Advertisement

حکومت کشمیر پالیسی ایسی بنائے کہ تکمیل پاکستان کا خواب پورا ہو، بیگم شمیم نذیر شال

گذشتہ دنوں ُعمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسولﷺ پرحاضری کی سعادت حاصل کرنے ُکل جماعتی حُرّیت کانفرنس کی سنیئر رہنما اورمعروف کشمیری حریت رہنما پروفیسرنذیراحمد شال مرحوم کی اہلیہ محترمہ شمیم نذیر شال سعودی عرب تشریف لائیں تو جموں کشمیر کیمونٹی اوورسیز (جے سی کے او) جدہ نے ان کے اعزاز میں ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ جس کی صدارت قونصل جنرل پاکستان جدہ محترم خالد مجید نے کی۔ بیگم شمیم ںذیرشال نے مسئلہ کشمیر کواُجاگر کرنے اور کشمیریوں کو اُن کا حق خودارادیت دلوانے کیلئے اپنے مرحوم شوہر کے ہمراہ مل کر بین الاقوامی سطح پرناقابل فراموش اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ عشائیہ کے موقع پربساط کے نمائندہ سعودی عرب سید مسرت خلیل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بیگم شمیم نے کہا کہ میں تو اس تحریک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوں۔ چونکہ میرا تعلق اس گھرانے سے تھا جو 1947 میں بھی اس تحریک کا حصہ رہے ہیں 1952 میں جب اس تحریک کو آگے بڑھانے وہ ایک وزٹ پر پاکستان آئے تھے تو فیملی کو پاکستان سے جانے پر روک دیا گیا تو پھر ہم ایک منقسم فیملی کا بھی حصہ رہے ہیں، پولیٹیکل فیملی کا بھی حصہ رہے ہیں اورآزاد کشمیر میں پہلی حکومت بنی تو اس کا بھی حصہ رہے ہیں۔ تو ہمارے خاندان نے قربانی تولازوال دی ہیں۔ جدائیاں دیکھی ہیں ۔ منقسم فیملی کی تکلیف وہ ہی جان سکتے ہیں۔ جو خود ڈیوائڈیڈ فیملی کا حصہ رہے ہونگے۔تو آپ سے زیادہ کون بہتر جان سکتا ہے جو یہاں پُرامن ماحول مین رہ کر پھرہر سال، چھ ماہ بعد اپنے گھر والوں سے مل سکتے ہیں ۔ تو ہمیں تو سالہا سال ہوگیا ہے اپنے والدین، بہن، بھائیوں سے جدا ہوئے۔ پچھے کیا ہورہا ہے ہمیں نہیں معلوم ہے۔ لیکن ہم ایک ذمہ داری سجمھتے ہوئے کہ کشمیری قوم کو انٹرنیشنل لیول پر فوکس ملنا چاہیے، ان کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہو اور جب کشمیری خود اس تحریک کو اپنے ہاتھ میں لیں گے، خود اس کو لیڈ کریں گے اور دنیا کو باور کرائیں گے کشمیر میں کیا ہورہا ہے تو ان کو پذیرائی ہوسکتی ہے۔ چونکہ مین خواتین کے حوالے سے کام کرتی ہوں۔ آل پاکستان حریت کانفرنس کا حصہ ہوں ، ایگزیکٹو ممبر ہوں، تو میری کوشش ہوگی کہ انٹرنیشنل لیول پرکشمیر کازکو اجاگر کروں۔ میرا تعلق بارہ مولا سے ہے۔ میں مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئیں، میری تعلیم و تربیت وہیں کی ہے ۔ میں جاب بھی وہیں کرتی تھیں۔ انھوں نے کہا اوورسیز کشمیری ہمارا سب سے بڑا طاقتورمحاذ ہے۔ وہ ہماری آواز ہے۔ وہ ہمارے سفارت کار ہیں۔ جب ہم سے کوئی چیز رہ جاتی ہے تو وہ اس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ ہماری طاقت اورسرمایہ ہیں ہمارا۔ اور ہمیں طاقت فراہم کرتے ہیں۔ جب مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت بڑھ جاتی ہے۔ جب مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کا ظلم و ستم بڑھ جاتا ہے۔ تو وہ اس تکلیف کو بیان کرتے ہیں یہاں پراور ان اداروں تک پہچاتے ہیں جن سے ہماری توقع بھی ہیں۔ ہم اور آپ جو رول پلے کررہے ہیں اپنے سفارت کاروں کے ساتھ اپنے سفیروں کے ساتھ۔، پھر آپ کی مشاورت سے جو پالسیاں بنتی ہیں اس کا ظاہر میں مقبوضہ کشمیر کے اندر بہت اثر پڑتا ہے۔ اور یہ ہی ہندوستان کو سب سے بڑی تکلیف ہے کہ کشمیری اور پاکستانی ایک ہی پیج پر کھڑے ہوکر ان کو جواب دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان اورعوام کی اظہاریکجہتی، سپورٹ اورحمایت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومتوں کا تذکیرہ نہیں کرتے ہیں ۔ ہم پاکستانی عوام کو ایک نیشن کے طور پرسمھجتے کہ وہ ایک بہت بڑا ہمارے لئے سرمایہ ہیں۔ اگر پاکستان کی ریاست کشمیریوں کے پیچھے اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی طور پرکھڑی ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ جس طرح ہندوستان نے غیرقانوںی طورپر دس لاکھ فوج کشمیر کے اندر بیٹھائی ہے، پاکستان کو یہ حق حاصل کہ فریق کی حثییت سے پھرکشمیرکے فریق کی حثییت سے اسے بھرپور انداز سے لڑے۔ تو ہم مطمئین تورہتے ہیں لیکن ہم اس سے اور زیادہ توقع رکھتے ہیں کہ جو بھی حکومتیں آئیں وہ ایک ایسی کشمیر پالیسی بنائیں جو مستقل بنیادوں پر ہو اس میں کسی اورکی انٹرفیرنس نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کشمیر پالیسی پارلیمنٹ میں بننی چاہیے اورمستقل بنیادوں بنی چاہیے تاکہ اسی طرح سے جو تکمیل پاکستان کا خواب ہے وہ پورا ہو سکے۔ عشائیہ میں دیگر کشمیری رہمنا راجہ شمروز، سردارمحمد اقبال یوسف، مسعود احمد پوری، چودھری محمد ریاض گھمن، سردار خورشید متیال، انجینئرعارف مغل، راجہ زرین خان اور معروف حسین بھی موجود تھے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: