Advertisement

باران گہر

آنسوٶں کے موتی اس کی مٹھی میں آنے سے انکاری تھے جتنا ہی قابو کرنے کی کوشش کرتی اتناہی تیز دوڑ لگادیتے۔۔۔ بےبسی سے اسکی ہچکیاں شروع ہو گٸیں۔”بھیا سے بات کرنابھی ممکن نہیں۔۔ نجانے وہ کیا سمجھیں ساری زندگی اس ہے با کی کی نذر ہوجاٸیگی۔۔۔۔۔ بھیا بھی بدگمان ہوجاٸینگےمیں توپھر اپنی صفاٸی بھی نہ دے سکونگی ۔۔۔۔اف اللہ عورت اپنے حق کےلیے زبان نہیں کھول سکتی کاش میں مرد ہوتی تومجھے کسی کےکہنےسننے کی پروا نہ ہوتی مگر اب تو۔۔ لوگ کہینگے کہ خود مانگنے لگی بے غیرت!! “ بدنامی کا عفریت اپنےنوکیلے دانت دکھاکے ڈرا نے لگا ” ٹھیک ہے میں اپنےہونٹ سی لونگی مگر یہ ہے تو ظلم ہی نا؟ اسکادل درد سےکراہ اٹھا۔۔۔۔!!!
بس اتنا ہی ہواتھا کہ معمول کی تلاوتِ قرآن کرتے ہوۓآج سورةالنسإ کی باری آگٸ وراثت کے احکامات پڑھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پارہی تھی۔کوٸی ہمدرد بھی پاس نہ تھا جو تسلی دیتا۔۔ فیمنسٹوں کے نعرے اسے حقیقی نظر آنے لگے واقعی عورت مظلوم پیدا ہوٸی ہے اگر ابھی میری جگہ دوسرابھاٸی ہوتا توخم ثھونک کر کھڑا ہوجاتا اوربھیااس کو دبا بھی نہ پاتے!!!!
والد کے انتقال کے بعد جائداد کی تقسیم کاکوٸ ایشو نہ اٹھا والدہ اپنے دونوں بچوں اطہر اور نازیہ کے ساتھ شوھر کےچھوڑے ہوے مکان میں رہتی رہیں جس کا ایک حصہ کراۓ پر بھی تھا نیز انکے جو فنڈز وغیرہ ملے انھیں کسی شراکتی کاروبار میں لگادیا گیا اچھی خاصی معقول رقم آجاتی اطہر کی شادی ہوٸی تو دوسال میں دو خوبصرت پھولوں کا اور اضافہ ہوگیا۔اطہر خود بھی اچھے مشاہرہ پر ایک پراٸیویٹ کمپنی میں ملازم تھا۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا جب ہی ایک دن راشدہ بیگم کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ نازیہ کے بارے میں کوٸی ہدایت دیے بغیر آناًفاناً اپنے رب کی بارگاہ میں حاضرہوگٸیں۔
اطہر تو مرد تھا جلد سنبھل گیا پھر اسکے بیوی بچے اور روزگار سب اسے پرانی دنیا میں واپس لے آۓ ،،،،
مگر نازیہ کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل پارہا تھا جب کوٸ بات ہوتی وہ رو پڑتی آجکل تازہ ترین صورتحال یہ تھی کہ اطہر چاہتا تھا کہ یہ مکان بیچ کر شہر کے متمول علاقے میں جہاں اسنے ایک موقع کا پلاٹ لیاہواتھا اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کروالے۔اگرچہ یہ مکان بھی ان سب معیارات ہی کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا جو نۓ مکان کے لیۓ درکار تھے مگر زمانے کا فاصلہ درمیان آگیاتھا۔ یہ انکے والد کےزمانے میں پڑھے لکھے اور فارغ البال لوگوں کی آبادی تھی مگر اب تیس چالیس سال میں بہت سے نۓ علاقے اور جدید طرزِتعمیر نے اپنےاندر کشش پیدا کرلی تھی۔
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا نازیہ بھی خوش تھی مگر اسکا دل تو اس وقت ٹوٹا جب اطہر نے باپ کا چھوڑا ہوا تمام سرمایہ اکیلے اپنے مکان میں لگانے کا فیصلہ ظاہر کیا۔
