Advertisement

بچوں کی تربیت: نرمی، سختی یا میانہ روی؟

’’زبان سے دل تک: بچوں کی تربیت میں توازن کی اہمیت‘‘
’’میں اب کیلا نہیں کھاؤں گا! آپ نے کیوں چھیل دیا؟” بچے نے غصے سے چیخ کر کہا۔ ماں نے نرمی سے دوسرا کیلا ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا، “بیٹا، لو یہ والا خود چھیل لو، جیسے تمہیں پسند ہے۔‘‘
بچہ مزید ضد میں آ کر بولا، “نہیں! اب تو میں کبھی بھی کیلا نہیں کھاؤں گا!”
یہ مکالمہ یہیں ختم ہو جاتا ہے لیکن تربیت کا سوال یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
آج کل ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بچے بہت جلد ضدی، بدتمیز یا بے پروا ہو جاتے ہیں۔ کبھی وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جاتے ہیں اور کبھی کسی بات کو نہ ماننے کا تہیہ کر لیتے ہیں۔ والدین حیران ہوتے ہیں کہ آخر تربیت میں کہاں کمی رہ گئی؟ اگر ہم غور کریں تو دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں: ایک طرف حد سے زیادہ نرمی، اور دوسری طرف بے جا سختی۔ دونوں ہی رویے بچوں کو توازن سے ہٹا دیتے ہیں۔
اسلام ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے، اور بچوں کی تربیت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے، جہاں بچوں سے شفقت، نرمی اور رہنمائی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ کو بطورِ تربیت استعمال نہیں کیا، نہ ہی بچوں کی ہر خواہش کو سر آنکھوں پر رکھا، بلکہ حدود کا تعین کیا، ذمہ داریاں سکھائیں اور محبت بھرے طریقے سے سمجھایا۔
ضروری ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ boundaries یعنی حدود قائم کریں۔ مثلاً کھانے، کھیلنے، سونے اور اسکرین ٹائم کے واضح اصول ہوں۔ جب بچے یہ دیکھتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک حد ہے، تو وہ خودبخود نظم و ضبط کے عادی بننے لگتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سے بات کرنا، ان کے احساسات کو سننا اور ان کے جذبات کو اہمیت دینا بھی لازمی ہے۔ اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ بچے سنتے ہی نہیں… لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ سنے جاتے نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی بچہ بولنا سیکھتا ہے، اُسے اسکول، ٹیوشن اور قرآن کلاسز میں مصروف کر دیا جاتا ہے۔ ماں باپ بھی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً، بچے اور والدین کے درمیان تعلق میں فاصلہ آ جاتا ہے۔ جب گفتگو کا وقت ہی نہیں ہوگا تو بچے نہ ماں باپ کو سمجھ سکیں گے اور نہ ہی والدین ان کے اندر کے خیالات کو جان سکیں گے۔
اس کا حل صرف اور صرف ایک چیز ہے: وقت دینا۔
باپ اگر دفتر سے تھک ہار کر آئے تو اکثر موبائل یا ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ دن بھر کی تھکن تھوڑا موبائل دیکھ کر اُتر جائے گی۔ لیکن ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ ریلیکس کرنے کے لیے جو خوشی اور سکون بچوں کے ساتھ کھیلنے، ان سے بات کرنے اور ان کے دن کے بارے میں جاننے میں ہے، وہ کسی تفریح یا اسکرولنگ میں نہیں۔ باپ بچوں کی تربیت میں فعال کردار ادا کرے کیونکہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو صرف ایک باپ ہی اپنے بچے کو سکھا سکتا ہے۔
اسی طرح مائیں اگر گھریلو یا پیشہ ورانہ مصروفیات میں مشغول ہیں تو ٹائم مینجمنٹ کے ذریعے بچوں کے لیے وقت نکالیں۔ صبح جلدی اٹھنا، اپنے کام جلدی نمٹانا، اور دن کے کسی حصے میں آدھا گھنٹہ بچوں کے ساتھ کسی ایکٹیویٹی جیسے کلرنگ، کہانی سنانے یا صرف بات کرنے کے لیے مخصوص کرنا بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
اگر دن بھر وقت نہیں ملتا تو رات کا وقت بہترین ہے۔ سونے سے پہلے بچوں کے ساتھ بستر پر لیٹ جائیں، ان کے پاؤں دبائیں یا انہیں اپنے پاؤں دبانے دیں۔ اسی دوران ان سے بات کریں، ان کے دن بھر کی باتیں سنیں، اپنی بھی کچھ باتیں بانٹیں۔ یہ لمحات اعتماد، ہمدردی اور جذباتی قربت پیدا کرتے ہیں۔
اپنی فیلنگز اُن کے ساتھ شیئر کرنے سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ اُن میں ہمدردی (empathy) پیدا ہوگی۔ جب کبھی وہ آپ کو الجھا ہوا یا پریشان دیکھیں گے، تو وہ سمجھ جائیں گے کہ آپ اس طرح ردِعمل کیوں دے رہے ہیں، اور نہ وہ ضد کریں گے، نہ ہی بدظن ہوں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی میں آنے والی ذمہ داریوں اور اپنے کردار کو نبھانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہونے لگیں گے۔
یہ سب آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ بچے ضدی ہو گئے ہوں تو گھبرائیں نہیں۔ تبدیلی فورا نہیں آتی، لیکن مستقل مزاجی سے، محبت اور سمجھ داری سے، انشاءاللہ ضرور آتی ہے۔ تربیت ایک مسلسل سفر ہے، جو ماں اور باپ دونوں کی توجہ اور محبت مانگتا ہے۔لیکن یہ بات جان لیں کہ کردار سازی اور تربیت کے یہ ابتدائی سال بہت اہم ہیں، یہ گزر گئے تو واپس نہیں آئیں گے۔ اپنے بچوں پر محنت کر لیجیے۔
آج سے شروعات کیجیے، ان شاءاللہ بہتری ضرور آئے گی۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: