دوستی سفر سے گروپ کا آج کا یہ سفر کافی عرصہ کے بعد یعنی اگست 2023 کے گورکھ ہل کے “مہم جوئ” کے سفر کے بعد پبلک کے پرزور اصرار پر طے پایا ، جس کے شرکا میں شفیق اللہ اسماعیل، انور ہاشمی ، اظفر غوری ، غوث جعفری، عبید اللہ کیہر ، طارق حسنی ، شیخ کمال ، عبد الباسط خان ، صفدر غوری ، عقیل عباس جعفری ، طارق فضلی ، محمد عفان خان، طارق چاندی والا، سہیل یعقوب، بدر الزماں فاروقی، شاہد رضوی اور محمد مشہود قاسمی شامل تھے۔
دوستی سفر سے گروپ کے اس مزکورہ سفر کی روداد کو دو حصوں میں منقسم کررہا ہوں۔ پہلے حصہ میں زرا وہ تفصیل بیان کردوں جو کہ مختلف جگہوں پہ اس جگہ کے بارے میں دستیاب ہے۔ کچھ سچی کچھ بیانی، کچھ کچی کچھ پکی ، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں ہے کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ۔
بیلہ، بلوچستان کے قریب واقع گندرانی غاریں، جو عام طور پر “غاروں کا شہر” یا “پرانے شہر گندرانی” کے نام سے مشہور ہیں، اس کو روغان شہر بھی کہا گیا ہے۔ جس کا مطلب۔ روحوں کا شہر بھی ہے۔ یہاں پر ایک مزار اور درگاہ کے موجود ہونے کی وجہ سے یہ ” ماھی پیر” کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے
پاکستان کی ایک تاریخی اور آثارِ قدیمہ کی اہم جگہ ہے۔ یہ مقام بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں بیلہ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ گندرانی کا شمار قدیم ترین مقامات میں ہوتا ہے اور اس کے متعلق کئی روایات اور تاریخی حوالے موجود ہیں۔
گندرانی کے بارے میں اہم تفصیلات:
- تاریخی پس منظر: گندرانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 7ویں صدی عیسوی میں آباد ہوا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ مقام بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے ایک مذہبی اور روحانی مرکز تھا، اور یہاں موجود غاریں اس دور کی رہائش گاہیں یا عبادت گاہیں ہو سکتی ہیں۔
- غاروں کی تعمیر: گندرانی میں تقریباً 150 اور ایک ہندی نیوی کے برطانوی افسر کے مطابق 1500 سے زائد غاریں موجود تھیں، جن میں سے کئی وقت کے ساتھ ختم ہو گئی ہیں۔ یہ غاریں پتھروں کو تراش کر بنائی گئی تھیں اور یہ اس وقت کے لوگوں کی محنت ، مہارت اور فن تعمیر کی ایک شاندار مثال ہیں۔
- مقامی روایات: ایک مشہور کہانی کے مطابق گندرانی میں ایک شہزادی “بی بی نانی” آباد تھیں، جنہوں نے ایک اژدھے کو شکست دے کر اس علاقے کو آزاد کروایا تھا۔ مقامی لوگ بی بی نانی کو ایک مقدس ہستی مانتے ہیں، اور بعض روایات کے مطابق ان کا مزار بھی یہاں موجود ہے۔
- بدھ مت کے اثرات: گندرانی کے آثار میں بدھ مت کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ غاریں اس وقت کے بدھ راہبوں کے لیے ایک پناہ گاہ اور عبادت کی جگہ سمجھی جاتی ہیں۔
- سیاحتی مقام: گندرانی اب ایک مشہور سیاحتی مقام ہے، جہاں لوگ قدیم تاریخ اور آثار قدیمہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ تاہم، یہ مقام زیادہ دیکھ بھال اور تحفظ کا محتاج ہے۔
- ماحولیاتی خوبصورتی: گندرانی کے اردگرد پہاڑی علاقے اور قدرتی مناظر اسے ایک پُرامن اور دلکش مقام بناتے ہیں، جو سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔
یہ مقام پاکستان کی تاریخی اور ثقافتی ورثے کی ایک انمول نشانی ہے، لیکن حکومت اور بھیعوام کی جانب سے مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اسے محفوظ رکھا جا سکے اور دنیا بھر میں اس کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔
اتوار کی صبح طے کئے گئے وقت یعنی ساڑھے سات بجے حسب معمول ڈالمیا والی پارکنگ پہ جمع ہونے اور ٹھیک آٹھ بجے روانگی طے کی گئ تھی مگر ماشاءاللہ دوست بالکل بروقت پہنچ گئے اور سواری کی گاڑی تو سوا سات بجے ہی پہنچ چکی تھی۔
تو ہم اپنے مقررہ وقت سے بھی دس منٹ پہلے روانہ ہوگئے۔
عمومی طور پہ ہم پاکستانی اس طرح کے سفر میں تو کیا کسی بھی گھریلو سماجی یا سرکاری تقریب میں وقت پہ پہنچنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اور دوسرے وقت پہ آنے والے کوفت کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر “دوستی سفر سے” گروپ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ چاہے اندرون کراچی۔ یا کراچی کے بیرون یا پھر۔ شہر سے باہر کے سفر کا معاملہ رہا وہ طے شدہ وقت پہ ہی ہؤا ۔
گلشن اقبال ناظم آباد اور سائٹ ایریا سے ہوتے پراچہ چوک سے RCD آر سی ڈی ہائ وے پر جا چڑھے۔ سفر شروع ہوتے ہی۔ دعائے سفر اور پھر شرکاء کے تعارف کی رسم بھی ادا ہوئی۔
آج کے اس سفر کی نشاندہی ہمارے گروپ کے ابن بطوطہ انور ہاشمی نے کی تھی جو اس سے پہلے بھی کئ مرتبہ خود اپنی فیمیلی کے ساتھ آچکے ہیں ۔
اب ہمارا پہلا پڑاؤ حب شہر کے بعد دائیں ہاتھ پہ سلطنت ترکیہ ریسٹورینٹ پہ تھا۔ جہاں پہ سب نے سیر ہوکے ناشتہ کیا اور ناشتہ وہی جو پورے پاکستان میں کراچی سے چمن ۔۔کراچی سے نگر پارکر ہو یا کراچی سے لنڈی کوتل ہو یا کراچی سے خنجراب پاس تک سارے ہی لب سڑک ہوٹلوں ڈھابوں میں وہی ایک ہی اسٹینڈرڈ مینیو والا ہوتا ہے یعنی پراٹھا انڈہ آملیٹ چنے اور ملائ مگر آج ملائ نا ملی۔ اور چھولوں میں کچھ مرغی بھی تھی۔ اور اس کے بعد کڑک چائے۔ اس ہوٹل پہ رکنے کی وجہ پرانا تجربہ رہا کہ ہم یہاں تین مرتبہ رک کے ناشتہ کرچکے تھے ۔صاف ستھرا اور اندرونی انتظام تو اندر اور بھی بہتر فیمیلی کے لئے پردہ پوش جگہ اور واش روم بھی مناسب اور پچھلی مرتبہ کاؤنٹر پہ بیٹھے مالک کو واش روم میں کموڈ لگوانے کی خواہش بھی کر آئے تھے جو کہ اس مرتبہ پوری ہوچکی تھی۔
سب سیاحوں کو یہ ہدایت بھی کہ اتنے صاف ستھرے واش روم آگے نہیں ملیں گے۔ تو کھائیں جتنا مرضی مگر تسلی سے بلکہ ” ڈٹ ‘ کے یہیں فارغ ہؤا جائے۔
اب اس سے آگے ہم ہیں اور آر سی ڈی ہائ وے کہ جس پہ ہم نے کم از کم ڈھائ گھنٹے سفر کرنا ہے بیلہ تک اور اس راستہ پر کوئ بہت اچھی لینڈ اسکیپ نہیں ہے مگر پتھر اور مٹی کی پہاڑیاں ضرور اپنی جانب توجہ مبذول کرتی ہیں اب دوستوں کی آپس کی خوش گپیاں، چہلیں فقرے بازی اور واقعات شروع ہیں کبھی اجتماعی طور پہ اور کبھی کچھ گروپ میں مگر اکثر باتوں پہ مزا سب لیتے۔
تمام پرانے دوست ہمیشہ ہی مختلف موضوعات پہ بحث کی حد تک مشغول ہوجاتے ہیں جس میں سیاحت ثقافت علاقائیت سماجیات کے ساتھ کبھی کبھار سیاسیات اور مزہبیات بھی زیر بحث آجاتی ہیں مگر اس میں بھی شائستگی اور دوسرے کے احترام ۔کا پہلو نظر انداز نہیں ہوتا۔ اور کسی بھی بحث کو کبھی بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں لے جایا جاتا ۔
آج کچھ خلاف معمول گفتگو میںں مشاعرہ نا ہوسکا اس درمیان ہم نے عبید اللہ کیہر سے ان کی سیاحت کے لئے کاوشوں کے بارے میں بھی کچھ سنا جو کہ انہوں نے گاڑی میں لگے ساؤنڈ سسٹم پہ بیان کیا ۔
آر سی ڈی ہائی وے اور مکران کوسٹل ہائ وے کے زیرو پوائنٹ سے جہاں پر کنڈ ملیر میں قدرتی طور پہ مٹی کے پہاڑی ٹیلہ پہ بنے ایک مجسمہ کی صورت کو جس کو ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی نے اپنے سفر کے دوران اس کو ” پرنسس آف ہوپ” کا نام دیا تھا۔ کا ایک سیمنٹ پتھر سے بنا ایک ریپلیکا بنا سجا ہے سے گزرتے ہم بیلہ جا پہنچے اور وہاں ایک اور نسبتا صاف ریسٹورینٹ پہ رکے اس جگہ بھی ہم کوئٹہ کے سفر میں رکے تھے۔ بس دس منٹ رکے کہ دوست واش روم کی سہولت سے فائیدہ اٹھا لیں۔
اور وہاں سے کچھ آگے ہائ وے سے بائیں ہاتھ پہ مڑے۔ اب ہمیں اس مقامی سڑک پہ تقریباً 15 کلو میٹر سفر کرنا۔ اور یہ سڑک بھی کچھ مناسب ہی تھی۔ دائیں بائیں اور کبھی گول گول گھومتی یہ سڑک کچھ گاؤوں اور دور دور کچھ کم کم آبادی سے گھماتی قریب پندرہ کلو میٹر کے بعد ایک ایسی جگہ لے آئی کہ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی اس بڑی گاڑی یعنی ٹویوٹا کوسٹر کو کس طرح اس سڑک سے نیچے اترتے کچے راستے پہ ڈالیں جو کہ ریتیلہ ہے خیر بسمہ اللہ پڑھ کرگاڑی کو نیچے اتارا۔ اور نیچے جاکر پھر ایک ایسی جگہ پہ جا رکے کہ بہتے پانی کا ایک نالہ ہے۔ ڈرائیور کچھ متزبزب ہے کہ گاڑی اس میں ڈالے یا نہیں۔ تو آگو صاحب گاڑی سے اتر اور جاکر راستہ کا معائنہ کرنے چلے۔ نالے میں پانی کچھ زیادہ نا تھا اور اتران اور دوبارہ چڑھان سے بھی کچھ مشکل نہیں لگتی تھی۔ تو آگو پیدل پیدل اور نالے کو اس میں رکھے پتھروں پہ پیر رکھتے عبور کیا اور پیچھے پیچھے گاڑی بھی۔ اب ویرانہ ہے صحرا کی طرح۔ اطراف میں پہاڑیاں دائیں ہاتھ والی پہاڑی اوپر سے بالکل سیدھی جیسے سطح مرتفع۔ کچھ ہی دور آگے چلے تو موٹر سائکل پہ سوار ایک بلوچ صاحب نےآگے آکر گاڑی رکوادی۔
اور بس شیخ کمال جو کہ پورے راستے باقی دوستوں کو ڈراتے ہی رہے نے جل تو جلال تو۔ پڑھنا شروع کردیا۔ مگر یہ تو ہمارے مقامی میزبان اور گائڈ عبدالرزاق براہوی بلوچ تھے۔ بس اب آگو ان کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ گئے اور اپنا فون کیمرہ سیلفی اسٹک پہ جما۔ اور کمنٹری کرتے اور عبدالرزاق سے انٹرویو کرتے آگے آگے جارہے ہیں اس تمام تصاویر اور ویڈیوز کا کیا ہؤا۔ یہ آخر میں بتاؤں گا۔
عبدالرزاق نے بتایا کہ یہ راستہ دراصل بارشوں کے پانی کا راستہ ہے اور یہاں طوفانی بارشیں ہوتی ہیں بارش کے موسم میں بہت بڑے اور تیز پانی کے ریلے آتے ہیں اور ہر بارش ہر سال ایک دو انسانی جانوں کا خراج وصول کر جاتی ہے۔
اس وادی کو دیکھ کر نا جانے کیوں 2014 میں عمرہ کے دوران مدینہ کی وادئ جن کی یاد آگئ۔ کہ شائد وہ بھی اسی طرح سے گھوڑے کی نعل کی شکل کی ہے مگر اس کے درمیان تو سڑک بھی ہے۔ اور اب تو کچھ ہوٹل بھی بن گئے ہیں جہاں پر خیمے اور پکے کمرے دونوں دستیاب ہیں ۔
بہرحال ہم مٹی کی پہاڑیوں سے گھری ایک وادی میں جا پہنچے اور بائیں ہاتھ کی پہاڑی کے سائے میں گاڑی کھڑی کردی۔
کچھ ہی آگے پانی کا ایک چھوٹا سا نالہ بہتا آرہا تھا۔ جس میں کچھ مقامی کھڑے اپنی موٹر سائیکلیں اور کراچی سندھ اور بلوچستان میں دستیاب سب سے معیاری اور اعلیٰ سواری چنگچیوںکو دھورہے تھے اب یہ چنگچیاں یہاں پہ کیا کررہی ہیں۔ دراصل وہ جو درگاھ اور مزار ہے۔ “ماھی پیر” کا مقامی لوگ وہاں پہ حاضری دینے آتے ہیں تو یہی سواری ان کے کام آتی ہے۔
اب تمام دوست نیچے اتر اپنے کیمرے۔ فون کیمرے سیلفی اسٹک۔ اور طارق حسنی جن کے پاس ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ اعلیٰ اور پیشہ ورانہ قسم کے کیمرے ہیں تو آج کچھ خاص اہتمام کرکے آئے تھے کہ اپنے ساتھ پیشہ ورانہ قسم کا ٹرائ پوڈ مگر پتا نہیں کیا ہؤا کہ جلد ہی انہوں نے اس اسٹینڈ کے دو ٹکڑے کردیے۔
بہر حال سب بائیں ہاتھ کی دو پہاڑیوں کے درمیان سے وادی میں جا گھسے ۔ دونوں اطراف کی پہاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے کمرے نما غار ہیں اور ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے کسی ہوٹل یاریزورٹ کے کمرے ہوں۔ اوپر نیچے دائیں بائیں۔ بے شمار۔ گنتی نہیں ہوسک رہی۔ مگر یہاں ان غاروں کو گنتی کون کرے۔ سب اس کوشش میں ہیں کہ ایک ایک غار کے اندر جاگھسیں۔ مگر اوپر چڑھنے کے لئے کوئ سیڑھیاں تو بنی ہیں نہیں۔ اور نا ہی کوئ ایسا آسان راستہ۔ بس جس طرح پہاڑی ہوتی ہے۔ ویسی ہی ہیں۔
بنیادی طور پہ یہ پہاڑیاں مٹی کی ہیں اور ان میں بیچ بیچ میں پتھر جڑے ہیں شائد یہ مٹی ان پتھروں کی ہی وجہ سے جڑی ہیں۔ بیچ بیچ میں کچھ جنگلی جھاڑیاں بھی ہیں۔ خیر جی آگو نے سب سے پہلے دائیں ہاتھ پہ موجود پہاڑی پہ بنے غاروں کو دیکھنے کے لئے ہمت باندھی اور اوپر نیچے پیر رکھتے پتھروں کو پکڑ پکڑ اوپر جا پہنچے۔ کیمرہ اسٹک صفدر غوری کو تھما اوپر جا چڑھے۔ جس کو انہوں نے اسٹک کو پورا لمبائ میں کھول کے بمشکل اوپر تھمادیا۔ اور آگو کی تقلید میں کچھ اور دوست بھی مشہود قاسمی اور صفدر غوری بھی۔ یہ غار ایک بڑے کمرہ کی طرح تھا اور غار کے منہ کی نسبت اندر سے زیادہ چوڑا تھا۔ منہ یا دروازہ سے پانچ یا چھ فٹ دونوں طرف سے چوڑا تھا یعنی سات آٹھ افراد بآسانی لیٹ سکتے ہیں۔بہت ممکن ہے کہ یہ غار کسی طرح قدرتی ہوں مگر اس کی چوڑائی اور فرش کو ہموار کرنے کے لئے کسی انسانی ہاتھ کی کارگزاری ہے کہ دیواروں کو فرش کو اور کسی حد تک چھت کو بھی کھرچا گیا ہے اس غار کا بغور جائزہ اور معائنہ کرکے اب نیچے اترنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے ان ٹیلوں پہ چڑھنا تو خیر مشکل ہے ہی۔ مگر اوپر سے نیچے اترنا اوپر چڑھنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے مگر بہرحال اترنا تو ہے ہی۔ کہ بیٹھ بیٹھ کر جمے پتھروں پہ قدم قدم رکھتے اترے اور اس اترنے کی ویڈیو اظفر غوری نے بنائ بھی اور گروپ میں کچھ جملے لکھ کر پوسٹ بھی کردی ویسے وہ دورہ سکھر میں اکبر علی کے پھسل پھندے سے پھسلنے کے جیسے کسی منظر کے منتظر تھے۔ اور اسی لئے کیمرہ آن کئے ویڈیو بنا رہے تھے۔ ورنہ وہ کیمرے سے زیادہ اپنی آنکھوں سے مناظر دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
اب چلتے ہیں دوسری طرف کی پہاڑی پہ کہ جس میں۔ بھی بہت سے ایسے ہی غار موجود۔ اب ادھر بھی وہی مشکل کہ کیسے چڑھیں۔ مگر بہر حال ہے اگر کوئ مشکل۔ تو مشکل کشاء بھی موجود۔ اور وہی مشکل کا حل بھی تلاش کروادیتا ہے۔ اللہ بڑا بادشاہ ہے تو ادھر بھی کسی طرح راستے تلاش کرتے۔ راستے بناتے اوپر چڑھے۔ اور اس مرتبہ سیلفی اسٹک ہاتھ میں پکڑے کیمرہ آن کئے اور ایک دور سے بڑا حیرت ناک نظر آنے والے غار کے منہ پہ پہنچ ہی گئے۔ اب یہاں ایک نہیں بلکہ کئ ایک غار ہیں اور اسی طرح کے جیسے دائیں والی پہاڑی کے پہلے غار تھے۔ مگر کچھ نہ کچھ تبدیلی کے ساتھ یہ پہاڑ پتھر کے نہیں بلکہ کچی مٹی کے ہیں۔ جس پر پیر رکھنا۔ پھونک پھونک کے رکھنا ہے ورنہ زرا سا پیر رپٹا۔ نون عین غین۔
سمجھ جائیں اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ نا سمجھ آئے تو۔ گوگل کرلیں۔ مگر پاکستانی گوگل۔
غاروں کے باہر کی طرف جو پہاڑی کا حصہ ہے وہ کچھ مٹیالہ ہے جیسے پانی کے ساتھ مٹی گارہ بن جاتی ہے ویسا۔ شائد بارش کا پانی اوپر سے مٹی کو ساتھ لیتا آتا ہو اور وہ گارہ پہاڑی سے چپک گیا ہے۔ اور غار کے اندر کچھ صفائ سی نظر آتی ہے تو یقیناً اندر سے کسی انسان نے ہی کٹائ چھٹائی کی ہو۔ اور غار کو کشادہ کیا ہو۔
اب آہستہ آہستہ نیچے سے باقی دوست کسی بھی طرح مشکل سے ہی صحیح مگر اوپر آتے ہی چلے ہیں۔ اور کچھ ہی دیر میں تمام مہم جو سیاح اوپر پہنچ چکے ہیں جس میں طارق چاندی والا۔ سہیل یعقوب طارق فضلی مشہود قاسمی صفدر غوری شیخ کمال وغیرہ اور اب سلسلہ شروع ہے سیلفیوں اور پوز بنا بنا کر تیری میری تصویریں۔ ظاہر ہے کہ وہاں اب اور تو کچھ کام ہے نہیں۔ منظر کشی یا تصویر کشی۔۔ شہری لوگوں کے لئے تو یہ سب ویسے ہی بہت حیرت انگیز اور انوکھا ہوتا ہے۔
اب نیچے اتر۔ کر مزید آگے کی طرف چلنا شروع ہیں۔ یہ سارا راستہ جس پہ ہم چل رہے ہیں بھربری مٹی اور اس پہ بکھرے چھوٹے بڑے پتھروں سے اٹا ہے۔ یہاں پر بھی قدم دیکھ دیکھ کر رکھنے پڑے۔ کیونکہ مٹی میں پیر دھنستے اور پتھر پہ پھسلتے۔
مجھے تو گاڑی سے اترتے ہی اپنی دل چسپی کی چیزیں مل گئ تھی۔ یعنی زمین پہ بکھرے چھوٹے بڑے پتھر۔ چپٹے گول۔ نوکیلے لمبے ہلکے وزنی۔
یہ پتھر دراصل اس راستہ پہ پڑے ہیں جو پانی کی گزرگاہ ہے اور نا جانے کہاں کہاں سے بارش کے پانی کے ریلہ سے بہتے لڑھکتے چلے آتے ہیں۔ اور اسی سفر میں کٹتے پھٹتے مختلف اشکال اختیار کر لیتے ہیں اورجہاں بھی زرا سی رکاوٹ ملتی ہیں وہاں پر اٹک جاتے ہیں۔ یہ ایسے خوبصورت رنگدار اور مختلف شکلوں کے پتھر ہیں کہ دل موہ لیتے ہیں اور میں تو اس طرح کی جس جگہ پہ بھی جاتا ہوں اپنی پسند کے پتھر چننے لگتا ہوں۔ چاہے گورکھ ہل ہو۔ کیرتھر میں مہر جبل ہو رنی کوٹ ہو یا پھر سمندر ہو۔ ہمارے کچھ دوست تو اس کام کو دیکھتے میرا مزاق بھی اڑاتے ہیں۔ کہ کیا سونا ڈھونڈ رہے ہو۔ تو میں کہتا ہوں۔ سونا نہیں۔ ہیرے اور موتی۔
اور میرے لئے تو یہ ہی ہیرے اور موتی ہیں۔ گھر لاکر۔ پہلے تو بیوی سے باتیں سنتا ہوں۔یعنی ڈانٹ
( ایک تو ہرہفتہ ہی کوئی نئی کتاب لانے اوردوسرا ہر مہینہ یہ پتھر لا نے پر ) مگر ڈھیٹ بن کر اور دونوں کانوں کا درست استعمال کرتے ان پتھروں کو صاف کرکے دھو دھا کر کہیں نا کہیں سجا دیتا ہوں۔ مجھے اپنے دورہ امریکہ میں تجربہ یاد آتا ہے کہ ۔ دو جگہوں پہ ایک نیو جرسی میں لبرٹی پارک کے میوزیم اور گفٹ سینٹر میں اور دوسرا شکاگو میں جہاں مشی گن اسٹریٹ پہ ایک کافی شاپ میں حامد اسلام خان اور احتشام ارشد نظامی صاحبان کے ساتھ کافی پینے گیا تو ان دونوں جگہوں پہ بہت ہی خوبصورتی سے میز پہ بہت ہی و صورت پتھر سجے دیکھے۔ چھوٹے چھوٹے زیادہ بڑے نہیں۔ مگر چمکدار پالش ہوئے۔ ملائم ایسے کہ ہاتھ سے پھسل پھسل جائے۔ اور مخمل کی بنی اتنی ہی بڑی تھیلیاں جیسے ہم اپنے یہاں کی شادیوں میں نکاح کے بعد چھوارے بانٹنے کے لئے بناتے یا۔ خریدتے ہیں ۔۔ 8-9 امریکی ڈالر کی ایک تھیلی۔ خود ہی بھرلیجئے۔ اور کاؤنٹر پہ جاکر نقد یا کارڈ سے ادائگی کر دیجئے۔ مجھے یہ پتھر دیکھ کر ہمیشہ امریکہ یاد آجاتا ہے۔ کہ انہوں نے تو ان بے وقعت پتھروں کو تھوڑی سی کوشش کرکے۔ قیمتی بنادیا۔ ہم یہ کب کریں گے۔ یا کبھی بھی نہیں۔
خیر یہ پروجیکٹ میرے زہن میں ہے ضرور۔ اب ان پتھروں کو جمع کرنے کا خیال اس سفر سے پہلے زہن میں تھا ضرور۔ مگر گھر سے نکلتے ہوئے ان کو جمع کرکے لانے کے لئے کینویس کا ایک شولڈر بیگ گھر ہی بھول آیا۔ تو ایک دو شاپر جو میرے سفری بیگ میں تھے ان میں سے ہی ایک کو استعمال کیا۔
اب ہم مزید آگے چلتے چلے جارہے ہیں۔ جو زرا سا اونچائی بھی اختیار کرتا جارہا ہے۔ اور میں پتھروں کو دیکھتا چنتا تصویریں اور ویڈیوز بناتا چلا جاتا ہوں۔ میرے کبھی آگے کبھی پیچھے۔ طارق حسنی۔ اظفر غوری ، صفدر غوری، انور ہاشمی، شاہد رضوی، عفان خان، غوث جعفری وغیرہ۔
ہم سمجھ رہے ہیں کہ آگے جاکر بس راستہ ختم مگر سیدھے چلتے جب آخر تک پہنچے تو راستہ دائیں ہاتھ پہ مڑ جاتا ہے اور اسی طرح سے دو پہاڑیوں کے درمیان سے گزرتے اور آگے۔ اور آگے جاکر پھر لگتا ہے کہ۔ وہ آخر آگیا۔ مگر جب وہاں پہنچے تو۔ وہ آخر نہیں۔ بلکہ پھر راستہ اسی طرح سے بائیں ہاتھ مرجاتا۔ ہم بس اسی مقام پہ کونے پہ ایک کمرہ نما غار کے منہ پہ پہ بیٹھ گئے۔ اب شاہد رضوی۔ اظفر غوری وغیرہ تو آگے اور مزید آگے۔ چلے جارہے ہیں۔ وہ تو اظفر غوری نے شاہد کو یاد دلایا کہ بھائ۔ “
روغان شہر ” کا مطلب ہے۔ روحوں کا شہر۔ تو جب ہی۔ یہ لوگ کچھ جلدی جلدی چلتے واپس آگئے۔
اب ہم ادھر بیٹھے ہیں کچھ گپ شپ کہ طارق حسنی اور غوث جعفری میں ایک علمی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کہ ” لوہا ” زمین کی پیداوار نہیں بلکہ۔ کسی اور دنیا یا ستارے سے اللہ نے اتارا ہے۔ جس کو آج کی سائینس خود ثابت کرتی ہے۔ اور قرآن نے سورۃ الحدید میں یہ بات 1400 برس پہلے بیان کردی۔ بات تو دونوں ہی ایک ہی کررہے تھے۔مگر گفتگو کچھ اختلافی بحث کا رخ اختیار کرتی چلی جارہی ہے مگر یہ شائد سب کو نہیں پتا ہے کہ طارق حسنی کا انداز بیان ہے کچھ اور ہے کہ وہ کسی کی بات کا جواب کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ اختلاف کررہے ہیں یا دوسرے کی بات کو رد کررہے ہیں مگر بات بالکل وہی ہوتی ہے کہ جو دوسرے نے شروع کی ہوتی ہے
اتنے میں عبد الباسط عبدالرزاق کے بیٹے کے ساتھ چلتے چلے آگئے۔ بعد میں واپسی پہ پتا چلا کہ یہ آدھا راستہ موٹر سائیکل پہ بیٹھ کے آئے تھے۔ بس کچھ دیر وہاں بیٹھ کر گپ شپ کرکے وہاں سے پھر پیدل۔
اب ہمارا واپسی کا سفر۔ گاڑی تک
پھر دوبارہ پتھر دیکھتے۔ غاروں کو دیکھتے۔ ان کے اندر جھانکتے۔ میں نے یہاں آتے وقت دو بہت ہی انوکھے پتھر دیکھ کر ایک جگہ رکھ دئے تھے اور مشہود قاسمی کو بتاکر کر ایک نشانی کے ساتھ ایک جگہ رکھ دئے تھے ان پتھروں میں کچھ خاص بات تھی۔ لگتا تھا کہ ان کے اندر فوسل ہوسکتے ہیں۔ تو سوچا کہ گھر جاکر مناسب اوزاروں سے اس کو توڑوں گا۔ مگر واپسی میں میں اور مشہود قاسمی ان پتھروں کو تلاش ہی کرتے رہے۔ مگر وہ نا ملے۔ ہر کونہ ہر ٹیلہ ایک جیسا ہی لگا۔ خیر مٹی پاؤ۔ اسی میں خیر ہے۔ کہ گھر پہ تھوڑی ڈانٹ پڑنے سے رہ گئ۔
طارق فضلی نے بھی فرمائش کی تھی کہ ان کو گھر کے باغیچے کے فوارہ کے لئے چند پتھر لینے ہیں تو کوئ تھیلی ہے ؟
تو ان کو کینو کی پیٹی خالی کرکے دے دی گئ۔ کہ اس میں جمع کرلیں تو واقعی یہ پتھر تو ابھی سے قیمتی ٹہرے۔
اب گاڑی تک گئے وہاں پہ تو کینو کھانے کی مجلس سجی ہے۔۔ اور جہاں جس پہاڑی کے سائے میں بیٹھے ہیں اس کے پیچھے ہی ایک چھوٹا سا غار نما کمرہ ہے۔ جسے یقیناً انسانی ہاتھ نے ہی تراش کر بنایا ہوگا۔ اس میں ایک گیس کے سیلینڈر لگے سفری چولھے پہ چائے بھی چڑھی ہے۔ جو ہمارے ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے آنے والے عبیداللہ کیہر کے دوست بنارہے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ ہماری وین میں میرے اصرار کے باوجود اپنی جیپ میں سوار ہی آئے۔
پانی کے اس چھوٹے سے نالہ میں مشہود قاسمی عفان وغیرہ جوتے اتار پاؤں بھگوئے کھڑے ہیں۔
اب ہم نے جانا ہے کھانے کے لئے جس کا انتظام عبدالرزاق نے اپنے گاؤوں میں کیا ہے۔
تو سب دوست گاڑی میں بھر اور گاؤوں کی طرف۔ اور راستہ ؟۔ وہی راستہ جس سے ہم آئے تھے وہی پہاڑیوں کے درمیان گھرا کچا پکا راستہ اور بیچ بیچ میں۔ پانی کو پار کرتے اور پھر اونچائی کی طرف۔
یہ راستہ ہے تو ریتیلہ اور اکثر جگہ پتھروں سے بھرا۔ جس پر سے گزرنے کے لئے گاڑی کو کوئ مشکل نہیں کیونکہ اس میں 4400 ہارس پاور کا انجن اس طرح کے مشکل راستوں میں سے گزارنے کی بھرپور طاقت و صلاحیت رکھتا ہے۔
خیر گاؤوں کی طرف چلے تو وہاں بڑا باقاعدہ قسم کا انتظام لگ رہا ہے۔ کہ اس ویرانے میں شامیانہ گڑاہے۔ اور۔ اس کے قریب ہی ایک واش روم بھی۔
یہ سب دیکھ کر ہی کچھ اطمینان سا ہؤا۔
واقعی جنگل میں منگل کا سماں تھا
وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے تو اکثریت نے طارق چاندی والا کی امامت میں نماز ظہرین ادا کی گئ۔ اور پھر شامیانہ میں گاؤ تکئے لگا کر کرنے لگے آرام۔
اور اسی دوران عبید اللہ کیہر نے اپنے ساتھ لائے گئ اپنی ایک کتاب ” کراچی جو اک شہر تھا ” کی چند کاپیاں دوستوں میں تقسیم کردیں اور انور ہاشمی ،اظفر غوری ، عفان ،شاہد ڈرائیور بابر کے ساتھ بار بی کیو کا،انتظام کرنے لگے۔ یہ بار بی کیو۔ چکن تکے تھے جن کا انتظام کراچی سے ہی کرکے چلے تھے۔ یعنی۔ گزشتہ رات ہی چکن پہ پیشہ ورانہ مصالحہ لگا کر اس کو فریز کرلیا گیا تھا۔ اور آتے وقت ایک آئیس باکس میں راستہ سے خریدیں ہوئ برف لگا کر اس کو محفوظ کرلیا گیا تھا ۔
اب وہیں کچھ اینٹوں سے بنی انگیٹھی تیار کی گئ۔ اور اس پہ ہمارے یہ بہت ہی ” تجربہ کار ” اور پیشہ ور قسم کے شیف حضرات اس چکن تکوں کو بھوننے لگے۔
ہمارے میزبانوں نے ایک چکن سالن اور ایک فرمائشی ڈش آلو مٹر گاجر کی مکس سبزی کا سالن بھی تیار کر رکھا تھا۔تازہ کٹا سبز سلاد اور دہی کا رائتہ اور ڈھیروں روٹیاں۔ وہ بھی گرم۔ تو یہ تو واقعی محاورہ کا درست استعمال ہوگیا کہ جنگل میں منگل۔
اور اس سب کے بعد بغیر اعلان کے گاجر کا حلوہ۔
یعنی مزا بھی۔ اور دوبالا بھی۔
بالا خانہ نہیں۔ نا ہی شہ بالا۔
پھر اس تمام کے بعد۔ چائے۔ وہ بھی بکری کے دودھ کی۔
اب واپسی کا سفر۔ وہی پرانا راستہ۔ اس علاقہ سے پندرہ کلو میٹر کے سفر کے بعد آر سی ڈی ہائ وے۔ اب پروگرام یہ بنا کہ کسی ایسی جگہ پہ رکیں گے جہاں واش روم۔ چائے اور مغربین ادا کرسکیں۔
ارادہ تو کچھ آگے جاکر رکنے کا تھا۔ مگر بدرالزماں فاروقی صاحب کے واش روم کی حاجت کی بار بار اصرار کرنے پر کچھ پہلے ہی رک گئے۔ جہاں چائے تو کچھ مناسب ہی تھی اور نماز کے لئے بھی ایک مسجد مگر واش روم کی سہولت کچھ زیادہ اچھی نا تھی۔
بہر یہ سب لوگ سفر میں اس سب کے لئے زہنی طور پہ تیار ہی رہتے ہیں۔ ویسے ہم اس سلسلہ کاایک انتظام بھی کرکے نکلتے ہیں۔ ایک پورٹیبل اور فولڈنگ کموڈ کی شکل میں۔
راستہ میں گاڑی میں ڈیزل بھرواتے اور لیاری ایکسپریس وے سے گزرتے ہم تقریباً پونے دس بجے۔ پارکنگ یارڈ تک واپس۔
اب کچھ تبصرہ ان غاروں پر
مختلف نیٹ کی سائٹس اور گوگل پہ دی گئ معلومات کے مطابق یہ غار قدرتی ہیں جو کہ پانی کے گزرنے اور ہوا کی وجہ سے یہ ان غاروں کی شکل میں وجود میں آئے ۔
ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ ہم نے ہنگول پارک کی سیر کے دوران کنڈ ملیر اور اس سے آگے کے علاقے میں اسی طرح کے غاروں اور دیگر مختلف شکلوں کو دیکھا تھا۔
دوسرا یہ کہ یہ غار کچھ مزہبی لوگوں نے بنائے تھے۔ جو شائد بدھ مذہب کے پنڈتوں نے اپنی کچھ خاص عبادتوں کے لئے مخصوص کررکھے تھے۔
مگر ہمیں وہاں ان غاروں کے اندر جاکر بھی ایسے کوئ آثار نا ملے۔ حتیٰ کہ ان دوستوں کو بھی نا ملے جو ان پہاڑیوں میں کچھ مزید آگے تک چلے گئے تھے۔
میرا تو یہی خیال ہے کہ یہ پراسرار غاروں کا طویل سلسلہ یہاں پر ہونے والی طوفانی بارشوں اور تیز ہواؤں کی وجہ سے وجود میں آگئے۔ جن کو یہاں کے مقامیوں نے بیرون کے حملہ آوروں سے بچاؤ کے لئے ان غاروں کے دروازوں کو چوڑا اور اندر سے مزید وسیع اپنے ہاتھوں سے کیا اور اب یہ غار مقامی لوگوں کے لئے آکر ان کے اندر کچھ وقت گزارنے کے کام آتے ہیں ۔
اور ہمارے جیسے قدرتی نظاروں کو تلاش کرنے اور قدرت سے قریب ہونے والے مہم جو سیاحوں کے لئے اپنے اندر بہت جاذبیت رکھتے ہیں ۔
بات یہ ہے کہ حکومت کچھ کرے یا نا کرے۔ اور شائد کرے بھی نہیں۔ کیونکہ سیاحت تو ہماری کسی بھی حکومت کے نزدیک قابل ترجیح کام ہے ہی نہیں۔ بس یہاں کے مقامی لوگوں اور ہم جیسے مکمل جو قسم کے سیاحوں کو ہی یہ کام اسی طرح سے جاری رکھنا پڑے اور اپنے وسائل سے ہی ایسی جگہوں پہ جاتے رہنا پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ یہاں ” مری” کے جیسے ظالم اور بے حسی اور منحوس دکانداروں کا رخ ہو جائے۔
اور یہ سستی سیاحت عام آدمی کے بس سے باہر ہو جائے۔
ایک خیال کے مطابق یہ تمام غار صرف اور صرف انسانی ہاتھ کا کام ہے۔ تو ممکن ہے کہ ایسا ہو۔ مگر ہے تو پھر یہ بہت پرانی بات ہوگی۔ ورنہ اگر آج کی ہوتی تو پھر ان کو بنانے والے اس کی وصولی بھی کرتے ملتے۔
مگر ہمیں اس ویرانے میں۔ ماھی پیر کی درگاھ تک لے جانے والے تو نظر آئے۔ مگر غاروں کے شہر کی طرف رہنمائی کے لئے ہمارے میزبانوں کے علاؤہ کوئ دوسرا نہیں ملا۔۔
اب آخری بات۔ جس کا میں نے کچھ پہلے اظہار کیا تھا۔ کہ میں نے جتنی بھی تصاویر اور وڈیوز بنائ تھیں۔ میرے فون کیمرہ کے میموری کارڈ کے کرپٹ ہوجانے کے باعث تمام کی تمام ڈیلیٹ ہوگئیں۔اب سیاست دانوں۔ سرکاری اہلکاروں کے بعد یہ الیکٹرانک گیجٹ بھی۔ کرپٹ ہونے لگ گئ ہیں۔