Advertisement

ماہنامہ بساط کے 20 سال: رودادِ نشست

ابراہیم جلیس ہال، کراچی پریس کلب کی شام اس روز ایک خوشگوارسی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ ہال میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا کہ لفظوں کا ایک قافلہ یہاں اتر آیا ہے۔ وہ لکھنے والی خواتین جو برسوں سے ’’بساط‘‘ کے صفحات پر اپنے خیالات، احساسات اور تخلیقی رنگ بکھیرتی آئی ہیں، آج ایک چھت تلے جمع تھیں۔ موقع تھا ماہنامہ بساط کے بیس سالہ سفر کی تکمیل کا اور دعوت دینے والی تھیں اس کی روحِ رواں، چیف ایڈیٹر راشدہ انجم صاحبہ۔
ہال میں دھیمے لہجوں میں گفتگو، چائے کی خوشبو اور خوشگوار مسکراہٹیں گوندھ کر ایک ایسا ماحول بنا رہی تھیں جو ادب کی مہک سے بھرپور تھا۔
نشست کا باقاعدہ آغاز مدیحہ اعجاز کی سورہ نوح کی آیات کی تلاوت اور طوبی ناز کے ہدیہ نعت سے ہوا۔
راشدہ انجم صاحبہ نے جب مائیک سنبھالا تو اُن کی گفتگو میں محبت، شکر و سپاس اور مستقبل کی اُمنگ سب کچھ جھلک رہا تھا۔ اُنہوں نے تقریب کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے ماہنامہ بساط کی ابتداء اور مختلف ادوار کا ذکر کیا اور بتایا کہ اردو کا پہلا تحقیقاتی جریدہ ہونے کے ناتے اس نے ابتداء ہی سے مختلف فورمز پر ایوارڈز وصول کیے۔ ’’بساط‘‘ اب نہ صرف ڈیجیٹل ہے بلکہ بین الاقوامی رسالہ بن چکا ہے،اور دنیا کے اہم ممالک کے اردوداں طبقے میں مقبول ہو رہا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم جدید دور کے بدلتے چیلنجز پر تحقیقاتی مضامین، سماجی و فکری مباحث، اور خواتین کے کردار سے متعلق بامعنی تحریریں شامل کریں۔
پھر باری باری تمام لکھاری خواتین نے اپنا مختصر تعارف پیش کیا۔ ہر تعارف کے ساتھ لفظوں کی ایک نئی خوشبو اُبھرتی گئی۔ کوئی افسانہ نگار تھی جو جذبوں کو کرداروں میں ڈھالتی ہے، کوئی شاعرہ جو دل کی لہروں کو مصرعوں میں قید کرتی ہے، اور کوئی محققہ جو معاشرتی موضوعات پر گہری نظر رکھتی ہے۔
بات چیت کے دوران مشوروں کا ایک خوبصورت سلسلہ جاری رہا۔ آئندہ شماروں کی ترتیب، مضامین کے انتخاب، اور افسانوی حصے کی نئی جہتوں پر خیالات پیش کیے گئے۔
کسی نے تجویز دی کہ نوجوان لکھاریوں کے لیے ایک علیحدہ گوشہ رکھا جائے، کسی نے کہا کہ ’’بساط‘‘ کو ڈیجیٹل شکل میں عالمی سطح پر مزید مؤثر بنانا چاہیے۔ ہر رائے، ہر جملہ رسالے کے مستقبل کی سمت کو روشن کر رہا تھا۔
اس محفل کی رونق بڑھانے والی خواتین میں،ڈاکٹر حسین بانو ،مہناز قمر، عطیہ عمر، عروبہ عدنان، عشرت زاہد، طلعت نفیس، شہلا خضر، شگفتہ ضیاء، رومیصاء مہیمن ، طوبی ناز، عروج سعد، مدیحہ اعجاز اور مریم اعجاز شامل تھیں۔
مریم اعجاز کی معلوماتی اور پر اثر نظامت شرکاء کی فکر کو مہمیز دیتی رہی۔
آخر میں چائے کی مہک نے گفتگو کو ایک خوشگوار موڑ دیا۔
ننھی میزبانوں دانیہ بلال، عنایہ بلال اور منال نے اپنی برق رفتاری اور سلییقہ مندی سے دل موہ لیے۔
مسکراہٹوں، یادوں اور عکسوں کے درمیان یہ محفل ختم ہوئی تو احساس ہوا کہ ’’بساط‘‘ صرف ایک رسالہ نہیں، بلکہ ایک روایت ہے،لکھاریوں کا ایک کنبہ ہے اور قلم کا وہ کامیاب سفر ہے جو بیس سال پہلے شروع ہوا تھا اور اب نئے افق کی جانب بڑھ رہا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: