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ یقینا لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیں تاکہ ملاقات ہوجائے۔ میری اپنی طرف سے یہ گذارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت تشویش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں (مگر اس بات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیے گا‘ کسی سے ذکر نہ کیجئے گا) لہذا بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت کے لیے دعاء فرمایئے۔“مگر یہ ملاقات نہ ہوسکی۔مولاناؒ اپنا سامان لے کر 18 مارچ کو پٹھان کوٹ پہنچے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ جلد لاہور پہنچ کر علامہ سے ملاقات کر کے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گے لیکن 21 اپریل کو علامہ اقبالؒ انتقال کر گئے۔ اس پر مولانا مودودیؒ کو شدید صدمہ ہوا اور انھوں نے اقبال کی وفات پر اپنے دْکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا۔ نذیر نیازی کے نام ایک خط میں وہ صدمے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں:
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ دونوں مفکر تھے اور اپنی اپنی فکر رکھتے تھے لیکن ان کا مشترک نظریہ تھا اوروہ تھا ”دو قومی نظریہ“ جو نظریہ پاکستان کی بنیادی اساس ہے، یعنی دونوں مفکرین ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اس بات میں سمجھتے تھے کہ وہ ایک الگ خطہ ارضی پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
علامہ اقبالؒ 1930ء کے بعد سیاست میں کافی حد تک متحرک ہوئے لیکن ایک مفکر کے طور پر انہوں نے تخلیق اور فکر پر زیادہ زور دیا، یہ ان کی تخلیق اور فکر کے حوالے سے اوج کا زمانہ تھا، انہوں نے اپنی تخلیق اور فکر کے تصور کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ و دیگر شخصیات کو ابھارا، وہاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی لاہور منتقل ہونے کا مشورہ دیا تاکہ وہ اس خطے میں جہاں ان کے خیال کے مطابق اسلامی ریاست بنانا مقصود تھی بیٹھ کر عملی جدوجہد کریں۔ علامہ اقبالؒ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ ”دو قومی نظریے“ کے زبردست داعی بن سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح کانگریس اور ان کے ہمنواؤں کا محاسبہ کیا وہ ان کے نزدیک قابل تحسین تھا، اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اپنی تحریروں سے قوم کو ہلاکت سے بچائے اور اسلامی ہند کی گزشتہ تاریخ اور موجودہ حالت پر محض ایک صحافی، ادیب، مورخ یا سیاست دان کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے، اس کے مخاطب صرف وہ لوگ ہوں جو اول بھی مسلمان ہیں اور آخر بھی مسلمان۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی یادگار ملاقاتیں
