گزشتہ چند برسوں میں پاکستان توانائی کے مستقل اور شدید بحران کا شکار رہا ہے اور اس کے حل کے لئے مختلف تجاویز، منصوبے اور حکومتی اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس سلسلے کو اگر ہم ملک کی تیزرفتار ترقی اور خصوصاً سی پیک جیسے بڑے منصوبوں سے جوڑیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حقیقی اور پائیدار ترقی کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔یہ بہت نازک وقت ہے جب پاکستان اپنے پڑوسی ممالک سے نہ صرف اقتصادی بلکہ تکنیکی اور دفاعی اعتبار سے بھی ایک بھرپور مقابلے میں شامل ہے۔اس تناظر کو اگر گلوبل وارمنگ کے عمل اور موسمیاتی تبدیلی سے جوڑدیں تو ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے وسائل کیا ہیں اور ہمیں ان میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے اور یہ اس فیصلے کا انتہائی اہم وقت ہے۔
اگر ہم اپنے ملک کا موازنہ دیگر ممالک سے کریں تو اندازہ ہوگا کہ ہم بہت کم توانائی استعمال کر رہے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ ہمارا معیار زندگی ہے۔توانائی اگر بجلی کی صورت میں ہو تو اس کا شمار یونٹس میں کیا جاتا ہے۔ایک کلو واٹ بجلی اگر ہم ایک گھنٹے تک خرچ کریں تو یہ ایک یونٹ کہلاتا ہے۔دنیا بھر میں اوسطاً بجلی کا استعمال 2700 یونٹ سالانہ ہے جبکہ پاکستان میں اس میں یہ شرح صرف 450 یونٹ سالانہ ہے۔تاہم واضح رہے کہ پاکستان کی یہ اوسط دیہی اور شہری آبادیوں کو ملا کر ہے اور صرف شہروں کو دیکھا جائے تو یہ شرح کہیں زیادہ ہوگی۔اس صورتحال میں جہاں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہمیں اور بہت ترقی کرنی ہے، وہیں ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم ایک سادہ طرزِ زندگی والی قوم ہیں، ہم بہت کم وسائل کا ضیاع کرتے ہیں اور اس طرح اپنے ماحول کو کسی حد تک تحفظ دیتے آئے ہیں۔
پائیدار ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے معیارِزندگی کو بہتر نہ کریں بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنی ترقی کو ماحول سے ہم آہنگ کیا جائے اور آنے والی نسلوں کے لئے قدرتی وسائل بچا کر رکھے جائیں اور ان کے لئے ایک سازگار ماحول چھوڑا جائے۔لہٰذا دنیا بھر میں صنعتی ترقی اور بالخصوص توانائی کے شعبے سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کئی بین الاقوامی اور عالمی معاہدوں‘ جیسا کہ1997 میں جاپان میں ہونے والے کیوٹو پروٹوکول سے لے کر 2015 میں پیرس معاہدے تک کئی بار اقوام عالم اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے عملی اقدامات تیز تر کئے جائیں۔ چنانچہ پیرس معاہدہ میں گلوبل وارمنگ کو زیادہ سے زیادہ 2 درجے سینٹی گریڈ پر روکنے کے لئے اقوام عالم کو کاربن اخراج کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اب اس کام کے لئے بڑے منصوبے بنا رہے ہیں۔
پیرس معاہدے کے تحت ہر ملک اپنی کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو کم کرنے کے لئے قومی اہداف مقرر کرے جس کو (Nationally Determined Contribution (NDC) کہا جاتا ہے اور اس کے لئے قومی سطح کے منصوبوں کو عمل میں لانا پڑا ہے۔لہٰذا پاکستان نے بھی اپنا این ڈی سی کا معاہدہ جمع کروادیا ہے اور اس کے تحت ہمیں 2030 کے اہداف میں کاربن کے اخراج کو20 فیصد کم کرنا ہوگا۔
ہمارے شمالی علاقوں میں پن بجلی کے لئے جو قدرتی مواقع موجود ہیں وہ کسی بھی ترقی پسند قوم کے لئے ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی طرح توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی وغیرہ اور روایتی ذرائع مثلاً کوئلہ اور گیس وغیرہ کا نہ صرف اقتصادی موازنہ ضروری ہے بلکہ ان کے دُور رَس ماحولیات اور صحت پر پڑنے والے اثرات کا تجزیہ بھی نہایت اہم ہے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دنیا کے دیگر ممالک اس وقت کس سمت میں جارہے ہیں اور سائنسی بنیادوں پر کیا چیز ہمارے لئے بہترین ثابت ہوگی۔ جب تک ہم تمام صورت حال کا جائزہ نہیں لے لیتے ہمیں یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے کہ ہم کس ذریعے کو اختیار کرتے ہوئے ترقی کریں۔
