Advertisement

گوگل کا متبادل؟

جب بھی بائیکاٹ کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے یہاں ایک مخصوص طبقہ رونا ڈال دیتا ہے کہ بائیکاٹ تو کوئی حل نہیں۔ اس سے تو ان مزدوروں کے گھر کا چراغ بجھ جائے گا جو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرتے ہیں۔ کسی کو یاد آتا ہے کہ فرنچائز تو مقامی ہے چاہے وہ فرنچائز معاہدے کے تحت ڈالر اپنے ہیڈ آفس کو بھیج رہی ہو۔ کوئی نیکسٹ لیول کے دانشور صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ آپ فیس بک اور گوگل کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ کیوں نہیں ڈیلیٹ کرتے وغیرہ وغیرہ۔

اب اس کا جواب تو سیدھا سادہ سا ہے کہ بھائی جہاں کوئی متبادل موجود نہ ہو تو آپ اُس چیز کو بقدرِ ضرورت استعمال کریں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ابلاغ کا ایک بڑا زریعہ ہی سوشل میڈیا ہے۔

مگر میرا آج کا یہ موضوع نہیں ہے۔ میں تو آپ کو چند ایپس Apps اور ٹولز کے بارے میں بتانا چاہ رہا ہوں جن کی بدولت آپ مائیکروسافٹ، گوگل اور ایپل کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔ اس بائیکاٹ کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا آپ کا ڈیٹا data کافی حد تک محفوظ ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا میں ساری جنگ ہی ڈیٹا کی ہے۔ حالیہ جنگوں میں جس طرح اے آ‏ئی (خصوصا اسرائیلی لیونڈر Lavendar) کا انسانوں کو مارنے میں استعمال ہوا ہے، اس کو تو ہم ایک الگ مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ گوگل کا پروجیکٹ نبمس Nimbus اسرائیلی فوج کے ساتھ اشتراک میں 2021 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت اس کی مالیت 1.2 بلین ڈالر تھی۔ ابتھال ابو سعد کے مطابق مائیکروسافٹ نے 133 ملین ک معاہدہ کیا جاتا جو جنگ کے صرف تین مہینوں کے دوران 200 گنا بڑھ کر 13.6 پیٹا بائٹس ہوگیا تھا۔ اس بڑے ڈیٹا کو آپ ایسے سمجھیے کہ یہ 1 ٹریلین سے زائد pdf کے صفحات ہوں یا پھر 6.8 ملین فلموں پر محیط ہو۔ اگر آپ تین فلمیں بھی روزانہ دیکھیں تو 6210 سال لگ جائیں گے آپ کو۔ اتنا بڑا ڈیٹا سے ممالک کیسے فایدہ اٹھا رہے ہیں، اس کو صرف سوچا ہی جاسکتا ہے۔

نیچے موجود Apps کی لسٹ میں اضافہ ممکن ہے، اس لیے ہمارے ساتھی کمنٹس کرتے رہے، تو ہم لسٹ اپڈیٹ بھی کرتے رہیں گے۔ اس لسٹ میں میری کوشش ہے کہ صرف وہ متبادل تجویز کئے جائیں جو با آسانی دسترس میں ہوں، انہیں استعمال کرنا آسان ہو اور غیر حقیقی مفروضات (جیسے فیس بک/یوٹیوب وغیرہ کا بائیکاٹ) سے دور ہوں۔ ایک اور بات بتانا بھی ضروری ہے کہ فہرست میں جابجا ‘محفوظ ہونے’ کا تزکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بات جان لیں کہ انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز انسانوں کے ہاتھوں سو فیصدی محفوظ نہیں ہوتی۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے گھر اور کمرہ کے دروازے کھول کر سوئیں۔ اس لیے جتنی حفاظت ممکن ہو، اتنی کرنی چاہیے۔

Brave Browser:
گوگل یعنی Alphabet Inc. کا کمانے سب سے اہم زریعہ وہ اشتہار ہیں جو ہم گوگل کی پروڈکٹس پر دیکھتے ہیں۔ یہ اشتہار نا صرف الجھن کا باعث بنتے ہیں بلکہ وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ BDS موومنٹ کا کہنا ہے کہ آپ گوگل کے اشتہارات پر کلک نہ کریں۔ مگر اس کا بہتر حل بریو براؤزر ہے جو آپ کو سہولت دیتا ہے کہ اشتہارات بلاک ہو جاتے ہیں اور ان نظر آنے والی تعداد کافی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے مالک برینڈن آئش ہیں جو جاوا اسکرپٹ اور موزیلا براؤزر کے بانی تھے۔ بریو استعمال کرنے میں بالکل گوگل کروم chrome جیسا ہے۔ اس میں بلڈ ان ٹور Tor سوفٹویئرز کی بھی سہولت موجود ہے۔

Search Engine:
کئی لوگ سرچ انجن کے طور پر گوگل یا بِنگ کا استمعال کرتے ہیں۔ کوشش کریں کہ سرچ بھی آپ search…brave .. com (الفاظ کے درمیان نقطہ یا فل اسٹاپ ایک ہی بار آئے گا) سرچ انجن پر کریں۔ کچھ لوگ سیکیورٹی کے حوالے duckduckgo کا بھی حوالہ دیتے ہیں مگر اس کا مالک ایک راسخ العقیدہ یہــودی ہے اور اس پلیٹ فارم پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ فلســـطیـن کے حق میں کونٹینٹ کو سرچ میں نیچے دکھاتا ہے۔
یقین کریں اگر بڑے پیمانے پر گوگل اور کروم chrome کا استعمال کم ہو جائے تو یہ کوک میکڈانولڈز وغیرہ کے مجموعی بائیکاٹ سے بڑا فرق ڈالے گا۔ اِدھر ہم بلین ڈالر کے فرق کی بات کررہے ہیں۔

Deepseek:
ڈیپ سیک کا نام آپ نے یقینا سنا ہوگا۔ یہ ایک Large Language Model (LLM) ہے جو اپنے پیشروؤں چیٹ جی بی ٹی اور گوگل جیمینائے Gemini سے کئی لحاظ سے بہتر ہے۔ LLM دراصل ایک قسم کی مصنوعی ذہانت ہوتی ہے جو انسانی زبان کو سمجھنے، تخلیق کرنے اور ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ویسے تو کوئی بھی آئی ٹی ماہر آپ کو ڈیٹا چوری کیے جانے والے معاملات کی وجہ سے چینی مصنوعات کو استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دے گا مگر بائیکاٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس کو لسٹ میں شامل کررہے ہیں۔ ویسے بھی ڈیٹا تو سب ہی چرا رہے ہیں ہمارا۔ باقی جب تک ہم اپنے LLM تیار نہیں کرلیتے تو چینی ساختہ سوفٹویئر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Signal/Telegram/Session:
اس وقت ایک دوسرے سے رابطہ کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین اپنے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں حالانکہ واٹس ایپ کو end-2-end encrypted سمجھا جاتا ہے۔ البتہ حالیہ سالوں میں پیش آنے والے واقعات خصوصا میٹا Meta کی جانب سے پرائیویسی قوانین میں ترمیم کے بعد لوگوں کا رجحان دیگر میسجنگ ایپس کی طرف عارضی طور پر بڑھا تھا۔ مگر پھر جذبات مدہم پڑ گئے اور لوگوں نے میٹا کو اپنے ڈیٹا تک رسائی کی مشروط اجازت دے دی۔ خیر، اوپر لکھی گئی تین ایپس واقعی بہت کام کی چیز ہیں اور سیکیورٹی ماہرین کے مطابق کافی حد تک محفوظ بھی ہیں۔ ان کے سورس کوڈ تک عام رسائی موجود ہے لہذا ان کی سیکیورٹی کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا ہے۔ یہ مانیٹرنگ دنیا بھر کے آزادی پسند انصاف پسند ماہرین کرتے رہتے ہیں۔
البتہ یہ جاننا اہم ہے کہ ٹیلیگرام بات چیت کے لیے مکمل محفوظ نہیں ہے جب تک آپ اس کا سیکرٹ چیٹ آپشن استعمال نہیں کرتے۔ کال پر بات کرنا کرنا نسبتاً محفوظ ہے

Proton Email, VPN and Cloud:
اس وقت دنیا بھر میں محفوظ سمجھے جانے والی سروسز دینے کے لیے غیر منافع بخش پروٹون فاؤنڈیشن چلا رہی ہے جس کے سرورز سوئزر لینڈ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ nextcloud اور cryptpad کے کلاؤڈز بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

Operating Systems:
اس پر بات کرنے کی اتنی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاک و ہند کی اکثر آبادی pirated آپریٹنگ سسٹم کا استعمال کرتی ہے۔ مگر آپ چاہیں تو Linux کے مختلف distros (یعنی ورژنز) جیسے Linux Mint استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کا user interface تقریباً ونڈوز کے ہی طرز کا ہے۔

WPS Office:
یہ مکمل طور پر مائیکروسافٹ آفس کی کاپی ہے۔ چینی کمپنی کنگ سافٹ کا بنایا ہوا یہ سوفٹویئر با آسانی مائیکروسافٹ 360 کا بہترین متبادل ہے۔ مگر بات وہی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ چوری کے سوفٹویئرز استعمال کرتے ہیں اور ہمیں پیسہ نہیں دینے پڑتے۔ البتہ پیچھے اپنے سرورز سے رابطہ رکھنے کی وجہ سے یہ مائکروسافٹ کے سوفٹویئر ممکنہ طور پر ہمارا ڈیٹا واپس بھیجتے رہتے ہیں۔ اور ڈیٹا آج کی دنیا کا نیا سونا ہے۔ یعنی ہم چند پیسے بچا کر خوش ہیں جبکہ حقیقت میں ہم بری طرح لٹ چکے ہیں۔

خیر سب باتوں سے قطع نظر بائیکاٹ ضروری ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جن کو بائیکاٹ کرنا ہے، وہ کررہے ہیں۔ جن کو نہیں کرنا ہے، وہ بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ایسے لوگوں کو زیادہ بہانے تلاش نہ کرنے دیا جائے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: