Advertisement

ترک دارالحکومت انقرہ میں نشے کے خلاف قومی مہم

ترک دارالحکومت انقرہ میں حال ہی میں منعقد ہونے والی Bağımlılıkla Mücadele Çalıştayı نے پورے ملک میں نشے اور وابستگیوں کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر سنجیدہ سطح پر توجہ مبذول کروا دی ہے۔
Ulucanlar Cezaevi Müzesi میں اس اہم ورکشاپ میں حکومتی نمائندوں، ماہرینِ صحت، صحافیوں، سماجی تنظیموں، نوجوان رضاکاروں اور متعدد شعبوں کی نامور شخصیات نے بھرپور شرکت کی۔ یہ ورکشاپ پورا دن جاری رہی اور نشے کی روک تھام، علاج کے نئے ماڈلز، قومی حکمتِ عملیوں اور معاشرتی شعور بیدار کرنے کے عملی اقدامات کے حوالے سے نہایت ٹھوس اور قابلِ عمل تجاویز سامنے آئیں۔
نشے کا بڑھتا رجحان اور ماہرین کی تشویش
ورکشاپ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف 17 فیصد افراد علاج کے مراکز تک پہنچتے ہیں، جب کہ 83 فی صد خطرہ معاشرے کے اندر، گھروں اور گلیوں میں موجود ہے۔
صدرِ مملکت رجب طیب اردوان کے صحت پالیسی بورڈ کے رکن ڈاکٹر مصطفیٰ اُزون نے سخت لہجے میں انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ سیاست سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہمیں اس دلدل کو جڑ سے خشک کرنا ہوگا، ورنہ نسلیں برباد ہو جائیں گی۔
انقرہ یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نجدت اُنیوَار نے نوجوان نسل میں بڑھتی خواہشات، ذہنی دباؤ اور سوشل میڈیا کے اثرات کو اہم عوامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بحران کو ’ہمیشہ کے ایجنڈے‘ پر رکھنا ہوگا۔
Bağımlılıkla Mücadele Platformu کے سربراہ ڈاکٹر ایحان اوزکان نے اپنے جذباتی خطاب میں بتایا کہ نشہ ایک ایسا عفریت ہے جو کسی بھی گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا کہ یہ مسئلہ ہمیں متاثر نہیں کرے گا، خود ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ قوم کے ہر فرد کو اس جنگ میں شامل ہونا ہوگا۔
نور دلیجے کی بھرپور شرکت
ورکشاپ کا نمایاں ترین پہلو
ورکشاپ میں جہاں کئی اہم اور علمی شخصیات شریک تھیں، وہاں بین الاقوامی صحافی، مصنفہ اور Dünya Muhabirler Birliği کی نمایندہ محترمہ نور دلیجے کی موجودگی خصوصیت سے نمایاں رہی۔ انہوں نے دس رکنی Bağımlılık Masası میں بطور فعال شریک گفتگو کی۔انہوں نے صحافتی مشاہدات، زمینی حقائق اور سماجی زاویوں کو نہایت ذمہ داری کے ساتھ پیش کیا۔
اپنی گفتگو میں نور دلیجے نے کہا کہ یہ صرف ایک مباحثہ نہیں تھا، بلکہ ایک نیا اجتماعی شعور تھا جہاں ہم نے مسئلے کو سماجی، علمی اور انسانی بنیادوں پر دوبارہ سمجھا۔ سول سوسائٹی کے جذبے نے امید کے دروازے کھولے ہیں۔ ان کی شرکت نے ورکشاپ کو نہ صرف صحافتی بلکہ سماجی اور فکری طور پر مزید مضبوط بنایا۔
شرکا نے متفقہ طور پر کہا کہ نور دلیجے کی گفتگو میں فہم، تحقیق اور معاشرتی درد کا حسین امتزاج تھا۔
دیگر نمایاں شرکا اور ان کا فعال کردار
ورکشاپ میں خواتین رہنماؤں، نوجوان ٹیموں، ذہنی صحت کے ماہرین، این جی اوز اور تعلیمی اداروں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔ خاص طور پر ڈاکٹر بُرجو بوسطانجی اولو اور نوجوان رضاکار ٹیموں نے عملی تجاویز پیش کرکے ماحول کو انتہائی فائدہ مند بنا دیا۔
مختلف گروپوں نے اپنی نشستوں میں تعلیم و آگاہی، بازآباد کاری، سوشل میڈیا کنٹرول، قانونی اقدامات اور والدین کی تربیت جیسے اہم موضوعات پر سفارشات مرتب کیں۔
اعزازی ایوارڈز کی تقسیم، خدمات کا اعتراف
نشے کے خلاف آگاہی، تحقیق، فلاحی سرگرمیوں اور رضاکارانہ خدمات میں نمایاں کردار ادا کرنے والے متعدد افراد کو آنر، خدمت اور موٹیویشن ایوارڈز سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈز نشے کے خلاف جنگ میں ثابت قدمی اور سماجی خدمت کا اعتراف ہیں۔
ورکشاپ کا اختتام سفارشات کی پریزنٹیشن، اسناد کی تقسیم اور تاریخی Ulucanlar Cezaevi Müzesi کے خصوصی دورے کے ساتھ ہوا۔ شرکا کے مطابق یہ ورکشاپ نشے کے خلاف قومی مہم کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس میں ریاست، معاشرہ، میڈیا اور سول سوسائٹی سب ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ترک دارالحکومت انقرہ میں ہونے والی یہ سرگرمی اس بات کا ثبوت ہے کہ ترکیہ اس مسئلے پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ’دلدل کو خشک کرو‘ اب محض نعرہ نہیں رہا، بلکہ ایک قومی عزم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: