Advertisement

کاشف — باغبان پورہ کا مرثیہ

یہ داستان ایک ایسے بیٹے کی ہے جسے پردیس کی زمین نے نگل لیا، اور ایک ایسی ماں کی جس کے آنسو بارش کی طرح برستے ہیں مگر تپتی زمین پر گر کر سوکھ جاتے ہیں۔ یہ نوحہ ایک گھر کا نہیں، ایک محلے کا نہیں، بلکہ اس پوری قوم کی روح پر لکھا جا رہا ہے جو اپنے بیٹوں کو پردیس میں گم ہونے دیتی ہے اور پھر خاموش رہتی ہے۔
باغبان پورہ کی گلیوں میں کبھی کاشف کی مسکراہٹ بکھرتی تھی۔ وہ جوانی کے جوبن پر تھا، محنتی، جفاکش، اور خوابوں کا امین۔ بھائی امتیاز کے انتخابی میدان میں وہ ایک پرچم تھا، ایک آواز تھی، ایک جوش تھا۔ دوستوں میں ہنستا کھیلتا، محلے کے بزرگوں کے آگے جھک کر سلام کرتا، اور بچوں کو اپنے ساتھ کھیلنے دیتا۔ کون جانتا تھا کہ یہ چراغ پردیس کی ہوا میں بجھ جائے گا اور اس کی لو کے بغیر گھر اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔
جب صابرا بہن کا فون آیا تو ان کی آواز نہیں، ان کی سسکیاں سنائی دیں۔ لفظ جملوں میں ڈھلنے سے انکار کر رہے تھے، گلا رندھ گیا تھا۔ انہوں نے کہا: “بھائی جان، میرا بیٹا کاشف ساؤتھ افریقہ میں ہے، اسے کسی نے اٹھا لیا ہے، ڈیڑھ سال سے کوئی خبر نہیں۔” اور پھر ایک جملہ بار بار دہرایا: “میں اپنے بیٹے کے بغیر باغبان پورہ واپس نہیں جاؤں گی۔” یہ جملہ کانوں میں تیر کی طرح پیوست ہوا۔ کیا کوئی ماں اپنی زمین سے، اپنی گلیوں سے، اپنے آبائی گھر سے صرف اس لیے رشتہ توڑ دے کہ اس کا بیٹا غائب ہو گیا؟ ہاں، جب بیٹے کے بغیر زمین اجنبی لگنے لگے تو ماں کا دل یہی کہتا ہے۔
پردیس کی سرزمین پر صابرا بہن دن رات انتظار کی سولی پر لٹک رہی ہیں۔ کبھی کھڑکی کے پردے ہٹاتیں ہیں، کبھی دروازہ کھول کر باہر جھانکتیں ہیں۔ ہر دستک پر دل دھڑک اٹھتا ہے کہ شاید کوئی خبر لایا ہو، شاید کوئی مسافر کاشف کی جھلک دکھا دے۔ مگر ہر بار امید ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور دل کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔
ادھر ان کے چھوٹے چھوٹے نواسے ہیں، جو ابوبنے بغیر لفظ “ابو” پکارتے ہیں۔ کھیلتے کھیلتے اچانک تصویر کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، کسی ایک کے معصوم لب تصویر پر بوسہ دیتے ہیں، دوسرا کہتا ہے: “امی، ابو کب آئیں گے؟” اور ماں کی آنکھوں سے بہتا ہوا سیلاب دل کی دیواروں کو توڑ کر رخساروں پر بہنے لگتا ہے۔ وہ جھوٹ بول کر کہتی ہے: “بیٹا، جلدی آئیں گے۔” مگر دل جانتا ہے کہ یہ “جلدی” کتنا طویل ہو گیا ہے۔
یہ صرف صابرا بہن کی فریاد نہیں، یہ ہر اس ماں کا نوحہ ہے جس کے بیٹے کو پردیس میں اغوا کر کے قید کر دیا جاتا ہے، اور ریاستی نظام اس کے لیے کچھ نہیں کر پاتا۔ جدہ میں پریس کونسلر عرفان چوہدری صاحب نے اپنی کوششوں سے جنوبی افریقہ میں پاکستانی سفیر سے ملاقات کروائی۔ یہ کام یقیناً پاکستان کمیونٹی کے لیے باعثِ فخر ہے۔ میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ماں کا دکھ صرف ملاقاتوں سے کم ہو سکتا ہے؟ کیا وہ بیٹے کی غیر موجودگی کو بیٹے کی خبر سے بدل سکتی ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔
کاشف ایک مجرم نہیں تھا، نہ کوئی باغی، نہ کوئی شرپسند۔ اس کا جرم بس یہ تھا کہ اس نے اپنی ماں کی آس پوری کرنے کے لیے، اپنے بچوں کے مستقبل کی روشنی کے لیے پردیس کا سفر اختیار کیا۔ وہ ساؤتھ افریقہ گیا کہ رزقِ حلال کما کر لائے، لیکن وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ خود ہی وہاں غائب کر دیا گیا۔
یہ کیسی زمین ہے جہاں ایک محنتی کا بیٹا دن دہاڑے اغوا ہو جاتا ہے اور قانون خاموش رہتا ہے؟ یہ کیسا سماج ہے جہاں ماں کی چیخیں آسمان تک جاتی ہیں لیکن زمین کے کان بہرے ہو جاتے ہیں؟ صابرا بہن کا دکھ صرف ان کا نہیں، ہم سب کا ہے۔ مگر افسوس! ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں، اور یہ مائیں اپنے دکھ کے ساتھ تنہا رہ جاتی ہیں۔
کبھی سوچتا ہوں کہ یہ ماں آخر کس دل سے ساؤتھ افریقہ کی سڑکوں پر چلتی ہوگی؟ جب وہ پاکستانی سفارت خانے کے دروازے پر کھڑی ہو کر فریاد کرتی ہے تو اس کے قدم لرزتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو لفظ کانپتے ہیں یا نہیں؟ جب وہ اپنے بیٹے کی قمیض سونگھتی ہے تو اس کے دل پر کون سے بجلیاں گرتی ہیں؟ اور جب وہ رات کو خواب میں کاشف کو دیکھتی ہے، تو جاگنے کے بعد اس کی آنکھیں کتنے سمندر بہا دیتی ہیں؟
یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ہمارے پاس نہیں۔ لیکن ایک ماں کے دل کے اندر ہر جواب موجود ہے۔ وہ جواب جو آہوں اور سسکیوں کی صورت میں باہر آتا ہے۔ وہ جواب جو رات کی تنہائی میں سجدے پر بہتا ہے۔ وہ جواب جو ہر صبح سورج کو دیکھ کر کہتا ہے: “اے رب! میرے بیٹے کو واپس کر دے۔”
یہ داستان صرف کاشف کی نہیں، یہ مرثیہ صرف صابرا بہن کا نہیں۔ یہ ایک پوری قوم کی اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔ ہمارے گھروں میں ٹی وی چلتے ہیں، موبائل بجتے ہیں، ہم خوشیاں مناتے ہیں، مگر کہیں ایک ماں بیٹے کے بغیر مر رہی ہے۔ ہم محفلوں میں قہقہے لگاتے ہیں مگر اس کے کانوں میں صرف بیٹے کی آواز گونجتی ہے۔ ہم سوتے ہیں اور وہ جاگتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں اور وہ یاد رکھتی ہے۔
اور پھر بھی وہ کہتی ہے: “میں اپنے بیٹے کے بغیر باغبان پورہ نہیں جاؤں گی۔” یہ جملہ ایک عہد ہے، ایک اعلان ہے، ایک مرثیہ ہے۔ یہ جملہ تاریخ کے صفحوں پر کندہ ہو گیا ہے۔ باغبان پورہ کی گلیاں، وہ مکان، وہ درخت، وہ چبوترے سب گواہ ہیں کہ ایک ماں اپنے بیٹے کے بغیر ان سب کو اجنبی سمجھتی ہے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کاشف کو اپنی حفاظت میں رکھے، اسے اس کی ماں اور اس کے بچوں سے ملا دے۔ اس ماں کے دل کو قرار دے اور اس کے آنسوؤں کو خوشیوں میں بدل دے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کی آواز بنیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں۔
یہ مرثیہ لکھتے ہوئے میرا دل لرز رہا ہے۔ کاش! میں صابرا بہن کو وہ خبر دے سکوں جس کا وہ انتظار کر رہی ہیں۔ کاش! ان کے دروازے پر اچانک دستک ہو، وہ دروازہ کھولیں، اور کاشف سامنے کھڑا کہے: “امی، میں آ گیا۔” اور وہ اسے گلے سے لگا کر کہے: “بیٹا، اب مجھے باغبان پورہ واپس جانے کا حوصلہ ہے۔”

اللہ کرے یہ دعا قبول ہو۔ آمین۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: