فلسطین کی ہر جگہ اور ہر چیز متنازعہ ہے اور یہی صورتحال دیوار گریہ کے ساتھ درپیش ہے۔
یہودی اسے دیوار گریہ ، مغربی دیوار اور مسلمان اسے دیوار براق کہتے ہیں کیونکہ اس دیوار کے اندر وہ جگہ ہے جہاں رسول اکرم ﷺ نے معراج کے سفر پر جاتے وقت براق کو باندھا تھا ۔ حضرت عمر ؓ کے دور میں اس کمرہ نما جگہ پر ایک مسجد قائم کی گئی تھی ۔جو وقت کی سرد گرم سے گزرنے کے بعد آج پندرہ سو سال بعد بھی میرے پیارے نبی مصطفٰی ﷺ کے سفر معراج کی یادگار کے طور پر زندہ ہے ۔
اس کا داخلی رستہ اوپر ٹمپل ماؤنٹ ( حرم شریف ) کی طرف سے قبہ الصخرہ کے پیچھے اسلامک میوزیم کے قریب باب المغاربہ ( Morrocon Gate کے دائیں جانب “مدرسة الأشرفية” نامی تاریخی عمارت کے ساتھ واقع ہے۔
اسلامک میوزیم سے کوئی پچاس ساٹھ قدموں کے فاصلے پر ایک سبز رنگ کا سادہ سا چھوٹا، اور زمین کی سطح سے نیچے اترتا ہوا دروازہ ہے جس کے اوپر ایک بڑا سا پیتل کا بنا چاند اور ستارہ لگا ہے اس چاند ستارے کے اوپری طرف ایک تختی پر سفید رنگ سے “ مسجد البراق “ لکھا ہے ۔ اس دروازے کے سامنے عام طور پر اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی رہتی ہے ۔ دروازے سے ایک چکر دار زینہ نیچے اترتا ہے کئی درجن سیڑھیاں اتر کر اس زینے کا اختتام ایک 10x 10 میٹر کے کمرے میں ہوتا ہے جس کی محراب دار چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے ۔ اس کمرے کی مشرقی دیوار کے اندر لوہے کا ایک کھونٹا لگا ہے جس کے ساتھ روایت کے مطابق براق کو باندھا گیا تھا اور جنوبی دیوار کی جانب ایک چھوٹی سی محراب ہے ۔ اس چھوٹے سے کمرے میں تیس پینتیس نمازیوں کی گنجائش ہوتی ہے ۔
مجھے بھی دو نفل ادا کرنے کی سعادت ملی اس میں اترنا تو آسان تھا لیکن واپس اوپر آنا جان جوکھوں کا کام لگا ۔ یہ مسجد حرم شریف سے تقریباً دس میٹر نیچے دیوار گریہ کے اندرونی سمت واقع ہے ۔ ہال کی چھت حرم قدسی کا فرش ہے ۔
اگر آپ حرم قدسی کے صحن پر اسلامک میوزیم کے سامنے کھڑے ہیں، تو آپ مسجد براق کے اوپر کھڑے ہیں، اور اس تک رسائی کا واحد نظر آنے والا نشان اس کا وہ چھوٹا سا دروازہ ہےجس پر چاند ستارہ بنا ہے ۔
دیوار گریہ کی جانب سے دیکھیں تو لکڑی کے زینے کے عین اوپر ی جانب سرمئی رنگ کا ایک چھوٹا سا گنبد نظر آتاہے جو اسلامک میوزیم کی چھت کا گنبد ہے ۔ اس میوزیم کے بائیں جانب مسجد براق کا دروازہ ہے ۔ مسجد براق صرف ایک مذہبی عبادت گاہ اور اسلامی تاریخ اور ثقافت کی زندہ علامت ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے عقیدے اور تہذیبی ورثے کی حفاظت کا استعارہ بھی ہے ۔ اس لئے اس کی دیوار گریہ کے اندر موجودگی مسلمانوں کے لئے زندگی موت کا مسئلہ تو ہے ہی یہودیوں کے لئے بھی بہت حساس اور نازک ہے اس لئے جب بھی یہودی مسلم فسادات ہوتے ہیں اس کا سب سے پہلا نزلہ مسجد براق پر گرتا ہے اور یہودی اسے بند کر دیتے ہیں اور پھر یہ مہینوں بند رہتی ہے۔
دیوارِ گریہ درحقیقت ہیکلِ ثانی (Second Temple) کی باقیات میں سے ایک بیرونی حصار کی دیوار ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں اس سے پہلے یہودیوں کا سب سے مقدس مرکز، ہیکلِ سلیمانی (The Holy Temple) موجود تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے تقریباً 957 قبل مسیح میں یہاں پہلا ہیکل تعمیر کیا۔ اسے 586 قبل مسیح میں بابل کے حکمران بخت نصر نے تباہ کر دیا۔ اور یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا ۔ اسی دوران یہودیوں کا تابوت سکینہ بھی ایسا گم ہوا کہ آج تک نہیں ملا ۔
بخت نصر کے تقریباً پچاس سال بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔
جب یہودی بابل سے واپس آئے تو انہوں نے ۵۱٦ قبل مسیح کے لگ بھگ ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات پر اپنا دوسرا ہیکل تعمیر کرنا شروع کر دیا ۔
63 قبل مسیح میں جیولیس سیزر نے آخری حشمونی شہنشاہ آنتیگونوس دوم ماتاتیاس کو شکست دے کر یہودیوں کی آزاد سلطنت یہودہ کا خاتمہ کر دیا اور یروشلم فتح کر کے اس کو رومی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اب سلطنت یہودہ رومیوں کی باجگزار بن گئی تھی ۔
37 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے ہیرود اعظم Herod the Great کو سلطنت یہودہ کا گورنر بنانے کی منظوری دی ۔
ہیروڈاعظم نسلاً یہودی تھا اور رومی شہنشاہ جولییس سیزر اور اس کے بعد شہنشاہ فیلیوس آگستس کا باجگزار اور فلسطین میں چار قبل مسیح تک رومی سلطنت کا گورنر رہا ۔
مشہور یہودی مورخ ایمل سکوہیرر Emil Schürer کے مطابق تیس قبل مسیح میں یہودی حکمران ہیرود اعظم Herod the Great
( جسے شہنشاہ ہیرس بھی کہتے ہیں) نے ماؤنٹ ٹمپل کو مزید ہموار کروایا اور اسے بہت وسیع کر دیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ماؤنٹ ٹمپل کا جو رقبہ سترہ ایکٹر کی قریب تھا ،ہیروڈ اعظم نے اسے اتنا ہموار کروایا کہ اس کا رقبہ تقریباً دوگنا سینتیس ایکڑ (296 کنال )ہو گیا۔
ماؤنٹ ٹمپل دراصل ایک بہت بڑا چبوترہ یا پلیٹ فارم ہے جو سطح زمین سے بیس فٹ اونچا ہے ۔ اسی چبوترے پر ہیروڈ اعظم نے وہ عظیم الشان عبادت گاہ از سر نو تعمیر کروائی ، جسے یہودی ہیروڈ ٹمپل کہتے ہیں یہ ہیروڈ ٹمپل 2nd Temple کی بنیادوں پر تعمیر کیا گیا تھا اسی لئے یہ سکینڈ ٹمپل ہی سمجھا جاتا ہے۔
یہودی تاریخ دان بیکی ماہیو Bieke Mahieu کے مطابق یہ عبادت گاہ پچیس قبل مسیح میں تعمیر ہونا شروع ہوئی اور دس قبل مسیح تک تقریباً پندرہ سال میں مکمل ہوئی ۔
یہ ٹمپل اپنے زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی اور عظیم الشان عمارت تھی ۔ تلمود Babylonian Talmud میں لکھا ہے کہ
.”Herod the Great rebuilt the Temple sanctuary and expanded the Temple Mount at its north side around the older Temple courts, and “enclosed an area double the former size.” Formerly, according to the Mishnah (Middot 2:1), the Temple Mount had measured 500 cubits x 500 cubits square, and its expansion was done to accommodate the pilgrims.”
رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یہودیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے یروشلم اور ہیکل ثانی دونوں مسمار کر دیے۔ رومیوں کے ہاتھوں یروشلم کی اس تباہی کے بعد یہودیوں کی اکثریت یروشلم اور فلسطین چھوڑ گئی۔
آج اس سیکنڈ ٹمپل کی صرف ایک ہی یاد گار باقی ہے جو ماؤنٹ ٹمپل کی بیرونی مغربی دیوار ہے ۔ ہیروڈ اعظم نے ہیکل ثانی کے لیے پہاڑی چوٹی کو وسیع اور ہموار کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس مقصد کے لئے پہاڑ کی چوٹی کے اردگرد بڑی بڑی پتھر کی دیواریں تعمیر کیں تاکہ ایک وسیع و عریض مصنوعی چبوترہ (platform) بنایا جا سکے۔
تکنیکی اور تاریخی اعتبار سے یہ دیوار دراصل اسی حفاظتی پشتہ یا دیوار ( Retaining wall ) کا مغربی حصہ ہے جو ماؤنٹ ٹمپل کے صحن / چبوترے کو وسیع کرنے کے لئے بنائی گئی تھی ۔
جس کا اصل مقصد چبوترے کو مغربی جانب سے سہارا دینا جاسکے اور اسے گرنے سے بچانا تھا ۔
لیکن نیرنیگئی دوراں تو دیکھئیے کہ جب ٹمپل موجود نہ رہا تو اس کے حفاظتی پشتے کا ایک حصہ ٹمپل سے زیادہ حثیت اختیار کر گیا ۔
بعض یہودی محقیقین کے مطابق ہیروڈ ٹمپل کی چند اور نشانیاں بھی سلامت ہیں جو مسجد عمر (مسجد اقصٰی ) کے عقب میں ڈیوڈ پارک میں سڑھیوں اور دو دروازوں کے نشانات کی صورت میں موجود ہیں ۔ اس دیوار کا ایک اور حصہ بھی ہے جو چھوٹی دیوار گریہ (Little Western/wailing Wall ) کہلاتا ہے ۔ جو تقریباً 8 میٹر (26 فٹ) لمبا ہے اور مسلم کواٹرز کی ایک بہت تنگ تقریباً ایک میٹر چوڑی گلی کے اختتام پر واقع ہے ۔
چھوٹی دیوار گریہ کی کم لمبائی اور تنگ مقام کی وجہ سے یہ زیادہ مشہور نہیں ہے، حالانکہ کچھ یہودی اسے اصل دیوار گریہ سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں کیونکہ یہ قدیم ہیکل کے “Holy of Holies” کے قریب تر ہے۔
جبکہ بڑی دیوار گریہ (اصل Western Wall تقریباً 488 میٹر لمبی ہے اور اس کا عبادت گاہ والا حصہ جو نظر آتا ہے وہ تقریباً 60 میٹر لمبا ہے اور کھلے پلازہ میں یہودی کوارٹر کے قریب واقع ہے ۔
چھوٹی دیوار گریہ (Little Western Wall) تک پہنچنے کے لیے آپ کو Al-Wad Street سے باب الحدید (Iron Gate ) کے قریب ایک چھوٹی سی گلی باب الحدید اسٹریٹ al-Hadid Street” (آئرن گیٹ اسٹریٹ) میں مڑنا پڑتا ہے، جو آپ کو براہ راست چھوٹی دیوار گریہ تک لے جائے گی۔
مسلمانوں کے لئے اس کی اہمیت یہ ہے کہ دیوارِ گریہ کے اوپر بنے چبوترے پر ہی مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں، جو اسلام کے تین مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہیں۔
مسلمان اس پورے احاطے کو حرم الشریف کہتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر میں یہاں تشریف لائے تھے۔
· اس دیوار کے اندر مسجد براق ہے ۔ جہاں معراج کی رات آپ نے اپنا براق باندھا تھا ۔
اسی لئے یہ علاقہ یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے انتہائی حساس اور تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس مقام پر یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے یہی تاریخی اور مذہبی دعوے جو اسرائیل-فلسطین تنازعے کا ایک اہم نقطہ اور وجہ ہیں ۔
دیوار گریہ دراصل ہمیشہ سے موجود تھی، لیکن اس تک رسائی اور اس کی اہمیت گزرتے وقت کے ساتھ بدلتی رہی۔
70 ء میں رومیوں کے ہاتھوں ہیکل ثانی اور یروشلم کی تباہی کے بعد جو بچے کھچے یہودی یروشلم میں رہ گئے تھے انہوں نے کچھ دنوں کے بعد ہی یہ پتا لگا لیا تھا کہ ہیکل ثانی کی مغربی دیوار کا یہ حصہ تباہی سے بچ گیاہے اور ابھی تک صحیح سلامت کھڑا ہے چنانچہ انہوں نے اس دیوار کے پاس جمع ہونا اور ہیکل کے لیے ماتم کرنا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے یہ “ماتم کی دیوار” کے نام سے مشہور ہو گئی اور یوں یہ دیوار گریہ ہیکل کی تباہی اور یہودی قوم کے جلاوطنی کے درد کی سب سے بڑی علامت بن گئی، لیکن 324 ء میں جب یروشلم بازنطینی عیسائی رومیوں کے قبضے میں آیا تو یروشلم ایک اہم عیسائی زیارت گاہ بن گیا۔
ہیکل ( حرم قدسی ) کے میدان کو جان بوجھ کر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ یسوع مسیح کی پیشین گوئی (مرقس 13:2) کا اظہار کیا جا سکے کہ “ہیکل کا ایک پتھر بھی دوسرے پر نہیں رہے گا۔” انہوں نے یہودیوں پر دیوار گریہ کے سامنے عبادت کرنے پر بھی پابندی لگا دی جو 638ء تک قائم رہی۔
ان تین سو سالوں میں یہودیوں کو صرف تشعا بآب Tisha B’Av کے دن عبادت کی اجازت ہوتی تھی ۔ اور انہیں اس کے لیے بھی خاص ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ عمل دراصل انہیں ذلیل کرنے کے لیے تھا ۔ اور ان کی اس عبادت کو بھی ان کی ذلت اور مذہبی شکست کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
تیشعا بآب یہودیوں کی المناک تاریخ کا وہ روز سیاہ ہے جس نے اس دیوار کو یہودیوں کے لیے “گریہ” (رونے اور ماتم) کی دیوار بنا دیا۔
پوری دنیا کے یہودی 586 قبل مسیح میں بابلیوں کے ہاتھوں پہلے ہیکل سلیمانی اور 70 ء میں رومیوں کے ہاتھوں ہیکل ثانی اور یروشلم کی تباہی کے غم میں اس دن کو یوم سوگ کے طور پر ہر سال عبرانی مہینے “ آب “ کے نویں دن مناتے ہیں ۔ اس دن تمام یہودی روزہ رکھتے ہیں۔ ماہِ آب کے نویں دن کی شام سے اگلے دن کی شام تک نہ کھاتے پیتے ہیں، نہ نہاتے دھوتے ہیں۔ اس دن ازدواجی تعلقات قائم کرنے پر پابندی ہوتی ہے ۔ نیز کریم، تیل، جوتوں اور دیگر آرائشی اشیا کے استعمال سے مکمل احتراز کرتے ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں ٦٣٨ء کو جب حضرت عمر ؓ کے دور میں مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو یہودیوں کو دیوار گریہ پر عبادت کی دوبارہ اجازت مل گئی ۔
دیوار گریہ پر یہودیوں کی عبادت کا باقاعدہ ثبوت بھی اس دور سے ہی ملتا ہے۔
اموی دور حکومت میں جب حرم قدسی شریف پر (مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ) تعمیر ہوئیں تو بھی یہ دیوار اس مقدس احاطے کی مغربی دیوار کے طور پر موجود رہی۔
پھر امویوں کے بعد عباسی یروشلم پر قابض رہے ۔ یہودیوں کو اس دور میں بھی بلا روک ٹوک دیوار کے پاس جانے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگنے کی اجازت تھی۔
969 ء میں فاطمی خلافت نے عباسیوں سے یروشلم چھین لیا تو بھی یہودیوں کو دیوار گریہ پر عبادت کی کھلی آزادی رہی ۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب صلیبیوں نے یروشلم فتح کیا، تو انہوں نے یہودیوں اور مسلمانوں کا کھلا قتل عام کیا۔
اس دور میں یہودیوں کو شہر میں داخلے ہی سے مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، لہذا دیوار گریہ پر عبادت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
1187 ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبوں سے یروشلم چھینا تو تقریباً اسی سال کے بعد یہودیوں کو دیوار گریہ پر عبادت کی ایک بار پھر اجازت مل گئی ۔ پھر یروشلم سات سو سال تک کے لئے مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا ۔ ایوبیوں کے بعد مملوک یروشلم کے مالک رہے ۔
1516 ء میں خان یونس کی جنگ میں سلطان سلیم اول نے آخری مملوک سلطان الاشرف طومان دوئم کو شکست دے کر فلسطین پر تسلط حاصل کر لیا ۔ مسلمانوں کے اس سارے دور حکومت میں یہودیوں کو دیوار کے پاس دعا مانگنے کی باقاعدہ اجازت تھی، لیکن اس جگہ کوئی باقاعدہ پلازہ نہیں تھا۔ جو آج نظر آتا ہے ۔
دیوار کے سامنے یروشلم کا پانچواں محلہ تھا جسمیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مراکشی سپاہی آباد تھے جنہوں نے یروشلم کی فتح میں حصہ لیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں گئے ۔
جو مغربی محلہ یا مراکو کواٹرز کہلاتا تھا اور اس محلے کی ایک بہت تنگ گلی کے ذریعے یہودی دیوار گریہ تک پہنچتے اور عبادت کرتےہیں اور دیوار کے سامنے بھی کوئی بڑی جگہ عبادت کے لئے موجود نہیں تھی۔ یہ وہ دور ہے جب یہودیوں کےلئے یہ مقام مستقل طور پر ان کی عبادت گاہ کا درجہ اختیار کرگیا تھا۔
1917ء میں پہلی جنگ عظیم جنرل ایلن بی نے عثمانیوں کو شکست دے کر یروشلم پر قبضہ کیا تو دنیا بھر سے یہودی بڑی تعداد میں دیوار گریہ پر عبادت کے لئے پہنچنے لگے ۔
1948 ء میں انگریز فلسطین یہودیوں کے حوالے کر کے چلتے بنے ۔ اسرائیل قائم ہوا ۔
لیکن 1948ء کی پہلی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد یروشلم کا پرانا شہر بشمول دیوار گریہ، اردن کے قبضے میں چلا گیا۔
اردن کا یہ قبضہ 1967ء تک قائم رہا اور یہ دور دیوار گریہ کی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوا ۔ اردن کی حکومت نے یہودیوں کو دیوار گریہ تک جانے اور وہاں دعا مانگنے پر پابندی عائد کر دی۔ مسلم تاریخ میں پہلی مرتبہ اس پورے 19 سال کے دوران کوئی یہودی دیوار تک نہ پہنچ سکا۔ اور یوں دیوار “منظر عام” سے غائب ہو گئی تھی۔
سات جون 1967ء میں چھ روزہ اسرائیلی عرب جنگ کے دوران سب سے فیصلہ کن لمحہ اس وقت آیا جب اسرائیلی فوجوں نے پرانے شہر پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیلی فوج کے کمانڈر موشے دایان کے الفاظ میں “ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب اسرائیلی فوج کے دستے دیوار گریہ تک پہنچے اور یہودی 2000 سال بعد اپنے سب سے مقدس مقام سے دوبارہ “مکمل طور پر” منسلک ہوئے۔”
اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر دیوار کے سامنے موجود پورے مراکو کوارٹرز کو مسمار کر کے ایک بڑے میدان میں میں بدل دیا تاکہ ہزاروں لوگ یکجا ہو کر عبادت کر سکیں۔ اس میدان کو پلازہ کہا جاتا ہے ۔
اس واقعے کے بعد سے، دیوار گریہ نہ صرف ایک مذہبی مقام بلکہ اسرائیلی قومی شناخت کی ایک طاقتور علامت بن گئی ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج ہم جو دیوار دیکھتے ہیں وہ دراصل اصل دیوار کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔دیوار گریہ کی کل لمبائی تقریباً 488 میٹر (1,601 فٹ) ہے۔
دیوار کے سامنے کا کھلا ہوا وہ مشہور حصہ جو دیوار گریہ کےPlaza میں نظر آتا ہے، اس کی لمبائی صرف 57 میٹر (187 فٹ) ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ جمع ہو کر دعا مانتے ہیں۔
باقی دیوار گریہ ایک سرنگ مغربی دیوار سرنگ” (Western Wall Tunnel) میں چھپی ہے جسے (سرنگ والا حصہ (Tunnel Section) کہتے ہیں اس کی لمبائی 481 میٹر ہے جو پرانے یروشلم شہر کی عمارتوں کے نیچے سے گزرتی ہے ۔ سیاح اس ٹنل کے جزوی حصے کی سیر بھی کر سکتے ہیں جسے یروشلم شہر جا انڈر گراؤنڈٹور کہا جاتاہے اور یہ تقریباً نوے منٹ کا ہوتا ہے ۔
تصویر کے ذریعے وضاحت: آپ دیوار گریہ کو ایک بہت بڑی “L” شکل کی دیوار سمجھیں۔ ہم عموماً “L” کے نیچے والے چھوٹے عمودی حصے کو دیکھتے ہیں، جبکہ لمبا افقی حصہ (جو ٹیمپل ماؤنٹ کی مغربی بنیاد ہے) زمین کے اندر دب گیا ہے۔
دیوار گریہ کی اونچائی (Height) زمین کی سطح کے لحاظ سے مختلف جگہ پر مختلف ہے، کیونکہ قدیم یروشلم وقت کے ساتھ ملبے سے دب گیا تھا۔
پلازہ Plaza میں نظر آنے والے کھلے حصے کی اونچائی تقریباً 19 میٹر (62 فٹ) ہے، لیکن محکمہ آثار قدیم کے ریکارڈ کے مطابق دیوار کی بنیاد تک پہنچنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کی کل اصل اونچائی 30 میٹر (98 فٹ) کے قریب تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ Plaza والا حصہ زمین کی موجودہ سطح سے تقریباً 11 میٹر (36 فٹ) نیچے تک جاتا ہے۔
مغربی سرنگ میں جا کر آپ دیوار کے سب سے بڑے اور سب سے گہرے پتھر دیکھ سکتے ہیں، جو بنیاد کے قریب ہیں۔ جہاں اونچائی ۳۰ میٹر کے قریب ہے ۔
اگر دیوار کو غور سے دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ دیوار کی تعمیر مختلف ادوار میں ہوئی ۔ اس لئے اس میں ان مختلف ادوار کی تعمیر کے نشانات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
دیوار کے سب سے نیچے کی 7 پرتیں سب سے بڑے پتھروں سے بنی ہیں جو ۱۹ قبل مسیح ہیرود اعظم کے دور (آج سے تقریباً 2000 سال پہلے ) کی تعمیر کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ پتھر بے حد بڑے، ہموار اور بغیر مورٹر ( سیمنٹ) کے ایک دوسرے پر بڑی خوبصورتی سے رکھے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک “غربال کا پتھر” (Western Stone) تقریباً 570 ٹن وزنی ہے۔
درمیانی پرتیں ہیرود کے دور کے بعد کی ہیں، جن میں چھوٹے پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ا
سب سے اوپر کی پرتیں جو سب سے چھوٹے پتھروں پر مشتمل ہیں وہ نسبتاً حالیہ زمانے (جیسے عثمانی دور) میں تعمیر ہوئی تھیں جبکہ ان سے نچلی درمیانی پتھروں پر مشتمل پرتوں کا تعلق ایوبی اور مملوک دور سے ہے ۔
آسان الفاظ میں اگر کہا جائے تو دیوار گریہ ایک بہت بڑی دیوار ہے جس کا صرف 57 میٹر لمبا اور 19 میٹر اونچا حصہ ہم دیکھ سکتے ہیں، جبکہ اس کے باقی حصے کی کل لمبائی 488 میٹر اور اصل اونچائی 30 میٹر ہے۔ جو مغربی دیوار سرنگ میں زیر زمین موجود ہے ۔
دیوار گریہ (مغربی دیوار) کی مذہبی اور سیاسی اہمیت انتہائی حساس اور پیچیدہ ہے، اور یہ دونوں پہلو آپس میں اس طرح سے جڑے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے علیحٰدہ کر کے سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے
مذہبی حیثیت : دیوار گریہ یہودیت میں دنیا کا سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے جہاں عبادت کی اجازت ہے۔ اس کی مذہبی اہمیت کی چند کلیدی وجوہات یہ ہیں:
۱- ہیکل ثانی کی آخری نشانی ؛