جبکہ نازیہ نے مکان بکنے کاذکر سن کر سوچاتھا کہ اپنے حصے کا سرمایہ لگاکر ایک چھوٹاسا ملٹی اسکل ٹریننگ سینٹر کھولے گی اور وہاں آنے والی لڑکیوں اور خواتین کی دینی تعلیم وتربیت بھی کرےگی۔ اسطرح اپنی دینی و دنیاوی تعلیم کو صدقہٕ جاریہ بناۓ گی مگر یہ بھیا کا خودغرضانہ منصوبہ اسے ایکبار پھر تنہا کرگیاتھا۔۔۔
اب اگر وہ اپنا حصہ طلب کرے تو نجانے بھیا کا ری ایکشن کیا ہو بھابی سے بھی فاصلے پیدا ہوجاٸنگے خاندان والے بھی انگلیاں اٹھاٸینگے کہ اپنا حصہ الگ مانگ رہی ہے تو کیا یہ بھاٸ سے الگ رہے گی؟اسکی شادی بیاہ ہوگا تو کیا بھاٸ کے علاوہ کوٸ اور آکے کرے گا؟خاندان میں تو لڑکیوں کے حوالے سے جاٸیداد کا کوٸ تنازعہ سامنے نہیں آیاتھا جبکہ بھاٸیوں کے درمیان تویہ ایک عام بات تھی۔اگر قوانینِ وراثت سےآگاہی نہ ہوٸ ہوتی تو شاید نازیہ اپنی تقدیر پر راضی ہوجاتی مگر سورة النسإ کی تفسیر پڑھ کر تو اسکو جہاں رب کی عطاۓ بےبہا کا احساس ہوا تھا وہاں اپنے معاشرے میں راٸج شدہ ظلم کےسلسلوں سے ٹکرانے کا دل چاہ رہا تھا مگررررر۔۔۔!
لوگوں کی مشکوک نگاہوں کا سامنا کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی” امّی کاش آپ ہی کچھ کردیتیں اگر اپنے سامنے ایکبار ترکہ تقسیم کرا لیتیں تو دوبارہ بھی آسان ہوجاتا ۔اب کون زبان کھولے گا؟ کم ازکم میں تونہیں اس نے قطعی فیصلہ کرلیا ۔
اطہر نے آج سہیل کو فون ہی کیا تھاکہ جواب میں سہیل خوداس سے ملنے چلا آیا۔ وہ صرف پراپرٹی ڈیلر ہی نہیں اسکا بچپن کا دوست بھی تھا۔ اس نے بتایا کہ کاغذات کی تیاری میں اسکو اپنٕی بہن سے دستبرداری نامہ بھی ساٸن کروانا ہوگا ” ہاں وہ توکردےگی “اطہر نے ایک بھروسہ آمیز لاپرواٸ کے ساتھ کہا ”اور تم کروابھی لوگے؟“ سہیل نے تعجب سے کہا ” کیوں اس میں کیا خرابی ہے؟“ وہ حیران ہوا”ارے بابا اس کا شرعی حصّہ ہے وہ اسے دینےکے بجاۓ تم اس سے دستبرداری مانگو گے؟“سہیل نے اس کی آنکھوں جھانکتے ہوے کہا” مناسب نہیں؟“ اطہر نے نظر چراتے ہوۓ ہلکی آواز میں پوچھا ”اس وقت تو ایک ہی بہن ہے وہ بھی اکیلی اگر تمھاری دوبہنیں شادی شدہ ہوتیں اور اپنے شوہروں کے ساتھ آکر اپنا حق مانگتیں توتم کس کس کا مقابلہ کرتے؟“ ”شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے“اطہر نے ایک سانس لیکرکہا ”ہووووں “سہیل نے ہوں کولمبا کرتے ہوۓپورےزورسے اپنی نظریں اس پر گاڑدیں ”یہاں تو تم اس معصوم کو دبالوگے مگر روزِمحشر اس پروردگار کے سامنے کس طرح کھڑے ہوگےجس نے وصیت تک کے لیۓ شرعی حصہ میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی؟“ سہیل کی نگاہوں کی کاٹ بڑی بھرپورتھی اطہر انکی تاب نہ لاپایا اسکی آنکھیں نم ہوگٸیں ”میں نےتو اس بات کو سوچاہی نہیں تھا“ اسکے لہجے میں تاسف تھا” کوٸ بات نہیں شیطان کے وار ایسی ہی جگہوں سے ہوتے ہیں۔ میں اسی انتظار میں تھا کہ مناسب موقع ملنے پر بات کرونگا۔۔۔ نازیہ کی شادی کا کیا ہورہاہے؟“اچانک اسنے سوال کیإ ”بس وہ مکان ہی کی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہورہا ہے۔ اسکا جہیز بناٶں تو مکان ڈیلے ھوجاۓگا“اسنے کمزور لہجے میں تاویل دی ”میرے دوست تم کن چکروں میں پڑ گۓ اپنا فرض اداکرو کندھے ہلکے کرو راستہ خودآسان ہوجاٸیگامکان بھی مرضی کا بنےگا تمھارے والدکی روح بھی سکون پاۓگی ۔ ابھی تووقت کی ضرورت کو سمجھو۔ نہ دینا بہت جہیز۔“ سہیل نے حوصلہ دلاتے ہوۓکہا ”ایسا نہیں ہے نا۔۔ میں ہربار اپنی تیاری نہ ہونے کی وجہ بتاکر وقت ٹالتا ہوں مگر انلوگوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جہیز نہ دیں اب ایسے میں۔۔۔“ ”ہمممم!! بھرے گھر کو اور بھرنے کی پلاننگ ہے“اسکا تفکر شایدکوٸ لاٸحہٕ عمل طے کر رہاتھا” خیریہ بتاٶ تم نے کیا سوچا؟“ ”سوچنا کیا ہے میرے دوست تمنے میری آنکھیں کھول دیں اللہ تمھیں خوش رکھے“ اطہر کی آواز میں تشکر کی نمناکی تھی سہیل مسکرا کے اٹھ کھڑا ہوا” تمھاری پذیراٸ ایک اور بات کہنے کا حوصلہ دے رہی ہے“ ” وہ کیا؟“ اطہر نے اشتیاق سے کہا”تمہارےدادا کابھی حصہ بنتا ہے بیٹے کے تر کے میں چاہے وہ رہتے الگ ہوں“ ” ہاں ہاں میں سمجھ گیاہر چیز کا خیال رکھونگا“اطہر پہ راہِ راست روشن ہوگٸ تھی سہیل نے مٹھی بند کرکے زبردست کا نشان بنایا اطہر گلے لگ گیا” مجھے تمھاری دوستی پہ فخرہے“ عرقِ تشکرکی گرمی سہیل کا کندھا نم کرگٸ
اگلے ہی دن نمازِمغرب سےواپس آتےہوۓ سہیل نے سلمان کو پکڑلیا” کبھی غریب خانے کو بھی رونق بخشو“ سلمان باتیں کرتے ہوۓ ساتھ ہی چلاآیا۔۔۔۔۔ صوفے پہ بیٹھتےہوۓ سہیل نےاسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا اور بزرگانہ اندازمیں بولاا”اور سناٶ برخودار ولیمےکی بریانی کب کھلارہے ہو؟“ ”بس چچا جان جیسے ہی وہ شبھ گھڑی آٸی“ سلمان نےانتہاٸ تابعدارانہ انداز میں گردن ہلاتے ہوۓ جواب دیا اورڈراٸنگ روم دونوں کےبےساختہ قہقہوں سےگونج اٹھا ۔ دونوں ہم عمر ہونے کےساتھ ساتھ ہم مزاج بھی تھے اسی لیۓ سلمان نے سہیل کےشستہ مذاق کونہایت سنجیدہ انداز میں بڑھاوا دیاتھا ۔” تو اب انتظار کس بات کا ہے؟“ ”بس اطہر صاحب ہی ہر دفعہ تیاری کا بہانہ کرکے ٹال دیتے ہیں۔بلکہ انھوں نےتوابھی ٹھیک سے منظوری تک نہیں دی ہے“ ” تو چھوڑو تیاری کا پیچھا، کہو بغیر تیاری کے شادی کریں“ سہیل نے کام آسان کردیا ”کیا مطلب؟“ سلمان کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ ”ارےبھٸ کہہ دو کہ کسی سامان وغیرہ کی ضرورت نہیں بس آپ شادی کردیں میں اپنے گھر کا سامان خود لےلونگا۔“ سہیل نے وضاحت کردی۔” مگر دونوں بڑے بھاٸیوں کی باری میں تو ایسا کچھ نہیں ہوا گھر کے رواج۔۔۔“ ”یار چھوڑو رواجوں کوانھوں نے کسے سکھ دیا ہے۔کوٸی تو پہل کرےگا نا؟“ سہیل نے جلدی سے بات کاٹ دی” یعنی جہیز بالکل منع کردیاجاۓ ؟“سلمان نے بےیقینی سے پوچھا ”ہاں تو اس میں حیرت کی کیا بات یے کیا ایسا ہوتا نہیں دنیا میں؟“”دنیامیں تو ہوتاہے مگرابھی ہمارے خاندان۔۔۔۔ اور پھر یہ معاملات توامی وغیرہ۔۔۔۔“”ارےشادی تم کرنے جارہے ہو امی وغیرہ تو صرف تمھاری مدد کررہی ہیں مہر خوب تگڑا سا تیار کیا ہے کیا؟؟“ ”ایسا تو کچھ خاص نہیں“ ” پھر بھی۔۔۔؟“ ”یہی کوٸ پچاس پچھتر تک۔۔وہ تاکہ ادا فوراً ہوسکے“سلمان نےشرمندگی کے انداز میں کہا سہیل کی آنکھیں پھیل گٸیں”اتنے میں تو کوٸی عمدہ فرج تک نہیں آتا ناہی فرنیچر۔ تم جہیز تو دس بیس لاکھ کا چاہتے ہو اور مہر صرف پچاس ھزار؟؟ یہ کوٸ انصاف ہے؟ بلکہ کسی پروفیسر کے بقول جہیز تو سرے سےحرام ہی ہے“سلمان نے حیرت اور خوف کے ملےجلے انداز میں چونک کرسہیل کی طرف دیکھا اسکی خاموشی بھی سوال تھی ”ہاں ہاں وہ کہہ رہے تھے کہ خمر اور میسر کی تشریح کسی عربی داں سے کرالیں ایزی منی ہے اور اسکی مثال جہیز ہے۔قرآن میں منع ہے تو حرام ہوا نا؟“”یعنی میں اس معاملے میں کود پڑوں؟“سلمان کوشرم آرہی تھی”نا تو بیٹھے رہو کوٸی دل گردے والا جہیز فری شادی کی آفر دیکر دلہن بیاہ لےجاۓ گا تم منہ دیکھتے رہ جانا۔۔“سہیل بڑا بے رحم ہو گیا تھا سلمان سہم گیا۔سہیل نےلوہا گرم دیکھ کے چوٹ لگاٸی ”تمھارے گھر میں کمی کس چیز کی ہے سلمان جس کی تم ایک یتیم لڑکی سے امید لگارہے ہو۔“اسکو منفعل ہوتا دیکھ کےایک اور گرہ لگادی ”خود اپنا حال یہ ہے کہ محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی کا مہر ۔۔۔“ ”کیا؟؟“ سلمان نے لفظ خوبصورت پرفوراً ہی خفگی کا اظہار کردیا ”بھٸ بچپن میں جب محلے میں کھیلتی تھی تو خوبصورت ہی تھی۔ اسکے بعد سے کسی چیچک یا پولیو وغیرہ کی اطلاع تو نہیں ملی“سہیل نے ہنستے ہوۓ اپنی پوزیشن واضح کی۔کیونکہ نازیہ ایک پردہ دار اور نیک لڑکی تھی۔ اطہر،سہیل اور سلمان تینوں بچپن کے ساتھی انتہاٸی شریف، سلجھے ہوے،مخلص اور بےتکلف دوست تھے۔ انکے والدین بھی تیس چالیس سال سےآپس میں قریبی رشتےداروں جیسے تعلقات رکھتے تھے۔ ایک جیسے خوشحال گھرانے تعلیمیافتہ اور دیندار،،،، نازیہ کو اسکے والد کے انتقال کے بعدسلمان کےوالدین نے بڑی چاہت سے مانگا تھا نازیہ کی امی اس رشتے پر مطمٸن بھی تھیں مگر وقت نے مہلت نہ دی اور وہ کوٸی رسم وغیرہ کیے بغیر داغِ مفارقت دے گٸیں۔سلمان اس رشتے پر بہت خوش تھا کیونکہ جتنااسنے دیکھا تھا اور جوکچھ سناتھا اسکے مطابق نازیہ اسکا آٸیڈیل تھی سلمان کی جڑواں بہنیں بھی نازیہ کی ہمجولی تھیں۔ سلمان نازیہ کوکھونے کا تصور بھی نہیں کرناچاہتاتھا۔ ”اچھا کچھ سوچتاہوں “ وہ جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گیاتھا ”سوچنے میں وقت ضایع ناکرنا۔ بی پریکٹیکل یار !! مجھےہی دیکھ لو ایک پیسہ سسرال کا نہیں لیاآج میرے گھر میں کسمپرسی ہے کیا؟“ ”نہیں تم تو ماشاءاللہ۔۔۔!“ ”سب اللہ کی رحمت اور میرے گھر والوں کا نصیب ہے۔ “سہیل نے بات کاٹ دی اس کے والد کا انتقال اسکی نوعمری ہی میں ہوگیا تھا۔اسلیۓ اسکے مزاج میں کافی پختگی آگٸ تھی سال بھر پہلے شادی کی تھی تومتوسط گھرانے کی لڑکی منتخب کی جودینی و دنیاوی علوم پر دسترس رکھتی تھی۔کامیاب وکیل اور پارٹ ٹاٸم پراپرٹی ڈیلنگ کرلیتا تھا۔ بہت دفعہ فیصلے پر پہنچنے میں وہ اپنےدوستوں سے بازی لےجاتاتھا۔اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ایک طرف تواسنے اطہر کاراستہ کھوٹا ہونے سے بچایا دوسری طرف ایک صالح گھر کی تعمیر میں حاٸل رکاوٹوں کو دور کرنے کا ازخود بیڑا اٹھالیا۔اپنے دونوں مخلص دوستوں کے حقِ دوستی ادا کرنے کے ساتھ ہی دراصل وہ صنفِ نازک کو اسکا شرعی حق دلانا چاہتا تھا جو پروردگار نے مردوں کے ذریعے سے عطا فرمایا ہے یعنی حقِ وراثت اور حقِ مہر،،،،، اپنے گھر میں وہ حقِ کاروبار و آمدن وخرچ بِلا اندیشہٕ بازپرس اپنی ماں، بیوی اور بہنوں کودیکر تو صبح وشام انکی دعاٸیں لےہی رہاتھا۔
<—————>
نازیہ کی آنکھوں سے آج بھی آنسو رواں تھے مگر یہ خوشی کے آنسوتھے جب اطہر نے اسے پے آرڈر لاکر دیا کہ لو میری بہن اپنا حصّہ اپنے اکاٶنٹ میں جمع کرالو ۔اطہرنےتمام ترکےکی مجموعی مالیت کا اندازہ لگواکر اپنا پلاٹ بیچ دیاکچھ کیش انویسٹمنٹ سے نکالا نازیہ اور دادا دونوں کے حصّے نکل آۓ۔اب پورا مکان اسکا اپنا تھا بنوانے کا خیال ملتوی ہوگیا اب شادی کی جلدی تھی سہیل نے کندھے ہلکے کرنے کی لگن لگادی تھی۔ دادا نےبھی اپنا حصہ نازیہ کی شادی کےلیۓ دیدیا اسے کہتے ہیں
‘ نیت صاف،منزل آسان’
<————>
چند ہی ہفتوں بعد نازیہ تازہ بہار کا پیغام لے کر سلمان کی زندگی میں آگٸ۔ مہر کا چیک دیتے ہوۓ وہ مسکرایا ” فدوی کا نذرانہ۔۔۔۔ اسے اپنے اکاونٹ میں جمع کرالیجۓ گا“ اس عزت افزاٸی پرتشکر کے آنسو پھر چھلک پڑنے کو بیتاب ہوگۓ ۔
<———– >
نازیہ نے جب گھر میں اپنے زیرِتجویز منصوبے کا اعلان کیا تو سسر صاحب نے بھرپور حمایت کی اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ نازیہ کی چھم چھم برسات پھر اسکا منہ چومنے آگٸ۔ یارب تونے کتنا نوزا۔۔۔ ھر رشتے کو مجھ پر مہربان کردیا ۔۔۔ دنیا کتنی حسین بنادی۔۔۔ میں کسطرح تیرا شکر ادا کروں۔۔۔ تو اسی طرح ہر عورت کو نوازدے۔۔۔ اس ملک کےہر مرد کو عورت کامحافظ بنادے۔۔۔ تو اپنا دین اپنا نظام اس ملک میں جاری کردے تاکہ ھر عورت مطمئن اور خوش ہوجاۓ ۔۔۔۔ عورت کوسواۓ گھر کے سکون کے اور کیا چاہیۓ“اسے اپنے آپ شرم آنے لگی کہ کچھ عرصہ پہلے کس طرح وہ فیمنسٹوں کو درست سمجھنے کی غلطی کر نے لگی تھی۔” میں تو ان کے چنگل میں پھنس جاتی اور اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتی۔۔۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: