2027ء میں پھر آئی ایم ایف کے در پر کھڑے ہوں گے ، ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کی مظفر اعجاز سے گفتگو
مالی سال 2025/26 کا بجٹ آگیا۔ مہنگائی اور ٹیکسوں کے خدشات، امکانات اوروعدوں کے درمیان قوم گھری ہوئی ہے، اتحادیوں میں بظاہر اختلاف لیکن عوام کے خلاف فیصلوں میں ان کا اتحاد بہت مضبوط ہے لہٰذا بجٹ کو تو منظور ہوکر رہنا ہے، اس حوالےسے ماہنامہ بساط نے ممتاز ماہر معاشیات اور تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے رابطہ کیا اور بجٹ سے متعلق سوالات کیے تاکہ یہ گتھی سلجھ سکے۔
سوال: بجٹ میں احساس پروگرام، سبسڈی اور ٹارگیٹڈ ریلیف کا ذکر ہے لیکن ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ کہاں ہیں یہ سب چیزیں آپ ہی کچھ روشنی ڈالیں ۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: رواں مالی سال کا وفاقی بجٹ ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بنایا گیا ہے مسلم لیگ نون کے منشور سے براہ راست متصادم ہے معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا حکومت کی جو معاشی پالیسیاں ہیں اور پالیسیز ہیں اور جو بینکوں کے لیے پالیسیز ہیں حکومت کی اور اسٹیٹ بینک کی، درست ہی نہیں ہے مسلم لیگ نون کے منشور میں تو یہ کہا گیا تھا کہ وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس لگائیں گے معیشت کو دستاویزی بنائیں گے کالے دھن کو سفید ہونے سے روکیں گے، اس سمت ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور منشور میں یہ کہا تھا کہ اگر یہ تین اقدام نہیں اٹھاتے تو معیشت ٹھیک ہو ہی نہیں سکتی تو آپ جب یہ قدم نہیں اٹھا رہے تو معیشت میں بہتری کا دعوی کس منہ سے کر رہے ہیں خود ان کے منشور کے مطابق بہتری نہیں ا سکتی۔تو کیسا ریلیف کہاں کا ریلیف، اپ ڈھونڈتے رہئیے یہ سب چیزیں۔
سوال: سب سے بڑھ کر کیا پورے بجٹ میں کوئی چیز ایسی ہے کہ یہ امید کی جاسکے کہ آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: بجٹ مقاصد میں اگر آپ دیکھیں تو بنیادی طور پر اس کا جو مقصد ہے وہ یہی ہے کہ آئی ایم ایف سے لازما لازما قرض کی قسط لینی ہے ہر حالت میں لینی ہے تاکہ وہ جو ہمیں کوئی تقریبا 19 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو وہ دوست ممالک سے بھی رول اوور ہوگا کچھ اور قرضے لیں گے، تب جا کر یہ قرض ادا ہوں گے ان حکمرانوں کی یہ ترجیح ہے، معیشت کی بہتری اس بجٹ کا مقصد ہے ہی نہیں معیشت لڑکھڑاتی ہوئی چلتی رہے گی دوسری بڑی اہم بات ہے جو اپ نے پوچھی ہے وہ یہ ہے کہ اس بجٹ میں یہ یقینی بنا لیا گیا ہے پھر کہتا ہوں، یقینی بنا لیا گیا ہے کہ 2027 کے بعد کسی بھی وقت پاکستان خدانخواستہ خدانخواستہ لازما آئی ایم ایف کے پاس جائے گا جو مقاصد ہیں جو کچھ ہو رہا ہے مشرق وسطی کے معاملات ہیں گریٹر اسرائیل ہے اور اور اسلامک اسٹیٹس اور اسلامک اسٹیٹس خراسان کے خلاف ایکشن ہے اس میں پاکستان کا کردار بہت زیادہ اہم ہوگا تو امریکا کی خواہش ہوگی کہ پاکستان ڈیفالٹ نہ کرے بلکہ ان کے احکامات پر عمل کرے تب ھی وہ آئی ایم ایف سے قرضہ دلوائے گا اور دوسری چیزیں دلوائے گا۔
مگر یہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ پالیسی اپنائی جیسی ہم نے نائن 11 کے بعد اپنائی تھی تو اس وقت تو امداد بھی ملی تھی اب اگر ان کی پالیسی اپناتے ہیں یعنی امریکا کی تو پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت زیادہ خطرات ہو جائیں گے ۔
سوال: کیا یہ حکومت معیشت سے سود ختم کرنے کی جانب جارہی ہے ؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: اس بجٹ میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی،ایک آئینی ترمیم ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 2027 تک معیشت سے سود کا خاتمہ کر دیا جائے ہے اس بجٹ میں کوئی ایسا قدم نہیں ہے جس کے معنی یہ ہوں کہ سود ختم کرنا چاہتے ہیں ،بلکہ حقیقتا 2027 تک معیشت سے سود کے خاتمے کا امکان ہی ختم ہو گیا ہے اپ بھی مانیٹری پالیسی کو دیکھ لیجیے وہ پوری شرح سود کے گرد گھوم رہی ہے ۔
اگر معیشت سود پہ چلتی ہے تو معیشت کیسے مستحکم ہوگی، یہ تو کامن سینس کی بات ہے۔
سوال:آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس بڑھائے جارہے ہیں،لیکن ریلیف نہیں ؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: جی ایسا ہی ہےشہباز شریف صاحب نے خود کہا تھا کہ ایف بی ار ٹیکسوں کی مد میں اپنی استعداد سے کم سالانہ وصول کر رہا ہے اس سال کا جو ہدف رکھا ہے اس میں یہ 15 ہزار کا ہدف جو شارٹ فال ہے وہ استعداد سے کم ہے وہ برقرار ہے پھر ملک میں ایسے اثاثے ہیں جن کی تفصیلات حکومت کے پاس ہیں پراپرٹیز ہیں بینکوں کے ڈیپازٹ ہیں اور قومی بچت اسکیموں میں پیسہ لگایا ہوا ہے گاڑیاں ہیں اگر قانون کو نہ توڑیں اور جو معلومات حکومت کے پاس ہیں ملکی اثاثوں کی، جن کو میں ملکی پاناما کہتا ہوں اگر اس پر وصولی کریں تو تقریبا ایک ہزار ارب روپے مل سکتا ہے جس سے آپ کو ریلیف دینا بجلی گیس پیٹرول کے نرخوں میں اور مزید سبسڈی وغیرہ ممکن تھا لیکن حکومت کا یہ ایجنڈا ہے ہی نہیں، یہ آئین توڑیں گے مگر ملکی پاناما پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے اس لیے ریلیف دینے کی باتیں بے معنی ہیں۔
سوال : تجارتی خسارہ کیوں بڑھ رہا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: یہ آپ یقین کر لیں کہ تجارتی عدم توازن اگلے مالی سال میں بڑھے گا، تجارتی خسارہ بڑھے گا روپے کی قدر گرے گی، حکومت نے پیٹرولیم لیوی کی شرح اونچی رکھی ہے اور کاربن ٹیکس بھی لگا دیا ہے، قیمتوں کے اضافے کا بھی رجحان ہے یہ سب معیشت پر منفی اثر ڈالیں گے ،حکومت اسے قرضہ لے کر پورا کرنا چاہ رہی ہے یہ تو تباہی کا نسخہ ہے۔
سوال: مالی نظم کیوں خراب ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: بینکوں کا کام یہ نہیں ہے کہ گردشی قرضوں کے لیے پیسے دیں گردشی قرضوں کو ٹیکسوں کی چوری روک کے کم کرنا چاہیے اخراجات کم کر کے کرنا چاہیے اگر بینک ان کو 1200 ارب دیتے ہیں تو نجی شعبے کو قرضے کم دیں گے جس سے معیشت کی پہلے بھی تباہ یوئی، اپ دیکھ لیں کہ عجیب بات ہے جو دنیا میں کہیں نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں بینکوں نے جو قرضے دیے ہیں صنعت تجارت زراعت وغیرہ کے لیے وہ 13 ہزار ارب کے ہیں اور حکومت کو جو قرضے دیے ہیں حکومت کی تمسکات میں سرمایہ کا دی جو کی ہے وہ 31 ہزار کی ہے، کبھی پاکستان میں ایسا نہیں ہوا میں نے دنیا بھر میں ٹاپ پوزیشن میں کام کیا ہے بینکنگ میں،اور میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ یورپ میں امریکا میں، مشرق وسطی میں افریقا ،میں پہلے پاکستان میں بھی نہیں ہوتا تھا یہ اگ سے کھیل رہے ہیں کم کرنے کا ان کا ارادہ نہیں ہے یہ بڑھانا چاہتے ہیں، دیکھیے اس خسارے کو یہ پورا کرنا چاہتے ہیں ترسیلات سے اور یہ کارکنوں کی ترسیلات ہیں لیکن اتنی بڑی بڑی رقوم انکم ٹیکس آرڈیننس سے کالا دھن سفید ہوتا ہے اور ایک لاکھ ڈالر پر 40 لاکھ روپے ٹیکس سے نقصان ہوتا ہے تو یہ آگ سے کھیلتے ہیں یہ صرف پاکستان میں ہے پاکستان واحد ملک ہے جن کی ترسیلات زیادہ ہیں ، بھارت میں ترسیلات 124 ارب ڈالر ہیں اور برآمدات 777 ارب ڈالر ہے یعنی چھ گنا اگر ہماری تین گنا بھی ہوتی ہے تو ہماری قسمت بدل جاتی مگر حکومت کی ترجیح اگلے سال اور زیادہ یہ ہے کہ ترسیلات بڑھائیں گے، اس کی وجہ سے بے روزگاری جو پہلے ہی بہت اونچی ہے اس میں کمی نہیں ہوگی تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف ضرور دے دیا ہے لیکن کئی گنا زیادہ دوسرے ہاتھ سے واپس بھی لے لیا ہے اپ یہ دیکھیں کہ پاکستان میں کروڑوں لوگ ہیں جن میں تنخواہ دار بھی ہیں دوسرے لوگ بھی ہیں ان کو مئی 24 میں بینکوں سے بچتوں پر 20 اعشاریہ پانچ فیصد منافع ملا تھا اب 2025 میں نو اشاریہ پانچ فیصد ملا ہے یعنی 3 ہزار ارب روپے کے جو ڈیپازٹ تھے اس میں منافع کی شرح آدھی رہ گئی تو کتنا زبردست نقصان پہنچایا۔ بینکوں نے فائدہ اٹھایا حکومت نے فائدہ اٹھایا اور بچتوں کی شرح گری لوگوں کی قوت خرید گری اور یہ معیشت کے لیے تباہی کا نسخہ ہے اور یہ جو شرح سود میں کمی ہے بینکنگ کمپنیز ارڈیننس کی کھلم کھلا خلا ف ورزی ہے
سوال:تعلیم پر بجٹ کیوں نہیں بڑھتا؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: تعلیم شاید ترجیح نہیں ہےانہوں نے تجاویز میں رکھا تھا کہ صوبے فاضل بجٹ دیں گے مرکز کی اتحادی سندھ حکومت نے خسارے کا بجٹ دیا ہے تو بجٹ خسارہ تو پہلے ہی متوقع تھا گویا بجٹ بھی بیماری ہو گیا ہے۔
سوال : دفاعی بجٹ بڑھنا چاہیے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں تائید غیبی سے بنیان مرصوص میں کامیابی عطا فرمائی تھی اس جنگ کے نقصانات ہوئے ہیں ، ظاہر ہے ہندوستان کو زیادہ ہوئے ہیں مگر ہمیں بھی ہوئے ہیں اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اگر دفاعی بجٹ نہیں بڑھایا تو مشکلات ہونگی، اور یہ بجٹ بڑھانا تو ہوگا لیکن عوام پر بوجھ ڈال کر بجٹ خسارہ بڑھا کر نہیں ، بلکہ اپنے اخراجات کم کر کے ٹیکس چوری روک کر دفاعی بجٹ بڑھائیں۔
سوال:پھر مسائل کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی: ہر ادمی ، ہر ادارہ ، ریلیف مانگ رہا ہے تو یہ تو ہو نہیں سکتا ہے انہیں چاہئیے کہ ہر قسم کی امدنی پہ ٹیکس لگائیں معیشت کو دستاویزی بنائیں کالے دھن کو سفید ہونے سے روکیں تعلیم اور صحت اور انسانی وسائل کی ترقی کے بجٹ میں اضافہ کریں اور ایک حلف نامہ بھروائیں تمام سیاسی پارٹیوں سے اور ممبران پارلیمنٹ سے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائیں گے اور ایسا کوئی بجٹ پاس نہیں کریں گے جس سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے، لازما لازما اس کے پاس جانے سے اجتناب کریں گے، یہی حل ہے ۔