یہ ہیرود اعظم کے دور میں تعمیر کیے گئے ہیکل ثانی کا آخری باقی ماندہ حصہ ہے ہیکل ثانی کی رومیوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد یہ دیوار درحقیقیت ہیکل سے بھی زیادہ اہمیت اختیا کر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی اسے “دیوار گریہ” کہتے ہیں، کیونکہ صدیوں سے یہودی یہاں آ کر ہیکل کی تباہی اور اپنے جلاوطنی کے غم میں گریہ کرتے رہے ہیں۔
۲- الہی موجودگی (Shekhinah) کا مرکز:
یہودی عقیدے کے مطابق، خدا کی الہی موجودگی (Shekhinah) ہمیشہ اس دیوار سے وابستہ رہتی ہے۔
۳- دعا کا مرکز:
دنیا بھر کے یہودی، چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اپنی دعاؤں میں یروشلم اور دیوار گریہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ یہودی قومی اور مذہبی یکجہتی کی سب سے بڑی علامت ہے۔
۴- ذاتی دعاؤں کا مقام:
لوگ اپنی دعائیں اور التجا لکھ کر دیوار کے شگافوں میں رکھ دیتے ہیں، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ براہ راست خدا تک پہنچیں گی۔
سیاسی اہمیت: دیوار گریہ محض ایک مذہبی مقام نہیں بلکہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کا ایک مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی سیاسی اہمیت درج ذیل امور سے واضح ہوتی ہے:
۲- اسرائیلی خودمختاری کی علامت:
1967 کی جنگ میں اسرائیل کے قدیم شہر یروشلم پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد، دیوار گریہ اسرائیلی قومی تشخص اور یروشلم پر اس کے دعوے کی سب سے طاقتور علامت بن گئی۔ ہر سال لاکھوں اسرائیلی اور یہودی سیاح یہاں آتے ہیں، اور یہ فوجی تقریبات اور قومی تعطیلات کا مرکز ہے۔
۲- تنازع کا محرک:
دیوار گریہ ٹیمپل ماؤنٹ/حرم شریف کے بالکل نیچے واقع ہے۔ ٹیمپل ماؤنٹ پر یہودیوں کا قدیم ہیکل تھا، جبکہ اسے مسلمان حرم شریف (مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ پر مشتمل) کہتے ہیں، جو اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ قربت اس جگہ کو انتہائی حساس بنا دیتی ہے۔ دیوار گریہ پر کسی بھی قسم کی تبدیلی یا کھدائی کو مسلمان حرم شریف کی بنیادوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، جس کے نتیجے میں تنازعات اور تشدد بھڑک اٹھتا ہے۔
۳- بین الاقوامی قانون اور حیثیت کا تنازعہ:
بین الاقوامی برادری کا ایک بڑا حصہ (جس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے) مشرقی یروشلم کو مقبوضہ علاقہ مانتا ہے۔ اس لحاظ سے دیوار گریہ بھی متنازعہ علاقے میں واقع ہے۔ اسرائیل اسے اپنا دارالحکومت اور اس مقام کو اپنی خودمختاری کا حصہ سمجھتا ہے، جبکہ فلسطینی اسے اپنے مستقبل کے دارالحکومت مشرقی یروشلم کا حصہ مانتے ہیں۔
۴- عبادت کے حقوق کا تنازعہ: دیوار گریہ پر عبادت کے طریقوں پر بھی داخلی یہودی تنازعات ہیں، جیسے کہ خواتین کی عبادت کے حقوق (Women of the Wall تحریک)۔ لیکن اس سے بڑا تنازعہ یہ ہے کہ فلسطینی باشندوں کی دیوار تک رسائی اکثر سلامتی کے نام پر محدود کر دی جاتی ہے، جسے وہ اپنے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دیوار گریہ صرف ایک پتھر کی دیوار نہیں ہے۔ یہ یہودی ایمان، تاریخ، جلاوطنی اور بحالی امید اور اتحاد کی روحانی علامت ہے، اور ساتھ ہی یہ خطے میں زمین، خودمختاری اور مذہبی حقوق کی جدوجہد کا ایک طاقتور سیاسی نشان بھی ہے۔ یہی دوہری اور متضاد حیثیت اسے دنیا کی سب سے زیادہ حساس جگہوں میں سے ایک بنا دیتی ہے۔
دیوارگریہ یا دیواربراق ۔ دیوارِ گریہ کی تاریخ
















