نو اکتوبر ۲۰۲۲ء کی سہانی شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ سورج دن بھر کی مسافت کے بعد سامنے چوٹی پر بنی مسجد عمر کے پیچھے چھپنے جا رہا تھا ۔ افق پر چھائی شفق اب رات کی سیاہی میں گھلتی جا رہی تھی۔
عیسائیوں کے مقدس ترین مقام کلیسائے مقبرہ مقدس کے صحن میں مجمع لگا تھا ۔ لوگوں کی ایک بھاری تعداد جمع تھی جس میں اکثریت عیسائی زائرین کی تھی ۔ اس بھیڑ میں ہم جیسے صرف چند ہی مسلمان سیاح تھے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی ۔
عیسائی عقیدے کے مطابق یہ چرچ اس مقام پر ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دی گئی، دفن کیا گیا اور پھر وہ دوبارہ زندہ ہوئے۔ اس لیے اسے ’قبرمسیح‘ (The Tomb of Christ) بھی کہا جاتا ہے۔
سب کی نگاہیں چرچ کے دروازے کی طرف لگی تھیں جو اب بند ہوچکا تھا ۔
سب بے تابی سے اس منظر کے انتظار میں تھے جو پچھلے آٹھ سو سال سے دن میں دو مرتبہ بلا ناغہ اس کشادہ صحن میں دہرایا جاتا ہے ۔
علی الصباح ایک مسلمان عیسائیوں کے اس مقدس ترین مقام کا دروازہ کھولتا ہے اور پھر شام ڈھلے بند کر کے تالا لگاتا ہے اور اس کی چابی ایک دوسرے مسلمان کے حوالے کر کے رخصت ہو جاتا ۔
مذہبی یگانگت کا ایسا مظاہرہ ایسی مثال چرخ نیلی فام نے پہلے کہیں نہیں دیکھا ۔
ہمیں بھی کئی گھنٹوں سے اس لمحے کا انتظار تھا ۔
اچانک ایک سمت سے ایک درمیانی قامت کا ادھیٹر عمر شخص نمودار ہوا صحن اور دروازے کی سمت بڑھا ۔ اس نے دروازے پر دستک دی ۔ بند دروازے کے دائیں پٹ میں ایک کھڑکی کھلی جس میں ایک سیڑھی نظر آ رہی تھی ۔ اس شخص نے اس سیڑھی کو باہر نکالا دروازے کے ساتھ لگایا اس پر چڑھا صحن میں موجود ایک دوسرے شخص نے لوہے کی ایک بڑی چابی اسے تھما دی جو تقریباً 30 سینٹی میٹر (ایک فٹ) لمبی تھی اس چابی کی مدد سے اس نے پہلے دروازے کا اوپر والا تالا لگایا پھر نیچے اتر کر نچلا قفل بند کیا سیڑھی دوبارہ اس کھلی کھڑکی میں کھڑے شخص کے حوالے کی ۔ قفل کی وہ بڑی چابی اپنے قریب کھڑے اس شخص کو واپس کر دی جس نے اسے وہ چابی دی تھی ۔ چرچ کے بڑے پادری کے ساتھ مصافحہ کیااور رخصت ہوگیا ۔
اس آنیوالے شخص کا نام اجمل نوسیبہ تھا جس نے تالا لگا اور جس شخص کے سپرد چابی کی گئی وہ واجد جودہ تھا وہ چابی لے کر گھر چلا گیا ۔
چرچ کے دروازے کا تالا کھولنے اور بند کرنے کی اس رسم کی ذمہ داری دو مسلمان خاندانوں کے پاس ہے ۔ سب سے پہلے چابی کے محافظ جودہ خاندان کا ایک رکن قدیم لوہے کی بنی یہ چابی لے کر گرجا گھر پہنچتا ہے۔ وہ چابی نوسیبہ خاندان کے کسی فرد کے حوالے کرتاہے،دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری نوسیبہ خاندان کے پاس ہے۔ وہ گیٹ کیپر ہیں
نوسیبہ خاندان کا فرد ایک بڑی لکڑی کی سیڑھی کے ذریعے گرجا گھر کے مرکزی دروازے پر چڑھتا ہے اور یہ چابی وہی اصل چابی ہے جو صدیوں سے استعمال ہو رہی ہے۔ اس سرگرمی کے اوقات چرچ کی انتظامیہ طے کرتی ہے تاکہ روزانہ کی عبادات اور زیارت کا سلسلہ بروقت شروع اور ختم ہو سکے۔صدیوں سے جاری یہ روایت یروشلم کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان باہمی احترام بھائی چارے اور تعاون کی ایک زندہ مثال ہے۔
اس رسم کو Custody of the Key کہا جاتا ہے ۔
اس روایت کا آغاز حضرت عمر ؓکے دور میں شروع ہوا ۔
بنو نو سیبہ سے تعلق رکھنے والے حافظ عبدالرحیم نوسیبہ الخزری نے اپنی کتاب The Khazraj Nusseibeh Family: Custodians of History and the Present۔ میں اپنے خاندان کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
“ 637 ء میں مسلمانوں کی فوج نے شام اور فلسطین کی مہم کے دوران یروشلم کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ چار مہینے تک جاری رہا لیکن شہر فتح نہ ہوا ۔بالآخر شہر کے بطریق (پادری) صفرونیوس (Sophronius) نے شرط رکھی کہ وہ شہر کی چابیاں صرف خلیفہ عمر کے حوالے ہی کریں گے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے سفر کر کے خود یروشلم پہنچے تاکہ شہر کو قبول کریں۔
جب حضرت عمر ؓیروشلم پہنچے تو بطریق صفرونیوس نے جبل زیتون پر ان استقبال کیا اور شہر کی چابیاں پیش کیں۔ چشم فلک نے ایسا منظر بہت کم دیکھاہو گا جب خون کاایک قطرہ بہائے بغیر یروشلم شہر کی ملکیت تبدیل ہوئی ۔ رومی سات سو سال کے بعد شہر سے رخصت ہوگئے اور مسلمان نئے حکمران بن گئے ۔ اس موقع پر حضرت عمر نے عیسائیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جسے “عہد عمر ” (The Pact of Umar) یا “العہدۃ العمریۃ” (Al-Uhda Al-Umariyya) کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ انسانی تاریخ میں مذہبی رواداری کی ایک منفرد اور بہترین مثال ہے۔
(آجکل ابراہیمی اکارڈ کی بات کرنے والے ” عہد عمر” کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں، مرتب)
اس معاہدے کی رو سے شہر کے عیسائی باشندوں کو ان کی جان، مال اور گرجا گھروں (صلیبوں) کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی ۔ اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ انہیں پوری آزادی کے ساتھ شہر میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی ۔صفرونیوس اور دیگر عیسائی اکابرین نے ضد کی کہ یہودیوں پر یروشلم میں رہنے کی پابندی کو برقرار رکھا جائے جو رومیوں کے دور سے عائد تھی ۔ آپ نے عیسائیوں کے اصرار پر رہایش کی پابندی تو برقرار رکھی لیکن انہیں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت دیدی ۔
یروشلم شہر میں آپ سب سے پہلے ماؤنٹ ٹمپل ( حرم شریف ) تشریف لے گئے جہاں پر حضور اکرمﷺ نے انبیاء کی امامت فرمائی تھی اور اپنے سفر معراج کاآغاز کیاتھا ۔ عیسائیوں نے اس جگہ پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جمع کر رکھے تھے انہوں نے اس جگہ کی صفائی کی اور وہاں دو رکعت نماز پڑھی ۔
پھر جب زیارت کے لئے چرچ آف دی ہولی سیپلکر تشریف لائے تو عصر کاوقت ہو چلا تھا ۔ انہوں نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو بطریق صفرونیوس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چرچ آف دی ہولی سیپلکر کے اندر نماز پڑھنے کی دعوت دی۔
لیکن حضرت عمر نے یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ’’اگر آج وہ اس گرجا گھر کے اندر نماز پڑھ لیں گے تو آئندہ مسلمان اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا بہانہ تلاش کر سکتے ہیں‘‘ ۔
چنانچہ انہوں نے گرجا گھر کے باہر ایک ٹیلے پر کھلی فضا میں نماز ادا کی۔
بعد ازاں، اسی جگہ پر جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی تھی، ایک مسجد تعمیر کی گئی جس کا نام “مسجد عمر” (Mosque of Omar) رکھا گیا۔
چرچ آف دی ہولی سیپلکر کے بالکل سامنے کھڑی یہ مسجد آج بھی اسلامی رواداری اور حضرت عمر کے دوراندیشی اور بصیرت کی گواہی دے رہی ہے اور اسلام کی امن پسندی ، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ حسن سلوک و انصاف اور ان کے مقدس مقامات کے احترام کی تابندہ مثال ہے ۔
مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے سے پہلے چونکہ یہ سارا علاقہ بازنطینی حکومت کے زیر اثر تھا لہذٰا یروشلم اور فلسطین میں 5موجود عیسائیوں کے سارے مقدس مقامات کی انتظامی ذمہ داری بھی یونانی آرتھوڈکس چرچ کے پاس تھی ۔ اور باقی عیسائی فرقوں پر یروشلم میں داخلے اور عبادت کرنے پر پابندی عائید تھی ۔ لیکن جب مسلمان غالب آگئے تو عیسائیوں کے باقی سارے فرقوں کو بھی عبادت کی کھلی چھٹی مل گئی اور یوں مختلف عیسائی فرقوں (یونانی آرتھوڈوکس، رومن کیتھولک، آرمینیائی، قبطی اور ایتھوپین ) کے درمیان چرچ آف دی ہولی سیپلکر کی نظامت اور نظم ونسق سنبھالنے کے حوالے سے سخت رسہ کشی شروع ہو گئی لیکن دروازے کی چابی اور اسے روز کھولنے بند کرنے کے مسئلے پر یہ اختلاف اتنا شدید ہوا کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک آن پہنچی ۔ آپ ابھی یروشلم میں ہی مقیم تھے ۔ جب چابی کا مسئلہ بہت شدت اختیار کر گیا اور آپ کے علم میں یہ بات آئی ۔ تو چونکہ معاہدہ عمر کی رو سے عیسائی عبادت گاہوں کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری تھی ۔ اس لئے انہوں نے ایک غیر جانبدار ثالث کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یروشلم کے پہلے مسلمان گورنر حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ کو اس مسئلے کا ترجیحی بنیادوں پر حل تلاش کرنے کی ہدایت کی ۔
حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ انصار کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان “بنو عوف” سے تھا۔ وہ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک تھے ۔ ان کا شمار ان بارہ صحابہ میں ہوتا ہے ۔ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے انصار میں سے علم دین سکھانے کے لیے مقرر فرمایا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں “امت کا صالح ترین شخص” قرار دیا تھا ۔ انہوں نے فلسطین اور مصر کی فتح میں حضرت عمرو بن العاص کا ساتھ دیا اور قبرص کی فتح میں بھی شریک رہے ان کا انتقال بہتر سال کی عمر میں ٦۵۵ء کو رملہ میں ہوا اور انہیں یروشلم کی مشرقی دیوار کے ساتھ گولڈن گیٹ کے قریب واقع قبرستان میں دفن کیاگیا جسے “ باب الرحمہ “ کہتے ہیں ۔ اس قبرستان میں ان کے علاوہ ایک اور صحابی حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بھی دفن ہیں ۔
انہوں نے قبیلہ خزرج کے ہی ایک نوجوان عبداللہ ابن نوسیبہ کو چرچ کی حفاظت اور نظم ونسق کی ذمہ داری سونپتے ہوئے چرچ کے دروازے کی چابی انہیں سونپ دی اور ہدایت کی وہ خود روزانہ صبح وشام دروازہ کھولیں اور بند کریں ۔
عیسائیوں کے کسی فرقے کو اس پر اعتراض نہ تھا بلکہ وہ خوش تھے کہ اس مسئلے کا حل اتنی خوش اسلوبی سے نکل آیا ہے ۔
عبداللہ بن نوسیبہ یروشلم کا محاصرہ کرنے والے لشکر کا حصہ تھے ۔ وہ اپنی والدہ کی نسبت سے مشہور تھے ۔
حضرت نوسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا بہت جلیل القدر صحابیہ تھیں اور ان کا تعلق بھی قبیلہ خزرج کے ہی ایک خاندان “بنو مازن بن النجار” سے تھا۔ وہ تاریخ میں ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں ۔
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی بہادری اور دلیری ضرب المثل تھی ۔ جنگ احد میں پہلے تو وہ زخمیوں کے کی مرہم پٹی کرتی رہیں اور مشک میں پانی بھر کر زخمیوں اور مجاہدین کو پلاتی رہیں ۔
پھر جب مسلمانوں کو شکست ہوئی اور رسول اللہ ﷺ اکیلے رہ گئے تو وہ تلوار سونت کر آپ ﷺ کی حفاظت کے لئے ان کے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہوگئیں ۔
ابن قمیئہ نے جب آنحضرتﷺ پر تلوار سے وار کیا تو اُمّ عمارہ نے بڑھ کر اسے اپنے جسم پر روکا۔ ان کے کندھے پر تلوار کا گہرا زخم آیا ۔
ان کے بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھاکہ ’’اس مشکل گھڑی کے دوران میں اپنے دائیں بائیں جس طرف دیکھتا ام عمارہ کو اپنے دفاع کے لئے کھڑا پاتا ۔‘‘
بہر حال صدیوں تک چرچ کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی ذمہ داری عبداللہ بن نوسیبہ کی اولاد کے پاس رہی ۔
۱۰۹۹ ء میں پہلی صلیبی جنگ کے بعد یروشلم صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا تو انہوں نے بنو نوسیبہ سے یہ ذمہ داری واپس لے کر انہیں شہر بدر کر دیا ۔
بنو نوسیبہ نابلس کے ایک گاؤں برین میں جا آباد ہوئے اور کھیتی باڑی اور تجارت کر کے اپنی گزر اوقات کرنے لگے ۔ اس وقت اس خاندان کے سربراہ شیخ برہان الدین تھے ۔
چونکہ یروشلم فتح کرنیوالے صلیبیوں کا تعلق فرانس کے کتھولک چرچ سے تھا انہوں نے باقی سارے عیسائی فرقوں کی شہر میں داخلے اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کی زیارت پر پابندی لگادی ۔
کچھ روایات کے مطابق نوسیبہ خاندان کے سربراہ نجم الدین داؤد نے صلیبیوں کے خلاف جنگ میں اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنگ حطین اور یروشلم کی فتح میں شریک رہے تھے ۔
1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کر لیا ۔
فتح فلسطین کے بعد حضرت عیسٰی کا مقدس چرچ تین دن تک بند رہا ۔ سلطان کو مشورہ دیا گیاکہ اسے گرا دیا جائے لیکن اس نے جواب دیا کہ “میرے لئے حضرت عیسٰی بحثیت نبی بڑے محترم ہیں ان کی یادگار میں کیسے گراسکتا ہوں ۔”
اس نے عیسائیوں کو اپنی مذہبی عبادات ادا کرنے کی پوری اجازت دیتے ہوئے تیسرے دن اسے عبادت کے لئے کھول دیا ۔
بارٹلیٹ نے لکھاہے کہ : ’’صلیبیوں نے قبطی آرتھوڈوکس اور حبشہ کے عیسائیوں پر یروشلم کے دروازے بند کررکھے تھے ۔ صلاح الدین نے انہیں بھی یروشلم آنے اور مقدس کلیسا میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی ۔‘‘
جب عیسائیوں کے باقی سارے فرقوں کو چرچ میں عبادت کرنے کی اجازت مل گئی تو ایک بار پھر وہی مسئلہ کھڑا ہوگیا جو حضرت عمر کے دور میں پیدا ہواتھا ۔
عیسائی فرقوں میں چرچ کی چابی اور دروازہ کھولنے اور بند کرنے پر پھر سے جنگ چھڑ گئی ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی حضرت عمر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے بنو نوسیبہ کو واپس یروشلم آنے کی دعوت دی اور یہ ذمہ داری ایک بار پھر بنو نوسیبہ کے سپرد کر دی ۔
مشہور فلسطینی مصنف یوسف خانفر نے لکھا ہے کہ :
’’ چرچ کے دروازے کی موجودہ دو چابیاں ہیں جو پندرہ جولائی 1149ء میں یروشلم کے صلیبی شہنشاہ بالڈون سوئم نے بنوائی تھیں ۔ دس فروری 1187ء کو صلاح الدین ایوبی نے موجودہ رسم کی بنیاد ڈالی اور اس ذمہ داری کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے چابیاں جودہ الحسینی خاندان کے سپرد کیں انہیں چابیوں کا محافظ Custodian of the keys مقرر کیا اور بنو نوسیبہ کے سربراہ نجم الدین داؤد النوسیبہ کو دروازہ کھولنے اور بند ( Gate keeper ) کرنے کی ذمہ داری سونپی جو ان کا خاندان حضرت عمر کے دور سے اداکرتا چلا آیا تھا ۔
دو خاندانوں کے مابین اس ذمہ داری کوتقسیم کرنے کی ایک حکمت یہ بھی تھی یہ نظام ہمیشہ چلتا رہے اور یہ کسی ایک فرد یا خاندان کی موجودگی پر منحصر نہ رہے ۔
اس طرح سلطان صلاح الدین ایوبی کی حکمت اور دواندیشی سے عیسائی فرقوں کے درمیان یہ تنازعہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔ “
جودہ خاندان بھی اپنی تاریخ کو حضرت سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ تک پہنچاتا ہے ۔
حضرت سعد بن عبادہ خزرج قبیلے کے سردار تھے ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو ساعدہ سے تھا ۔ وہ انصار کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے اور بہت عمدہ شاعری کرتے تھے ۔
وہ بیت عقبہ ثانیہ کے موقع پر اسلام لائے ۔ان کی اولاد بعد میں شام اور فلسطین میں آباد ہوئی ۔
جودہ خاندان کے موجودہ سربراہ جواد عدیب ہیں اور ان کے بھائی اس کام میں ان کی معاونت کرتے ہیں ۔ وہ جودہ خاندان کی نویں نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو اس تاریخی ذمہ داری کو 850 سال سے زائد عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
عدیب جودہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ
“ چابی کے علاوہ چرچ کی مہر ( Stump) کی ذمہ داری بھی جودہ خاندان کے سپرد ہے ۔
ان کے پاس سلطان صلاح الدین ایوبی کا وہ اصل فرمان بھی موجود ہے جس کی رو سے ان کے بزرگ شیخ غنیم بن علی بن حسین الانصاری الخزروی کو چرچ کی چابی اور مہر کا محافظ بنایا گیا تھا ۔ ان کے پاس اس کے بعد آنے والے مملوک سلاطین اور سلطان سلیم اول ، سلطان سلیمان قانونی کے فرامین بھی محفوظ ہیں ۔ “
نوسیبہ خاندان کے موجودہ سربراہ اجمل نوسیبہ ہیں
وہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ مل کر چرچ آف ہولی سیپلکر کا دروازہ کھولنے اور بند کرنے کی چودہ سو سالہ خاندانی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے ورثے میں حاصل کی ہے ۔
اور یوں یہ دونوں خاندان مل کر یہ تاریخی اور منفرد روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، جو دنیا بھر میں بین المذاہب رواداری اور مذہبی یگانگت کی ایک زندہ اور روشن مثال ہے۔
یہ رسم اس بات کی بھی مظہر ہے کہ عیسائی برادری آج چودہ سو سال بعد بھی ان مسلمان خاندانوں کے انصاف اور امانت داری پر اور غیر جانبداری پر پورا بھروسا کرتی ہے۔
اس روزچرچ کا دروازہ کھولنے کے بعد اجمل نوسیبہ جیسے ہی سیڑھی سے نیچے اترا۔ لوگوں نے اسے گھیر لیا اور اس کے ساتھ سیلفیاں بنانے لگے ۔ ہم بہت پیچھے کھڑے تھے ہماری بھی کوشش تھی کہ اس کے ساتھ ایک تصویر بنوائی جائے لیکن قطار بہت لمبی تھی اور ہم بہت پیچھے اپنی باری کے انتظار میں کھڑے تھے کہ اچانک مسجد عمر سے مغرب کی اذان کی آواز بلند ہوئی تو ہم قطار سے نکل کر مسجد کی جانب چل دئیے ۔
رستے میں رہ رہ کر دل میں خیال آتارہاکہ کاش ہم اپنے اسلاف کی قائم کردہ اس شاندار روایت کو دنیا تک پہنچا سکیں، یہی سوچتے ہوئے میں اس مسجد عمر میں داخل ہو گیا جس کی بنیاد ہی اس رواداری اور یگانگت کے خمیر سے اٹھی تھی ۔
دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ جواد ادیب جودہ سے مل کر صلاح الدین ایوبی کے اس فرمان کی زیارت کروں جس کی رو سے اسنے 1187 ء میں شیخ غنیم الا نصاری کو چرچ کی چابی کا امین بنایا تھا ۔
نماز ختم ہوئی تو امام صاحب نے ہمیں پہچان لیا ۔ چند روز پہلے جب ہم معاہدہ عمر کی تلاش کے سلسلے میں ان سے ملے تھے تو ان سے بڑی بھرپور ملاقات رہی تھی اور ہمیں ان کے گھر چائے پینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی۔
وہ بہت محبت سے ملے اور ہمیں ایک بار پھر اپنے گھر لے گئے ۔ اور کہنے لگے کہ “ننھی اقصٰی اپنی ماں کے ساتھ کسی خاندانی تقریب میں شرکت کے لئے گئی ہوئی ہے ۔ “میں نے انہیں بتایا کہ آج ہم نے چرچ کا دروازہ بند ہونے کی تقریب میں شرکت کی ہے ۔
تو ان کا یہ انکشاف ہمارے لئے بہت حیران کن اور خوشگوار تھا کہ ان کی بیگم کا تعلق نوسیبہ خاندان سے ہے اور وہ فیملی کے موجودہ سربراہ اجمل نوسیبہ کی بھانجی ہیں اور ان کی ایک بہن بھی نوسیبہ فیملی میں بیاہی ہوئی ہیں
امام صاحب کا اپنا تعلق حضرت عمرو بن العاص کے قبیلے سے تھا جو آج بھی بیت غرفون کے علاقے اجلان میں آباد ہے۔ “بیت غرفون کا نام پہلے کبھی بیت جبرین تھا ۔اور یہ نام حضرت عمرو بن العاص نے اسے دیا تھا ۔
رومی اس شہر کو الیوتھرو پولس کہتے تھے ۔
637 ء میں جب حضرت عمرو بن العاص نے اس شہر کو فتح کیا تو انہوں نے الیوتھرو پولس Eleutheropolis کا نام بدل کر بیت جبریل رکھ دیا ۔ جو بعد میں بگڑ کر بیت جبرین بن گیا ۔
اور اسرائیل بننے کے بعد یہودیوں نے اسے بیت غرفون بنا دیا ۔ کیونکہ ان کی توریت کے مطابق یہاں کبھی ان کا مقدس شہر بیت غرفون آباد تھا ۔
امام صاحب یہ سنکر بہت خوش ہوئے کہ ہم بیت غرفون اور اجنادین کے مقام کی سیر کر چکے ہیں اور افسوس کا اظہار کرنے لگے کہ اگر انہیں پتا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ چلتے اور خود ہمیں اپنا آبائی علاقہ دکھاتے ۔
میں نے ان سے جواد عدیب جودہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ “ میں جواد کے پاس موجود صلاح الدین ایوبی اور عثمانی سلاطین کے فرامین دیکھنا چاہتاہوں ۔ “
جس پر وہ کہنے لگے کہ ایسے ہی کئی فرامین نوسیبہ فیملی کے پاس بھی موجود ہیں ۔
ان کے بیان کے مطابق “ حضرت عبادہ بن صامت یروشلم کے پہلے مسلمان قاضی اور گورنر تھے اور قاضی بننے کی یہ روایت ان کے بعد بھی نوسیبہ خاندان میں جاری رہی ، اموی عباسی اور ایوبی دور حکومت کے بعد مملوک اور عثمانی دور میں بھی اس خاندان نے کئی قاضی یروشلم شہر کو دئیے ۔ “
انہوں نے بتایا کہ “اجمل نوسیبہ اب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں ۔ ضعف اور بیماری کی وجہ سے دروازے کی تقریب میں شرکت نہیں کرتے آجکل ان کے بھائی منیر نوسیبہ یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔
انہوں نے ہماری معلومات میں بڑا قیمتی اضافہ کیا کہ “ ہر سال ایسٹر کے موقع پر نکلنے والے جلوس میں جودہ اور نوسیبہ خاندانوں کو بہت عزت اور تکریم دی جاتی ہے اور مقدس ہفتے ( Holy Saturday ) کے دن منعقد والی تقریب بہت خاص ہوتی ہے ۔ جس میں انہیں بھی مسجد عمر کے امام کی حثیت سے خصوصی دعوت دی جاتی ہے اور عیسائیوں کے سارے فرقوں کے راہنماؤں کی موجودگی میں چرچ کا بڑا پادری دروازے کی چابی نوسیبہ خاندان کے فرد کو دیتا ہے جو وہ چابی پھر جودہ خاندان کے نمائندے کے سپرد کر دیتا ہے اس طرح ہر سال اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ عیسائیوں کو ان دونوں مسلم خاندانوں پر پورا بھروسہ ہے جس کا آغاز آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت عمر کے دور میں حضرت عبادہ بن صامت نے کیا تھا اور یہ رسم بھی پچھلی کئی صدیوں سے بغیر کسی رخنے کے جاری ہے ۔”
انہوں نے ہمیں ادیب جودہ اور اجمل نوسیبہ سے ملوانے کا وعدہ کر لیا ۔ لیکن ہماری اپنی مصروفیات اور وقت کی کمی کچھ اس طرح آڑے آئیں کہ یہ خواہش خواہش ہی رہی اور ہم نہ تو ادیب جودہ سے مل سکے اور نہ اس کے پاس موجود تاریخی دستاویزات کا دیدار کر سکے ۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
لیکن پختہ ارادہ کر رکھا ہے کہ اگر اللہ نے دوبارہ یروشلم جانے کی توفیق بخشی تو اس خواہش کو ضرور پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔
اگلے روز جب ہم حضرت عبادہ بن صامت اور شداد بن اوس کی تاریخی زیارات کے لئے باب الرحمہ گئے تو فاتحہ پڑھنے کے بعد حضرت عبادہ بن صامت کے قدموں میں کھڑا میں یہی سوچتا رہا کہ “ انہوں نے اپنے خاندان کو یہ ذمہ داری چودہ سو سال پہلے سونپی تھی اب جب وہ صدیوں بعد بھی انہیں اس ذمہ داری کو اتنے احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہوئے دیکھتے ہوں گے تو کتنے خوش ہوتے ہوں گے ۔ “
یہ تحریر ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کی آنے والی کتاب ’’ اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے، جو فلسطین کا سفر نامہ ہے ۔
’’چرچ آف دی ہولی سیپلکر کی چابی کی انوکھی اور تاریخی رسم ‘‘















