Advertisement

عظیم مدبر، ڈاکٹر عبداللہ عمرنصیف اور محصورین بنگلادیش

مجلسِ محصورین پاکستان کے ممبران کوعزت مآب ڈاکٹر عبداللہ بن عمر بن محمد نصیف کے انتقال کی خبر سے گہرا دکھ ہوا ہے۔ جن کا 12 اکتوبر2025 کو جدہ میں طویل علالت کے بعد 86 سال کی عمرمیں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ اتوار کو الجفالی مسجد جدہ میں ادا کی گئی جس کے بعد الاسد قبرستان میں تدفین کی گئی۔ ان کے انتقال پرمجلس محصورین پاکستان کے کنویئرانجیئرسید احسان الحق اوران رفقاء نے تعزیت کا اظہارکیا اور ان کی زندگی اورکام کو خراج تحسین پیش کیا۔
ڈاکٹر عبداللہ عمرنصیف محصورین کاز کی حمایت میں ہمیشہ پُرجوش رہے تھے۔ محصورین کاز کو حل کرنے میں سب سے نمایاں اگر کسی شخصیت کا نام آتا ھے تو وہ مرحوم ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف کا ہے۔ انہوں نے مرحوم ضیاء الحق کے ساتھ مل کر 9 جولائی 1988 کو رابطہ ٹرسٹ برائے منتقلئ محصورین تشکیل دیا جسکے تحت 40 ہزارمحصور خاندانوں کیلئے رابطہ ٹرسٹ نے پنجاب میں مکانات تعمیر کرکے انکو بسایا- اسی کے تحت میاں چنوں اور اوکاڑہ میں 1992 میں ہزار، ہزار، مکانات کی تعمیر مکمل کر لی گئی اور 1993 میں منتقل ھونے والے 65 محصور خاندان میاں چنوں کے مکانات میں آباد ھوئے۔ ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف عالمی شہرت یافتہ سعودی اسلامی شخصیت تھے اور سعودی شوریٰ کونسل کے سابق نائب صدر اور مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے ، وہ 1939 میں جدہ میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے 1964 میں کنگ سعود یونیورسٹی سے کیمسٹری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 1971 میں لیڈز یونیورسٹی سے ارضیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی میں بطور استاد کیا۔ وہ پروفیسر بننے تک اور بعد میں کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے صدر مقرر ہونے تک، تعلیمی صفوں میں اضافہ کرتے رہے۔ انہیں جیولوجیکل سوسائٹی آف لندن اور جیولوجیکل سوسائٹی آف امریکا کی جانب سے کانسی کا تمغہ دیا گیا، جو اسکاؤٹ مووومنٹ کی عالمی تنظیم کا واحد امتیاز ہے، جسے عالمی اسکاؤٹ کمیٹی نے اسکاؤٹ کی غیر معمولی خدمات پر نوازا۔
جب مجلس محصورین پاکستان1993 میں جدہ میں قائم ھوئی تو متعدد بارممبران کو مختلف مواقع پرملاقات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جہاں وہ ہمیشہ توازن اور دانشمندی کی علامت، اعلیٰ کردار کا نمونہ، اور ایک ایسے شخص تھے جن کی سماجی اور انسانی وراثت کو پیار سے یاد رکھا جائے گا۔” ایک نشست مجلس محصورین کے کنویئر انجینئر سید احسان الحق نے اپنے گھرالعزیزیہ میں رکھی جس میں وہ شریک ھوئے اور بھرپور تعاون کا اظہار کیا اور اگر میں یہ کہوں کہ سعودی عرب میں مجلس محصورین کو ببانگ دھل کام کرنے کے حوصلہ ملا وہ ڈاکٹر نصیف کا دست شفقت تھا۔ سعودی اداروں جیسے آئی آئی آر او، ایم ڈبلیوایل اورآئی ڈی بی وغیرہ بھی ان ہی کی بدولت تعاون کرتے تھے۔ ڈاکٹر نصیف کو 1991 میں کنگ فیصل ایوارڈ برائے اسلام کی خدمت اور 2004 میں کنگ عبدالعزیز میڈل سے نوازا گیا۔
2003 محصورین کے کیمپوں میں قربانی کا منجمد گوشت تقسیم کے لئے مجلس محصورین کی درخواست پر سب سے پہلے ڈاکٹر نصیف مرحوم نے اپنے لیٹرہیڈ پر اسلامی ترقیاتی بنک کے صدر ڈاکٹر احمد محمد علی کو مراسلہ بھیجا جو انہوں نے منظور کرلیا۔ 5000 بکروں کی منظوری سے گوشت کی ترسیل شروع ہوگئی ۔
ڈاکٹر نصیف 1998 میں الحارثی ھوٹل جدہ میں مجلس محصورین کے ایک سمینار میں بطور مہمان خصوصی شریک ھوئے ( اسوقت وہ سعودی سینیٹ کے نائب صدر تھے) اس میں پاکستانی سفیر خالد محمود نے صدارت کی تھی- دوسرے مہمانوں میں نامور سعودی صحافی خالد المعینا، اردو نیوز سابق ایڈیٹر انچیف مختار الفال، نصیرھاشمی، رانا عبدالباقی’ وغیرہ شریک ھوئے- اس میں مجلس نے “اپنی مدد آپ کی بنیاد پر محصورین کی منتقلی و آبادکاری” کا منصوبہ پیش کیا تھا جسے شرکاء نے بہت پسند کیا تھا اور اسے ھم نے وقت کے حکمرانوں کو ارسال کیا تھا-
اسکے علاوہ ڈاکٹر نصیف نے مجلس کے بیسیوں پروگرام کی صدارت کی تھی- وہ جامعہ اسلامی اسلام آباد کے بانی رکن بھی تھے اور انہوں نے 2006 میں صدر مشرف سے ملاقات میں بھی مجلس کی تجویز کی یاد دہانی کرائی تھی-
وہ ڈاکٹر فرانسس لمانڈ کو بھی محصورین کاز پر کام کرنے کی تلقین کرتے تھے اوریواین ایچ سی آرڈاکٹر لمانڈ نے 2010 میں ایک ملاقات کے سربراہ کی جنیوا میں ڈاکٹر نصیف سے کروائی تھی جس میں مسئلہ محصورین میں ادارہ کے تعاون کی درخواست کی گئی تھی-
2015 میں جدہ میں موتمر عالم اسلامی( World Muslim Congress) کے سیمینار میں ڈاکٹر نصیف ( جو موتمر کے صدر تھے ) مسئلہ محصورین کو ایجنڈے میں شامل کیا اور پھر سینیٹر راجہ ظفر الحق ( جو جنرل سیکرٹری تھے ) سے ھماری خصوصی ملاقات کروائی جس میں ھم نے اس مسئلہ کے حل کیلئے انکے خصوصی تعاون کی درخواست کی-
انہوں نے مسئلہ کشمیر اور دوسرے امت کے مسائل کے حل میں بھی کردار ادا کیا-
وہ عزم مصمم اور جہد مسلسل لیکن نرم خو شخص تھے اور وقت کے بہت پابند تھے-
اللہ تعالٰی انکی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ bisaat.mag@gmail.com پر ای میل کردیجیے۔
error: