وہ اپنے نو بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھا پیدا ہوا تو نہ صرف صحت مند تھا بلکہ باقی بہن بھائیوں کے مقابلے میں اپنے گورے رنگ اور سنہرے بالوں کی وجہ سے الگ نظر آتاتھا ۔پانچ سال کا ہوا تو گاؤں کے باہر سرکاری اسکول میں جانے لگا جو نیم کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے ٹاٹ بچھا کر بنایا گیا تھا ۔اسکول سے واپسی کے بعد اپنے سے بڑے بھائی کے ساتھ بھینس چراتا یا اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا کہ اچانک ایک رات اسے تیز بخار نے آلیا اس کی ماں نے اسے پٹیاں کی نلکے کے پانی سے نہلایا مگر اس کا بخار نہیں اترا۔ گھر میں بخار کی کوئی دوا موجود نہیں تھی اور ہسپتال ان کے گاؤں سے بہت دور تھا اس کا باپ اس کے چچا کے گھر سے ایک ڈسپرین لےآیا اور اس کی ماں نے اسے پانی میں گھول کے پلایا مگر اس کا بخار نہیں اترا ۔اس کی چارپائی کے نیچے چینی کی دھونی دی اور بکری کے دودھ سے اس کی مالش کی کہ شاید بخار کم ہو ۔مگر کوئی نسخہ کارگر نہ ہو سکا صبح ہوتے ہی وہ اسے نواب شاہ کے سول ہسپتال لے آئے ۔مگر بہت دیر ہو گئی تھی کیونکہ بخار میں آنے والے مسلسل جھٹکوں نے اسے مفلوج کر دیا تھا اس کے ہاتھ کی انگلیاں ٹیڑھی ہو گئیں اور گھٹنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا کچھ دن ہسپتال میں رہ کر وہ گھر تو آگیا مگر ایک نئے روپ میں نہ وہ خود سے کھا سکتا تھا نہ چل پھر سکتا تھا ۔اس کے باپ نے بھینس بیچ دی اور اسے لے کر کراچی آیا کراچی کے ڈاکٹرز نے اتنا کر دیا کہ اب وہ چل سکتا تھا مگر اکڑوں بیٹھنا اس کے لیے ابھی دشوار تھا ڈاکٹرز کے مطابق شاید زندگی بھر وہ اپنے حوائج ضروریات کے لیے بیٹھ نہ سکے ۔کراچی سےآنے کے بعد وہ اپنی مڑی ہوئی انگلیوں کے ساتھ کھانے کی کوشش کرتا اور نوالے گرا دیتا اس کے ہاتھوں میں آکر ہر چیز لرز جاتی مگر نہ وہ ہمت ہار رہا تھا نہ اس کی ماں جو اس کے لیے ڈھال بن گئی تھی ۔صحت یاب ہونے کے بعد اس نے سکول جانا شروع کیا مگر استاد اور کلاس کے بچے اس کی معذوری کو لے کر اسے تنقید کا نشانہ بناتے ۔اور وہ اپنی مڑی ہوئی انگلیوں کے ساتھ وہ آنسو پوچھتا رہتاجیسے تیسے کر کے اس نے پرائمری پاس کی پانچویں کلاس کے سالانہ نتائج نے اس کے استاد اور کلاس سمیت اس کے ماں باپ کو بھی حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور ایسے نمبروں سے جن سے پہلے گاؤں کا کوئی بچہ پاس نہیں ہوا تھا ۔اور اس کے نمبر حیران کن میتھس میں تھے وہ پڑھنا چاہتا تھا مگر اس کی معذوری اور ماں باپ کی غربت اس کی راہ کی بڑی رکاوٹ بن کے کھڑی ہو گئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری ۔اس کی ماں کھیتوں میں کام کرنے کے ساتھ ریلیاں بناتی اور وہ پیسے اسے دیتی آگے بڑھنے کے شوق نے اسے گاؤں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ۔