دنیا جتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے ، حساس سیکیورٹی آلات ایجاد ہورہے ہیں ،ہردم نگرانی آسان ہوگئی ہے ،اسی قدر حکمران طبقے میں خوف اور غیر محفوظ ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ دنیا بھر میں ہے امریکی فوجی تو اپنے حفاظتی سامان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوتے ہیں ،ان کے حکمران بھی اسی طرح خوفزدہ ہیں ۔ پاکستان میں یہ بیماری جنرل پرویز کے زمانے میں آئہی ، اس دور میں عوام کے بجائے سیکیورٹی فورسز کے تحفظ کے اقدامات میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی ، سیکیورٹی فورس کے دفاتر اوررہایش گاہوں کے سامنے کنکریٹ کی رکاوٹیں ، مضبوط دوہری دیواریں بنائی گئیں اور حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بھی خصوصی سیکیورٹی دی جانے لگی،اور حال یہ ہوگیا کہ ملک کی سیکیورٹی کے اداروں کی بھاری نفری حکمرانوں اور خود سیکیورٹی والوں کے تحفظ کے لئیے استعمال ہوتخ ہے یا حکومت کے مخالفین کی نگرانی اور سرکوبی کے لئیے ، تو پھر عوام کو تحفظ کیسے ملے گا، اور کون دے گا۔ ان حالات میں وفاقی حکومت نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کو ملک گیر فیڈرل فورس میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی کابینہ کی طرف سے فرنٹیئر کانسٹیبلری ایکٹ 1915 میں ترامیم کی منظوری کے بعد پورے پاکستان میں ایف سی کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اس فورس کا نام بدل کر فیڈرل کانسٹیبلری رکھا جائے گا۔ جس کو چاروں صوبوں، اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں کام کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد، نئی فورس کے لیے ملک بھر میں بھرتی کی جائے گی، جس کے ملک بھر میں دفاتر قائم کیے جائیں گے ،تنظیم نو فریم ورک کے تحت، فیڈرل کانسٹیبلری کی کمانڈ پولیس سروس آف پاکستان کے افسران کریں گے، فیڈرل کانسٹیبلری کے قیام سے ملکی داخلی سلامتی اور امن عامہ کے قیام میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔ اس اقدام کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک بھر میں پولیس، سی آئی ڈی ،ایف ائی اے، رینجرز سی ٹی ڈی اور دیگر سیکیورٹی ادارے ناکام ہوگئے ہیں اس لئیے ایک نئے ادارے کی ضرورت پڑی ہے۔
دنیا جدید ہوتی جارہی ہے لیکن اس جدت کے ساتھ ہم ملک کو نصف صدی سے بھی زیادہ پیچھے کیوں لے جارہے ہیں ، یادش بخیر ملک کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ،سابق وزیر اعظم اور صدر رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح ایک فیڈرل سیکیورٹی فورس ایف ایس ایف قائم کی تھی ، جس کی دھاک پورے ملک میں بیٹھی ہوئی تھی اور وہ بھی تحفظ اور سیکیورٹی کے نام پر ذہنی طور پر غیر محفوظ حکمران کے ذہن کی اختراع تھی ،یہ اور بات ہے کہ اس کے سربراہ مسعود محمود ہی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے میں کام آئے ،تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری ہوئی ہے ،خود بھٹو صاحب جن جنرل ضیاالحق صاحب کو کئی جرنیلوں پر فوقیت دے کر لائے تھے ان ہی کے ہاتھوں پھانسی کے تختے تک پہنچ گئے۔
تاریخ کے اس واقعے سے قطع نظر ایک بار پھر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکمران پھر خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ،یہ آرڈیننس بظاہر صدر مملکت آصف زرداری جاری کریں گے لیکن اس میں بھرتی کس کو کیا جائے گا، کیا معیار ہوگا ، کس حد تک پارٹی اور سیاسی وابستگی کام ائے گی ،اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے والا حکمران طبقہ کیونکر سیکیورٹی جیسے حساس معاملے میں ایمانداری کا مظاہرہ کرے گا۔ اس فورس کے قیام سے قبل حکومت کو چند باتوں کی وضاحت کرنی ہوگی ، ایک یہ کہ کیا پولیس اور دیگر فورسز عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہیں، اگر ہاں تو پھر ان پرانی فورسز میں سے ایک دو کو ختم کیا جائے،تاکہ عوام کے تحفظ کے نام پر عوام کے وسائل کا زیاں روکا جاسکے، یقینا اس کے لئیے بھی دلائل ہونگے ،لیکن کم از کم ان سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کا حساب تو قوم کے سامنے پیش کیا جائے، یہ بھی بتایا جائے کہ عوام کے تحفظ کے نام پر بننے والے اداروں کے کتنے کارکن اور کتنے فنڈز خود سیکیورٹی اداروں،افسروں اور حکمرانوں کے تحفظ کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور کتنے عوام کی اور حکومت مخالفین کی نگرانی کے لئیے ۔ قوم کو یہ پتا تو چلے کہ اس کے وسائل کہاں استعمال ہوتے ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اس اقدام کو قومی سطح پر داخلی سلامتی کے طریقہ کار کو مضبوط اور مرکزی بنانے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ادارے بڑھتے گئے جرائم بڑھتے گئے، عدم تحفط میں اضافہ ہوتا گیا، دہشت گردی بھی بڑھتی گئی ، تو پھر عوام کے وسائل عوام ہی کے نام پر ایلیٹ طبقے کے لئیے کیوں لٹائے جائیں ؟
یہ حقیقت بھٹو کے وارثوں سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ بھٹو کے معتمد ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود ہی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے ،پھر بھی کیا ان ہی بھٹو کے داماد صدر پاکستان آصف زرداری ایسا آرڈیننس جاری کریں گے،اس آرڈیننس کے کیا مقاصد ہیں ،یہ خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا فیصلہ ہے یا کسی نے ان سے کروایا ہے ،اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس نئی فورس یا نئے نام اور اختیارات کے بعد قوم محفوظ ہوجائے گی ، ملک میں امن و امان ہوجائے گا ۔اور آئندہ کسی نئی فورس کی ضرورت نہیں پڑے گی ، ان سب سوالات کے جوابات حکمرانوں میں سے کسی کے پاس نہیں ،ان کا جواب بھی وقت دے گا اور تاریخ دیگی ،جس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔
ایف ایس ایف کی بھیانک تاریخ کو اب لوگ بھولتے جارہے ہیں ،آج کی دنیا تو گوانتاناموبے کو بھی بھولتی جارہی ہے،جب لوگ گھروں سے غائب کرکےدوسرے ملک پہنچادئیے جاتے تھے، ان ہی میں سے ایک قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہے، اسی بھٹو اور ایف ایس ایف دور کے دلائی کیمپ کو بھی لوگ بھولتے جارہے ہیں ،جب بھٹو اور حکومت مخالفین کو گھروں اور راستوں سے غائب کردیا جاتا تھا ،کسی کو نہیں پتا تھا کہ دلائی کیمپ کی طرح کے اور خرکار کیمپ ہیں اور کہاں کہاں ہیں ، اور جب کوئی وہاں سے فرار ہوکر آجاتا تو لوگوں کو پتا چلتا کہ وہاں ایف ایس ایف یا حکومت کیا مظالم ڈھارہی ہے ،یا پھر بھٹو حکومت کے خاتمے پر پتا چلا کہ کہاں کہاں کیمپ بنے ہوئے ہیں ،اور مسلم لیگی رہنما خواجہ خیرالدین کی زبانی دلائی کیمپ کی کہانی سب نے سنی ہی ہوگی ،لیکن حکمرانوں سمیت سب ہی حقائق اور نتائج بھول رہے ہیں ۔
فیڈرل فورس ایک اور ایف ایس ایف ؟؟
