اس وقت پاکستان میں توانائی کی کل ضرورت تقریباً 22000 میگاواٹ ہے جبکہ اس کی پیداوار سترہ سے اٹھارہ ہزار میگاواٹ ہے۔اس طرح 4000 سے 5000 میگاواٹ کی کمی ہے چنانچہ ہمیں نہ صرف سستے بلکہ ماحول دوست اور مستقبل میں فائدہ مند ذرائع کو کام میں لانا ہوگا۔بجلی دو طریقوں سے بن سکتی ہے، ایک تو جنریٹر چلانے سے جس کے لئے ٹربائن کو گھومنا پڑتا ہے۔دوسرا شمسی توانائی کے ذریعے، ٹربائن گھومنے والا ذریعہ کئی طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً پانی سے، بھاپ یا ہوا کے زور پر اس کو گھما سکتے ہیں۔ ہوا، شمسی توانائی اور کچھ نئے ذرائع کو متبادل ذرائع میں شمار کیا جاتا ہے۔تو آئیے ان ذرائع کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
پن بجلی
توانائی کا سب سے سستا ذریعہhydropower یعنی پن بجلی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس پر اتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اس کے ماحولیاتی اثرات بھی دیگر روایتی ذرائع کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔پن بجلی کے منصوبے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جن میں ڈیم (Reservoir)بنایا جاتا ہے۔ اس کے ابتدائی اخراجات اور قیمت زیادہ ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ قیمت وصول ہو جاتی ہے۔دوسرا سٹریمنگ ہائیڈرو پاور ہے جس میں ڈیم بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بجلی، ندی یا دریا کے بہاؤ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔اس کے چھوٹے چھوٹے بہت سے جنریٹرز لگ سکتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ ان کو چھوٹے ندی نالوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے ۔ ایک درمیانہ جنریٹر ایک ہزار سے زائد گھروں کو بجلی فراہم کر سکتا ہے اور یہ ماحول پر کوئی منفی اثرات بھی نہیں ڈالتے ہیں۔
2003 میں بھارت نے ایک بڑا منصوبہ بنایا جس میں پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے 162 ذیلی منصوبوں کو منظور کیا گیا۔اگر ہم پاکستان کے شمالی علاقوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے عظیم پہاڑی سلسلے پن بجلی کے لئے نہایت موزوں ہیں اور ان کے بہتے دریاؤں میں پانی کا قدرتی طور پر تیز بہاؤ اور دریا کی ڈھلان ہمیں بڑے ڈیم بنائے بغیر، چھوٹے ڈیمز اور اسٹریمنگ ہائیڈرو پاور سے اتنی بجلی پیدا کر کے دے سکتے ہیں جو ملکی ضرورت سے تین گنا زیادہ ہوگی۔چنانچہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں 65000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے بن سکتے ہیں۔مثال کے طور پر صرف تین منصوبے بونجی ہائڈرو پاور پروجیکٹ جس سے 7500 میگاواٹ اور دیامر،بھاشا ڈیم جس سے 4500 میگاواٹ پیدا ہوسکتے ہیں اور داسو ڈیم بھی 4500 میگاواٹ پیدا کر سکتا ہے۔ان میں چند منصوبے سی پیک سے بھی جڑے ہیں۔دیگر چھوٹے بڑے منصوبوں کے ذریعے موجودہ اور مستقبل کی ملکی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔
پن بجلی میں چونکہ ایندھن استعمال نہیں ہوتا، اس لئے اس کے ماحولیاتی اثرات کوئلے اور تیل کے مقابلے میں بہت کم ہیں اور ان سے ہمالیہ اور قراقرم کے پگھلتے ہوئے گلیشئیرز کو بھی بچایا جا سکے گا کیونکہ یہ پہاڑوں پر موسم سازگار بنانے میں مدد دیتے ہیں۔تاہم ڈیم سازی کے عمل سے سمندروں میں مٹی کی ترسیل رکتی ہے اور پہاڑوں کا خاصا رقبہ زیرآب آجاتا ہے جس سے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
واپڈا کو ڈیمز سے اس وقت سات ہزار میگاواٹ بجلی مل رہی ہے۔جو کہ 2014 میں 1.5 روپے فی یونٹ پڑتی تھی اور داسو ڈیم جیسے منصوبے 50 پیسے فی یونٹ کی قیمت پر بجلی مہیا کریں گے۔یہی بجلی اگر اسٹریمنگ ہائیڈرو پاور سے بنائی جائے تو اس کی قیمت تقریبا 10 سے30 پیسے فی یونٹ پڑے گی۔جبکہ 31 دسمبر 2016 کو واپڈا کی پریس ریلیز کے مطابق مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمتیں کچھ یوں رہیں، پن بجلی 2.15، گیس 9.07، فرنس آئل 11.05، ہائی اسپیڈ ڈیزل 17.96، کوئلہ 12.08، نیوکلیئر 6.87، سولر 17، ہوا سے بجلی 16.63 روپے فی یونٹ۔ لہٰذا عوام کو اس وقت اوسط قیمت ساڑھے گیارہ (11.50) روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی ترسیل کی جارہی ہے اگر پن بجلی کا تناسب بڑھا دیا جائے تو یہ مزید سستی ہو سکتی ہے۔
ہوا سے بجلی
ہوا سے بجلی بنانے کا عمل اس وقت دنیا بھر میں کافی مقبول ہو رہا ہے اور کئی یورپی ممالک ہوا کو استعمال کر رہے ہیں۔اس وقت ملک میں جو بڑے منصوبے چل رہے ہیں وہ گھارو اور جھمپیر پر ہیں۔ہوا کی اس راہداری میں ہوا کی رفتار نہایت تیز ہے اور یہاں کل پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس وقت ملک میں صرف 590 میگاواٹ بجلی ہوا سے بن رہی ہے۔ہوا جو کہ مفت حاصل ہوتی ہے، اس سے بجلی بنانے کو ایک ماحول دوست عمل سمجھا جاتا ہے تاہم ہوا کے زور پر ٹربائن یا جنریٹر چلانے کے لئے جو ٹیکنالوجی درکار ہے وہ اس وقت خاصی مہنگی ہے اور اس کے بھی ماحول پر کچھ نہ کچھ منفی اثرات ہوتے ہیں۔مثلاً شور وغیرہ‘ اور یہ سردیوں میں آنے والے پرندوں کے لئے بھی مضر ہوسکتے ہیں۔اس وقت موجودہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ ذریعہ مہنگا ہے اور وہاں زیادہ قابل استعمال ہے جہاں دیگر ماحول دوست ذرائع موجود نہ ہوں۔
شمسی توانائی
شمسی توانائی پر بھی دنیا بھر میں بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہے جو پہلے سے سستی بھی ہے اور دیرپا بھی۔اس کو ماحول دوست اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں بغیر کسی ایندھن کے محض سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔پاکستان چونکہ سب ٹروپیکل ممالک میں آتا ہے، لہٰذا ہمیں دھوپ کئی گھنٹے خاصی شدت کے ساتھ ملتی ہے۔ لہٰذا شمسی توانائی کے مواقع ہمارے ہاں خوب ہیں۔اس وقت بازاروں میں ہر سائز کی چھوٹی بڑی سولر پلیٹیں دستیاب ہیں۔ان کی اوسط 25 سال تک گارنٹی ہوتی ہے۔ تاہم بظاہر مفت نظر آنے والی شمسی توانائی چونکہ صرف دن میں بجلی مہیا کر سکتی ہے، اس لئے رات میں بجلی حاصل کرنے کے لئے اس کو ذخیرہ کرنا پڑتا ہے (جو کہ ایک مہنگا کام ہے) یا پھر رات کو دیگر ذرائع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر اس وقت ملک میں قائد اعظم پاور پلانٹ اور بہاولپور جیسے بڑے منصوبے کام کر رہے ہیں۔یہ پلانٹ صرف 100 میگاواٹ بجلی بنا رہا ہے اور اس وقت موجود ذرائع میں سب سے مہنگا ہے۔یہ ذریعہ صرف اس جگہ کارآمد ہے جہاں بجلی کی قومی ترسیل (نیشنل گرڈ) نہ ہو یا بجلی کا کوئی اور متبادل نہ ہو مثلاً دُور دراز کے گاؤں دیہات وغیرہ میں چھوٹے پیمانے پر بجلی کے استعمال کے لئے یہ موزوں ہے۔لیکن یہ بات واضح رہے کہ آنے والے وقت میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ توانائی کا یہ وسیلہ سب سے کارآمد ہوگا۔
تھرمل پاور
اس وقت پاکستان میں ملکی پیداوار کا ایک بڑا حصہ تھرمل پاور پر منحصر ہے، اب تک ہم گیس یا تیل سے ہی بجلی بناتے آئے ہیں۔جبکہ کوئلے کا استعمال قومی پیداوار کا صرف ایک فیصد رہا ہے۔ کوئلہ کا استعمال انسانی تاریخ میں نیا نہیں۔ اس کا شمار حیاتیاتی ایندھن میں ہوتا ہے اور اس کو ڈرٹی فیول کے نام سے جانا جاتا ہے۔لہذا دنیا بھر میں تھرمل پاور کو عموماً اور کول پاور کو خصوصاً بتدریج ترک کیا جارہا ہے۔خود امریکا، چین اور ترقی یافتہ یورپی ممالک اپنے ملک میں اس سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پریشان ہیں۔یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ توانائی تھرمل پاور اور خصوصاً کوئلے سے حاصل کی جارہی ہے۔لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کی قیمت بہت زیادہ ہے اور دنیا بھر میں اب اِسے ترک کرنے کے لئے کھربوں ڈالر کے منصوبے عمل میں لائے جا رہے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ کاربن کے اخراج کو کم کرنا اور ماحول کی تباہی کو روکنا ہے۔جیساکہ امریکہ میں 2015 میں ایک بڑا منصوبہ ’’کلین پاور پلان‘‘ کا صدر اباما نے نے خود اعلان کیا، جس میں کول پاور پلانٹس سے کاربن اور آلودگی کے اخراج کو کم کیا جارہا ہے۔اسی طرح گزشتہ تین سالوں سے چین اپنے کوئلے کے استعمال کو کم سے کم تر کرتا جارہا ہے۔کوئلے سے ہونے والی آلودگی ماحول کوبے حد نقصان پہنچاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں سی پیک کے تحت فوری دس منصوبے Early Harvest Energy Projects کے نام سے شروع کئے گئے ہیں جو 2018 تک دس ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کریں گے۔اس کے علاوہ کئی منصوبے اور ہیں۔ ان میں بیشتر منصوبے کول پاور کے ہیں جن میں کئی پلانٹ بیرون ملک سے کوئلہ درآمد کریں گے اور کچھ تھر کا کوئلہ استعمال کریں گے۔تمام پاور پلانٹس چین سے درآمد کئے جا رہے ہیں۔ان میں آلودگی‘ جیسے کہ بیشتر گیسیں اور خطرناک دھاتیں مثلاً مرکری (پارہ) اور سیسہ جو ذہنی معذوری اور دیگر خطرناک امراض کا باعث بنتے ہیں، کو روکنے کا کوئی خاص تدارک نہیں ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت جہاں بھی کول پاور پلانٹس استعمال ہورہے ہیں وہاں سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی متعارف کرائی جاچکی ہے اور کئی ممالک میں اس کو مزید جدید بناکر الٹرا سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے جس سے نہ صرف خطرناک گیسوں بلکہ خطرناک دھاتوں کا اخراج بھی کم کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہے اور اس سے بجلی کی قیمت بڑھ جائے گی۔ لہٰذا پاکستان میں نئے لگنے والے کول پاور پلانٹس میں سے صرف چند ہی اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے اور اس سے بجلی کی قیمت 12 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ جائے گی۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے حال ہی میں Minamata Convention پر دستخط کئے ہیں، جس کے Annex D کے مطابق حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ملک میں کوئلے کے ذریعے مرکری کی آلودگی کو روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کرے گی۔
اب اس ضمن میں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری دیرپا ترقی کے لئے کون سے ذرائع ہمارے لئے مفید ہیں؟ کیا ہمارے پاس ایسے ذرائع موجود ہیں جو ماحول دوست بھی ہوں اور سستے بھی؟ کیا ہم اپنی عوام کو بہتر ماحول اور ایک بلند معیار زندگی، معاشی کامیابی کے ساتھ دے سکتے ہیں؟ توانائی کے بغیر ترقی ناممکن ہے، لہٰذا حکومت کو ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں توانائی کے وہ ذرائع استعمال کئے جائیں جو لوگوں کی صحت کو نقصان نہ پہنچائیں، کم قیمت ہوں، کاربن کا اخراج بھی نہ کریں اور سی پیک جیسے عظیم منصوبوں کے ذریعہ لمبے عرصے تک ملک اور قوم کی بقا اور خوشحالی کا باعث بنے۔
پاکستان اگر اپنی قومی توانائی کا صرف ۱یک فیصد کوئلہ سے پیدا کر رہا ہے تو یہ نہایت خوشی کی بات ہے، جس سمت میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جانا چاہ رہے ہیں ہم پہلے ہی وہاں موجود ہیں ہمیں پیچھے جانے کے بجائے اکیسویں صدی کی اس دوڑ میں آگے کی طرف جانا چاہئے۔ایسے منصوبوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو مہنگے بھی ہوں اور ماحول کے لئے نقصان دہ بھی۔اس صورتحال میں اگر حکومت پن بجلی پر توجہ دے اور اس کے نظام ترسیل پر رقم خرچ کرے، ساتھ ہی شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی بنانے کے شعبے میں تحقیق کو تیز کرے، تو کوئی بعید نہیں کہ ہم توانائی میں ناصرف خودکفیل ہوجائیں گے بلکہ اپنی ترقی کے خواب بھی پورے کر سکیں گے۔
توانائی کا بحران اور اس کا بہترین حل