اور وہ اپنے قریب کے قصبے نواب ولی محمد کے سرکاری سکول میں داخل ہوا جہاں سے اسے روزانہ چار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ جتنی اچھی غذا استعمال کرتا اس کی جسمانی طاقت اتنی بڑھتی مگر اس کے پیش نظر کچھ اور تھا وقت نے باگے پکڑی اور اس نے میٹرک بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا میٹرک میں اس کے میتھ میں آنے والے نمبرز نے اس کے استادوں کو اس کی طرف سے حیرت میں ڈال دیا ۔وہ اب بڑا ہو رہا تھا ماں باپ کی غربت ان پر آنے والا بڑھاپااسے روک رہا تھا کہ اب وہ ان سے کچھ نہ لے بلکہ اسے پڑھائی کے ساتھ خود بھی کچھ کرنا چاہیے۔ اس نے اساتذہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے اسے چھوٹی کلاس کے بچوں کو ٹیوشن دینے کا کہا۔ اس کے میتھس میں مہارت کو دیکھتے ہوئے اس کے اسکول کے پرنسپل نے اسے اپنے بھتیجے کو پڑھانے کی آفر کی ۔جو اس نے قبول کی مگر جب وہ اس بچے کے گھر گیا تو اس کے باپ نے یہ کہہ کر زین کو واپس کر دیا کہ یہ معذور کیا پڑھائے گا میرے بیٹے کو۔ زین آج پھر ٹوٹا تھا مگر وہاں سے نکلتے اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ ان سب کو دکھائے گا کہ معذوری اس کی مجبوری نہیں وہ ان سب لوگوں کی ہنسی تمسخر کو اپنی کامیابی کی تالیوں میں اڑا دے گا ۔اس نے اپنی تعلیمی اخراجات کے لیے ایک کوچنگ سینٹر جوائن کی جہاں وہ بڑی کلاسوں کو بھی بہت آسانی کے ساتھ میتھ پڑھاتا رہا تعلیمی منازل طے کرتے ہوئے اس کا ایک ہی خواب تھا استاد بننا اور کمزور طالب علموں کا سہارا بننا چاہے ان کی کمزوری جسمانی ہو یا مالی اس نے بی ایڈ کیا اور سرکاری استاد منتخب ہوا ۔اس کی ابتدائی تقرری اس کے اپنے ہی گاؤں کے سکول میں ہوئی جہاں سے اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی اور جو نیم کے گھنے درخت کے نیچے ہوتا تھا۔اس میں اب یہ ترقی ہو گئی تھی کہ وہ خستہ حال عمارت میں بدل گیا ۔اس نے اپنی مدد آپ کے تحت اس عمارت میں کچھ کام کروائے ۔اس نے نواب شاہ کے قائد عوام یونیورسٹی میں داخلہ لیا اس کا اگلا ہدف میتھ میں ماسٹرز کرنے کا تھا ۔اس کی صحت اب پہلے سے بہت اچھی ہو گئی تھی اس کے ہاتھوں کی مڑی ہوئی انگلیاں ہی وہ واحد چیز تھی جن سے لوگوں کو پتہ چلتا تھا کہ وہ عام انسان نہیں ہے ۔بالآخر اس کے امتحانات ختم ہوئے اور اس کے ماسٹرز کا رزلٹ اس کے لیے اس کے ماں باپ بہن بھائیوں سمیت پورے خاندان اور علاقے کے لیے فخر کا باعث ثابت ہوا ۔زین احمد نے اپنی محنت اور مسلسل کوشش سے وہ مقام حاصل کیا جس کا تصور بھی اس کے گاؤں اور خاندان میں نہ تھا ۔زین نے ان سب لوگوں کی باتوں کو جھوٹا ثابت کیا جو کہتے ہیں کہ ذہانت بڑے شہروں اور بڑے گھروں کی میراث ہے ۔سندھ کی دھرتی کو سرسبز بنانے والے دریا کے اس پار ہزاروں زین احمد رہتے ہیں مگر بد قسمتی سے مواقع نہ ہونے سے وہ آگے نہیں آ پاتے ۔زین احمد نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہے جو گاؤں، گوٹھوں میں رہتےہیں اور ناکافی سہولیات تعلیم کی وجہ سے ہمت ہار دیتے ہیں ۔اب زین احمد نواب شاہ کے ایک کالج میں لیکچرار ہےان کی کامیابی نے ان کی معذوری کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ ملک وقوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔
معذوری مجبوری نہیں ۔ زین کی کہانی
















