پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس سال بھی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگائیں بیس لاکھ سے زاید مسلمانوں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ، جو مکہ میں نہیں تھے اپنے اپنے ملک میں ایام تشریق کی تکبیریں پڑھ پڑھ کر اللہ کی کبریائی کا اعلان کررہے تھے،اور اگر یہ بیس لاکھ لوگ طواف نہ کرتے،دنیا کے دو ارب سے زیادہ مسلمان ، تکبیرات پڑھ کر اللہ کی کبریائی نہ بیان کرتے تب بھی اللہ کی کبریائی میں رتی بھر کمی نہ آتی ،جس قربانی کا نظام دنیا میں جاری ہے ان کروڑوں جانوروں کے خون کا ایک قطرہ اور گوشت کا ایک ٹکڑا بھی اللہ کو نہیں پہنچتا اللہ نے اس کا برملا اعلان قرآن پاک میں کردیا اور بتادیا کہ اللہ تک صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے ۔ تو پھر دنیا بھر کے مسلمان آج کیا کررہے ہیں، سب قربانی کررہے ہیں۔ شیطان کو کنکر ماررہے ہیں ، تکبیریں پڑھ رہے ہیں اللہ کی بڑائی بیان کررہے ہیں ، لیکن غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے عالمی شیطانی قوتیں جو کچھ کررہی ہیں ساری مسلم حکومتیں رب العالمین کے بجائے عالمی طاغوت کی بڑائی بیان کررہی ہیں اس کے حکم پر مسلمانوں کو قربان کیا جارہا ہے ،شیطانی طاقتیں مسلمانوں کو کنکریاں ماررہی ہیں۔
آج دنیا کے مسلم حکمرانوں کا قول اور عمل الگ الگ ہوگیا ہے آج امت مسلمہ ظلم کا شکار ہے اس کے باوجود امت اپنے رب ہی کو پکارتی ہے، تضاد یہ ہے کہ امام کعبہ حج کے خطبے میں اللہ کی کبریائی بیان کررہے ہیں اور مسلم حکمران غزہ کا تماشا دیکھ رہے ہیں ، امام کعبہ فلسطینی مسلمانوں پر بے انتہا ظلم کا ذکر کررہے ہیں،لیکن ان حکمرانوں کا نہیں جو اسرائیل کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ، مسلمان طواف میں رمل کرتے ہیں قوت بازو کا مظاہرہ کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح مسلم ممالک اپنے اسلحے کا مظاہرہ کرتے ہیں فوجی پریڈ کرتے ہیں ، پاکستان ایٹمی قوت ہے میزائلوں کی بھرمار ہے ، ٹینک اور توپیں ایکسپورٹ کررہا ہے لیکن اس قوت کا بھی کوئی فائدہ پاکستان سمیت دنیا میں کہیں مسلمانوں کو نہیں مل رہا ہے خطبہ حج ہر ظلم و زیادتی کو مٹانے کا درس دیتا ہے ، مجبور و بے کس مظلوموں کے لئیے لڑنے کے قرآنی احکامات دہراتا ہے ، خطبہ حج الوداع کچھ کہتا ہے اور آج کے خطبے صرف خطبے ہیں، اسی لئیے امت کے بیس لاکھ لوگوں کا حج امت کے مصائب کم نہیں کرسکتا دوتین ہزار فلسطینیوں کو سرکاری خرج پر حج کرادینے سے ان کے مصائب کم نہیں ہوجائیں گے ، کوئی رسمی بیان دینے سے بھی فلسطینیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اب تو امریکی قرارداد کی حمایت یا منظوری سے بھی فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوگا ۔دو ریاستی حل کی تکرار سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا ، اب تو پوری امت مسلمہ کو بڑی قربانی دینی ہوگی اللہ نے حماس کے ذریعہ امت کو اپنے گناہوں سے اجتماعی توبہ اور رجوع کا نادر موقع دلوایا ہے ، اب سب کو اپنی اپنی سطح پر قربانی دینی ہوگی، مسلم حکمران طاغوت کی بندگی چھوڑ کر رب کی بندگی اختیار کریں ایک دل میں دوخوف نہیں رہ سکتے صرف اللہ سے ڈریں سب کا ڈر نکل جائے گا۔
مسلمان سیاسی جماعتیں اور حکمرانی کے خواہشمند بھی ایسا ہی کریں اور عام مسلمان جو پہلے ہی اللہ سے ڈرنے والا ہے ہر خوف کو اپنے دل سے نکال دے ،ہم جب بکرے، دنبے اونٹ یا گائے کی قربانی دینے لگیں تو یہ فیصلہ بھی کرلیں کہ اب اپنی لگی بندھی رائے کی بھی قربانی دیں گے ، قربانی کے بعد خون اور گوشت اللہ کے حضور پہنچنے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ اللہ کا تقوی اختیار کریں گے جو اسے مطلوب ہے، قربانی کے بعد دس دن کا میل کچیل صاف ضرور کریں لیکن زندگی بھر کا وہ میل بھی صاف کریں جو باطل نظام کی اطاعت اور اس پر راضی رہنے سے جسم ،دل اور روح پر چڑھ گئی تھی۔ سودی نظام پرراضی رہنے اور پچھتر سال سے معاشی ترقی کے سراب کے پیچھے دوڑتے رہنے،اور ملک کو آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رکھنے میں مدد دینے سے جو بیماریاں ہمارے پیچھے لگ گئی ہیں ان سب سے ہمیشہ کے لئیے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے ۔یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آج کی دنیا سے کٹ کر کچھ نہیں ہوسکتا اسی دنیا نے افغانستان میں امریکی شکست کا منظر دیکھا ہے اور افغان دنیا کی مخالفت کے باوجود آگے بڑھ رہے ہیں ،یہی دنیا گزشتہ آٹھ ماہ سے زیادہ دنوں سے دنیا کی مضبوط فوج کی شکست پر شکست کا تماشا دیکھ رہی ہے ، جس طاقت کا سامنا مضبوط عرب ریاستیں نہیں کرسکیں اس کو مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔اس کا سب سے بڑا پشتیبان امریکا اس کو بچانے کے لیے قرارداد پیش کررہا ہے ۔
یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ممکن نہیں ۔ بنی اسرائیل کے دل سے بھی بچھڑے کی محبت مشکل سے نکلی تھی ، امت مسلمہ نے بھی بہت سے معبود بنالئیے ہیں ،ان کی قربانی دینی ہوگی اور اس کا یہی وقت ہے۔ اور ہاں جو حکومت اس راستے میں آئے اسے منصب سے بھی ہٹادیا جا ئے، یہ عوام کی ذمہ داری ہے ۔اسی کی تیاری کرنی چاہیے۔
Leave a Reply